مودی سرکار کر کے دو برس پورے ہونے پر کئی اخبار ‘ٹی وی چینل اور لیڈر حضرات بھی پوچھ رہے ہیں کہ آپ اس سرکار کو کتنے نمبر دیتے ہیں ؟اس کا جواب تو یہ ہے کہ سرکار کسی کی شاگرد ہے ‘کیا؟وہ کسی امتحان میں بیٹھی ہے ‘کیا؟اسے بھلا کون نمبر دے سکتا ہے ؟وہ ہی سب کو نمبر دے رہی ہے ۔وہ ہیڈ ماسٹر بنی ہوئی ہے ۔اندرا گاندھی کے بعد اتنی تگڑی سرکار صرف نریندر مودی نے ہی بنائی ہے ۔اگر آپ نے اسے ایک نمبر بھی کم دے دیا تو سمجھ لیجئے کہ آپ کی شامت آگئی ۔اگر آپ پچھلی سرکاروں سے مقابلہ کریں تو اس سرکار کو آپ دس میں سے دس نمبر بھی دے سکتے ہیں ۔پچھلے دوبرس میں اس نے لگ بھگ چالیس بڑی تجویزوں کا اعلان کیا ہے ۔جن دھن تجویز ‘ڈجیٹل انڈیا ‘میک ان انڈیا اور بھی نہ جانے کیا کیا !کسی دوسری سرکار نے کیا کبھی صرف دوبرس میں اتنے مشن چلائے ؟من موہن سرکار نے منریگا چلاکر دیہاتی مزدوروں کو سیدھا فائدہ پہنچایا تو مودی نے ایسی درجن بھر تجاویز چلا دیں ۔اسے کہتے ہیں ‘راحت کی سیاست ۔اپوزیشن اسے رشوت کی سیاست بھی کہہ سکتی ہے ۔لیکن تم ڈال ڈال تو ہم پات پات !اس طرح دو برس میں جتنے دورے مودی نے بیرونی ممالک کے لگائے ؟جتی بڑی بڑی پبلک میٹنگ مودی نے وہاں کیں ‘اتنے بڑے عوامی جلسے ہمارے دیگر وزرائے اعظم تو کیا ‘ان ملکوں کے وزرائے اعظم یا صدور بھی نہیں کر سکتے ۔اسکے علاوہ بد عنوانی کا ایک بھی معاملہ ابھی تک سامنے نہیں آیا ۔اس لیے انہیں دس میں سے دس نمبر !
لیکن سات فیصد کی اقتصادی ترقی کا آنکڑا نچانے کے باوجود روزگار ایک چوتھائی بھی سرکار پیدا نہیں کرسکی یعنی ترقی کس کی ہورہی ہے ؟تیل کے انٹرنیشنل نرخ ایک چوتھائی ہو جانے کے باوجود مہنگائی کم ہونا تو دور ‘تیل کے دام بھی کم نہیں ہوئے ۔تاجر اور صنعتکارسبھی ہائے ہائے کرتے دکھائی پڑ رہے ہیں...کیوں ؟پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات سدھارنے کی تابڑ توڑ کوشش لیکن تنازع بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے ۔بھاجپا اب کانگریس کے ڈھرے پر ہی ہے ۔وہ 'ماں ‘بیٹا ‘ پارٹی ہے اور اور یہ 'میں اور میرا بھائی ‘پارٹی بنتی جا رہی ہے ۔میں اور میرا بھائے !پیتے ہیں چائے !!بھاجپا کے پاس واضح اکثریت تو ہے لیکن اتنی ہی عقلمندوں کی اکثریت بھی ہے یا نہیں ؟شاید اس لئے وہ عدالت اور اپوزیشن کے ساتھ ابھی تک پٹری نہیں بٹھا پائی ۔اسے پانچ برس ملے ہیں ۔ہر سال کے دونمبر!ابھی صرف دو برس ہوئے ہیں ۔اس لئے دس میں سے چار نمبر !کیسی رہی ؟
معین خان کو میر ا سلام !
نئی دلی کی میونسپل کونسل کے قانون افسر معین خان کا قتل ہو گیا ۔کئی افسروں کے قتل کی خبریں چھپتی رہتی ہیں ۔لیکن اس خبر نے مجھے جھک جھور (جھنجھوڑ)دیا ۔اس افسر کا قتل اس لیے کراوایا گیا کہ اس نے تین کروڑ روپیہ رشوت لینے سے انکار کر دیا تھا ۔ معین خان کو یہ رشوت اس لیے دی جا رہی تھی کہ وہ دلی کے ایک ہوٹل والے پر 'مہربانی‘نہیں کر رہے تھے ۔کناٹ پیلیس ہوٹل کے مالک سے میونسپل پالٹی 150 کروڑ روپیہ فیس وصول کرنا چاہتی تھی ۔ہوٹل مالک کا کہنا تھا کہ معین خان تین کروڑ روپیہ کی رشوت لے لے اور ڈیڑھ سو کروڑ روپیہ کا آیا گیا کر دے ۔اس ہوٹل کے مالک کو 1981 ء میں یہ قیمتی زمین ایک ہوسٹل بنانے کے لیے دی گئی تھی لیکن پہلے اس کو ایک ٹورسٹ لاج بنایا گیا اور بعد میں اسے فور سٹار ہوٹل میں بدل دیا گیا ۔1995 ء میں اس کی لیز رد ہو گئی لیکن ہوٹل والے نے زمین خالی نہیں کی ۔اب عدالت نے اس پر پانچ لاکھ جرمانہ عائد کیا اور 142 کروڑ روپیہ کی فیس بھرنے کا حکم صادرکیا ۔اسی کی وصولی کے لیے قانون افسر کو مقرر کیا گیا تھا ۔
معین خان جامعہ نگر میں رہتے تھے ۔انہوں نے پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا تھا اور ایل ایل بی پاس تھے ۔وہ اپنی کار سے گھر جا رہے تھے ۔دو لوگوں نے ان کی کار روک کر راستہ پوچھا ۔انہوں نے جیسے ہی شیشہ نیچے کیا انہیں گولی مار دی گئی ۔دلی کی مستعد پولیس نے موبائل فون اور سی سی ٹی وی کی مدد سے قاتلوں کو پکڑ لیا تو معلوم پڑا کہ اس ہوٹل مالک نے کرائے کے ان قاتلوں کو پانچ لاکھ روپیہ دیے تھے ‘ معین خان کو مارنے کے لیے !اخباروں میں چھپی یہ حقیقت درست ہی ہوگی ۔ظاہر ہے کہ قاتلوں کو تو سزا ملے گی ہی لیکن ہوٹل مالک تو چھوٹ جائے گا ۔پیسے کھاکر بڑے سے بڑا وکیل عدالت میں کھڑا ہو جائے گا اور ججوں کا بھی کیا بھروسہ ؟
لیکن مرحوم معین خان کے لیے دلی شہر اور ملک کیا کر رہا ہے ؟ ان کی بیوہ اور تینوں بیٹیاں اب کس کے سہارے رہیں گی ؟ہمارے نوٹنکی باز لیڈروں کے سر پر جوں بھی نہیں رینگی ؟ایسے ایماندار اور خدمت گار افسر بھارت ماں کے سچے سپوت ہیں ۔ معین خان کی بہادری ملک کے سارے افسروں ‘وکیلوں اور ججوں کے لیے مثال ہے ۔مرحوم بھائی معین خان کو میرا سلام !
چاہ بہار :زبانی جمع خرچ تو نہیں ؟
جیسے چھوٹی سی چابی بڑے تالے کو کھول دیتی ہے ‘ویسے ہی چاہ بہار بندر گاہ سے پورے جنوب ایشیا کے بنددروازے کھل سکتے ہیں ۔ ایران کی اس بندرگاہ کی تعمیر کے لیے بھارت پچاس کروڑ ڈالر لگائے گا ۔اس کے علاوہ ایران کے اندر اور ایران سے افغانستان تک سڑک بنانے کا عزم بھی بھارت نے کیا ہے ۔ایران میں تیل اور گیس نکالنے ‘کارخانے بنانے اور کئی منصوبوں میں بھارت لگ بھگ بیس ارب ڈالر سرمایہ کاری کریگا ۔بھارت نے اتنی بڑی سرمایہ کاری نہ تو کسی ملک میں کی اور نہ ہی اس کا کوئی ارادہ ہے ۔چاہ بہارپر پہلے بھی 2003 ء اور 2013 ء میں سہ فریقی معاہدے ہوئے ہیں ۔امید ہے ‘یہ معاہدہ بھی ان کی طرح کاغذ بن کر نہ رہ جائے گا۔میانمار ‘امریکہ ‘چین جاپان اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ بھی ہم لمبے چوڑے منصوبے شروع کرنے کے اعلان کر چکے ہیں لیکن ابھی تک سب ہوا میں ہی ہیں ۔زبانی جمع خرچ سے کام نہیں چلے گا ۔
وزیر اعظم نریندر مودی کو اس تاریخی پہل کاکریڈٹ مل رہا ہے ‘ حالانکہ اس کی شروعات سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے کی تھی۔اٹل جی نے افغان ایران سرحد پر جرنج دلارام سڑک بنوائی تھی تاکہ اس سڑک کے ذریعے ہم افغانستان کو سمندر سے جوڑ دیں ۔زمین سے گھرے افغانستان کو ایران سے ہو کر سمندر تک آنے جانے کا راستہ مل جائے تو پاکستان پر اس کا دارومدار(انحصار) ختم ہو جائے گا ۔ ابھی تک افغانستان کو آمدورفت کے لیے کراچی کے بندرگاہ پر انحصار کرنا پڑتا ہے ۔بھارت اٖفغان تجارت بھی تبھی تک چل پاتی ہے ‘جب تک کہ پاکستان دونوں ملکوں کو زمینی راستہ استعمال کرنے دیتا ہے ۔ چاہ بہاربندرگاہ افغانستان کی زمینی سیاست کی آزادی کی آواز ہے ۔ بھارت ‘ایران اور افغانستان نے جو سہ فریقی سمجھوتہ کیا ہے ‘وہ اکیسویں صدی کو ایشیا کی صدی بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔اب اگر بھارت نے چاہ بہار زاہدان حاجی گاک ریل بنوا دی تو اکیلا افغانستان سارے جنوب ایشیا کے لوہے کی کمی کو پورا کر دے گا ۔یعنی بھارت اور ایران ‘ افغانستان میں ریل اور سڑکیں بنوا دیں تووسطی ایشیا کے پانچوں ملکوں کاترکی اور یورپ تک جانے کا راستہ بہت آسان اور چھوٹا ہو جائے گا۔ ٹرانسپورٹ خرچ تقریباً آدھے سے بھی کم رہ جائے گا ۔ممبئی میں چاہ بہار تک سمندری رستہ اور اس کے بعد زمینی رستہ !
چاہ بہار کے کھلنے سے پاکستان اور چین کو تکلیف ضرورہوگی ۔وہ دونوں چاہ بہار سے 70 میل دور گوادر کی بندرگاہ بنا رہے ہیں لیکن وسطی ایشیا اور یورپ کے لیے گوادر سے زیادہ کار آمد چاہ بہارہوگا ۔اسکے علاوہ بلوچستان میں بن رہے گوادر بندرگاہ پر بلوچوں کی ٹیڑھی نظر ہے ۔جو بھی ہو‘چاہ بہارکے کھل جانے سے سارے جنوب ایشیااور وسطی ایشیائی ممالک کو ایک مشترکہ بازار (منڈی)کھڑا کرنا آسان ہوگا ۔پاکستان تعاون کرے گا تو بہت اچھا اور نہیں کرے گا تو اس کے بغیر بھی اب کام رُکے گا نہیں۔ پس ضروری یہی ہے کہ اب کام شروع ہو۔