امریکی صدر بارک اوبامانے جیسے ہی این ایس جی میں بھارت کی حمایت کا اعلان کیا ‘ میں نے یہاں لکھا کہ وزیر اعظم نریندرمودی کو بڑی خبرداری برتنی ہوگی۔ چین اور پاکستان دونوں جذبات میں آجائیں‘ ایسی بات کہنے سے بچنا ہوگا۔ پس‘ اب یہ دو ہی ملک ہیں‘ جو بھارت کی مخالفت کر رہے ہیں۔ چین اندر سے کر رہا ہے پاکستان باہر سے کر رہا ہے۔ باقی چار چھ ملک جو مخالفت کر رہے تھے‘ وہ چپ ہیں۔ میکسیکو کھل کر بھارت کی حمایت میں آگیا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ بھارت کی وزارت خارجہ نے صبر کا مظاہرہ کیا اور چار دن بعد بھارت کے سبھی اخبار بھی اسی لِیک کو پکڑے ہوئے ہیں ۔کوئی حیرانی نہیں کہ 24 جون کو چین بھی بھارت کی حمایت کر دے۔
اب اصلی مسئلہ یہ ہے کہ بھارت کے خلاف ایک جٹ ہوئے چین اور پاکستان کی جانب ہمارا رویہ کیا ہو؟ اس کا جواب میں پہلے کئی بار دے چکا ہوں لیکن آج میں اپنی قلم تھام کر بیٹھنا چاہوںگا۔ آج آپ کے سامنے میں دو پاکستانی جنگی نظریات والوں کی رائے رکھنا چاہتا ہوں۔ ایک ہیں خالد احمد اور دوسرے ہیں عائشہ صدیقہ! ان دونوں سے میری واقفیت ہے اور جب بھی پاکستان جاتا ہوں‘ اکثر ان سے کھل کر بات ہوتی ہے۔ ان دونوں کی تحریر آج بھارتی اخباروں میںشائع ہوئی ہے۔ خالد احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان چاہ بہار کا اور بھارت چین کے 'اوبور‘ کی مخالفت بند کرے۔ اگر چین 40 بلین ڈالر خرچ کر کے شنگھائی سے گوادر تک 'اکانومی برآمدہ‘ (اکنامک کاریڈور) کھڑا کرنا چاہتا ہے تو اس میں بھارت کا کیا نقصان ہے اور اگر بھارت چاہ بہارکے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیا تک پہنچ رہا ہے تو اس میں پاکستان کا کیا نقصان ہے؟ یہ دونوں راستے ایک ساتھ چل سکتے ہیں۔ اگر وہ دونوں راستے پوری طرح کھلے رہے تو بھارت اور پاکستان کا دوگنا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح عائشہ کا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے لیڈر آپس میں ضرور بات کریں لیکن دونوں ملکوں کے فوجیوں میں بھی آپس میں براہ راست بات ہونی چاہیے (کیونکہ پاکستان میں لیڈروں سے زیادہ طاقت یا اصلی طاقت فوجیوں کے پاس ہے۔) یہ اصلی بات ہے، چابی ہے، حل ہے۔ میں جب بھی پاکستان میں ہوتا ہوں‘ اکثر فوجی افسروں سے بات ہوتی ہے۔ وہ دوٹوک بات ضرور کرتے ہیں لیکن میں نے کبھی انہیں حملہ آور رخ یا بد اخلاق زبان کا استعمال کرتے نہیں پایا۔ عوام سے عوام کاتعلق تو میٹھا ہوتا ہی ہے، اگر تعلق کے کچھ بند دروازے ہمارے دونوں ملک کھول سکیں تو یہ اکیسویں صدی ایشیا کی صدی بن سکتی ہے۔
چنائو بازی سے چَین کیسے ملے
لوک سبھا اور ودھان سبھائوںکے چنائو ساتھ ساتھ کروانے کے فائدے کافی ہیں، لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے کون؟ لا کمیشن راضی ہے‘ الیکشن کمیشن راضی ہے، لیکن لیڈر لوگ راضی ہوں، یہ سب سے زیادہ ضروری ہے۔ لیڈروں کی سانسیں تو بس دو ہی چیزوں میں اٹکی رہتی ہیں۔۔۔۔ نوٹ اور ووٹ میں! ووٹ کے لیے نوٹ جٹائو اور ووٹ مل جانے پر نوٹ پٹائو۔ جب تک سارے لیڈر ایک رائے نہ ہوں‘ آئین میں ترمیم کیسے ہوگی؟
اگر آئین میں ترمیم ہو جائے اور امریکہ کی طرح بھارت میں بھی ایسا قانون ہو جائے کہ ہر لوک سبھا اور ہر ودھان سبھا اپنے پانچ برس پورے کرے گی تو ملک کی سیاست میں زبردست انقلاب آجائے گا۔ لوک سبھا اور ودھان سبھائیں پانچ برس تک چلیں گی‘اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وفاق اور صوبوں کی سرکاریں بھی پانچ برس تک چلیںگی، انہیں بیچ میں کبھی بھی بدلا جا سکتا ہے۔ سرکاریں برخاست ہوںگی‘ لوک سبھا اور ودھان سبھائیں نہیں۔ ایک سرکار جائے گی تو اس کی جگہ دوسری سرکار آئے گی۔
لیڈروں کو بہت آرام ہو جائے گا۔ ہر چار چھ ماہ میں انہیں نوٹ اور ووٹ کے لیے بھیک مانگنے نہیں نکلنا پڑے گا۔ انہیں اپنی سرکاری جواب داریوں کو پورا کرنے کا وقت ملے گا۔ لوگوں کو بھی چنائو بازی سے سکون ملے گا۔ اخبار اور چینل بھی تو تو میں میں صحافت سے بچ سکیں گے۔ وہ سنجیدہ مسائل پر اپنا خیال مرکوز کر سکیںگے۔ اگر آئین میں ابھی ترمیم ہو جائے اور2019ء میں وہ نافذ ہو جائے تو کچھ صوبوں کو اعتراض ہو سکتا ہے۔ یہ وہ صوبے ہیں جن کے انتخابات اس برس ہوئے ہیں یا جن کے اگلے دو ڈھائی برسوں میں ہونے والے ہیں۔ ان صوبوں کو صبر رکھنا ہوگا،ان کا نقصان بس ایک بار ہونا ہے۔ ایسا نقصان تو ایسے بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ودھان سبھائیں بیچ میں ہی برخاست کر دی جائیں ‘ جس کا آئینی حق آج بھی وفاق کو ہے۔ ساری پارٹیاں اور سارے صوبے مل کر متفق رائے سے اس نئے انتظام کو قبول کریں تو ان کا بھی بھلا ہوگا اور ملک کا بھی۔
سونیا اور راہول کس سے پیار کرتے ہیں؟
کانگریس مشکل میں ہے‘ یہ سب کو پتا ہے لیکن حل کیا ہے؟ طرح طرح کے حل سجھائے جا رہے ہیں۔ اول تو یہی کہ کانگریس کو ذرا حملہ آور پوزیشن بنانی چاہیے کیونکہ وہ خاص اپوزیشن ہے۔ یہاں ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ بھارت پر لمبے وقت تک سرکار کرنے والی پارٹی یہی ہے۔ جس کو حکومت کرنے کی عادت پڑ جائے‘ وہ کھانڈا کھڑکانا بھول جاتا ہے۔ پھر بھی اندرا گاندھی نے مرار جی ڈیسائی‘ چوہدری چرن سنگھ کی سرکار کی ناک میں دم کر رکھا تھا، وہ تین سال میں پھر لوٹ آئیں، لیکن ابھی کانگریس کی جو لیڈر شپ ہے‘ کیا اس میں اتنا دم ہے کہ وہ مودی سرکار کے کان کھڑے کر سکے؟ سرکار کو ہلانا تو دور کی بات ہے، وہ بات بات میں خود کومسخرہ بنا لیتی ہے۔ آپ لیڈر ہیں اور آپ نہ ہندی ڈھنگ سے بول سکتے ہیں نہ انگریزی! آپ اچھے ہیں‘
بھولے ہیں لیکن ملک کو آج بھوندو لیڈر کی ضرورت نہیں ہے۔ مودی سے تقریر اور نوٹنکی میں جو ٹکر لے سکے‘ آج کانگریس کو ایسے لیڈر کی ضرورت ہے۔ کانگریس میں ایسے لیڈر آج ایک درجن سے بھی زیادہ ہیں لیکن ان کی حیثیت کیا ہے؟ صرف درباری کی! ان کی نس نس میں دربارداری اور خوشامد دوڑ رہی ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ جس کے وجہ سے دنیا کی یہ عظیم پارٹی برباد ہو رہی ہے‘ اسی کے ہاتھ میں ساری لگام دے دیجئے۔ دوسرا حل یہ سجھایا جا رہا ہے کہ صوبائی لیڈر شپ کو مظبوط کیا جائے لیکن کیا کسی پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی میں علاقائی لوگوں کو اتنی طاقت دی جاسکتی ہے؟ اگر دی جاتی تو اروناچل‘آسام 'اتراکھنڈ‘ مغربی بنگال اور تریپورا میں جو اہوا ہے‘ کیا وہ ہوتا؟پارٹی کی مشکلات سمجھنے والے لیڈر اپنے باپ اور نانی کی عمرکے لیڈروں کو بھی عزت نہیں دیتے ۔
تو پھر حل کیا ہے؟ اس پارٹی میں بغاوت تو ہو نہیں سکتی۔ ماں بیٹے کو نکال پھینکیں‘اتنی ہمت کسی میں نہیں ہے۔ ہاں‘ یہ ہو سکتا ہے کہ سونیا اور راہول کانگریس کے نگہبان بن جائیں اور پارٹی لیڈروں کی تعیناتی باقاعدہ چنائوکے ذریعے ہو۔ کانگریس پارٹی اب بند گوبھی بن گئی ہے، اسے گلاب کی طرح کھلنے دیں۔ دونوں ماں بیٹے کے لیے یہ چیلنج ہے کہ وہ خود سے زیادہ پیار کرتے ہیں یا کانگریس پارٹی سے؟ اگر وہ کانگریس کے ساتھ بھارت سے پیار کرتے ہیں اور جمہوریت سے پیا رکرتے ہیں تو اس کے علاوہ مجھے کوئی چارہ دکھائی نہیں پڑتا۔ بھارتی جمہوریت کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک واحد بھارت کی پارٹی صحت مند اپوزیشن میں دن دناتی رہے۔