"DVP" (space) message & send to 7575

بوتل اور بندوق تہذیب

امریکہ میں افغان نسل کے ایک نوجوان عمر متین نے 50 لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔کیوں اتار دیا‘یہ شاید ہی ٹھیک سے پتا چل پائے‘ کیونکہ عمر بھی مارا گیا، لیکن کچھ خبروں کے مطابق اس نے حملہ کرنے سے پہلے پولیس کے نمبر پر فون کرکے کہا کہ وہ 'داعش‘ کا لڑاکا ہے۔ حملے کے بعد 'اسلامک سٹیٹ‘ نے اسے بڑا لڑا کا بتایا۔ یہ ناممکن نہیں۔ اگر ایسا ہے تو یہ واقعہ امریکہ میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے کافی خطرناک بن جائے گا۔ عمر متین ان کا سب سے بڑا دشمن ثابت ہوگا۔ امریکی لوگ پہلے ہی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے اور یہ بے رحم کارروائی تو وہاں مسلمانوں کاجینا حرام کر دے گی۔ یہ واقعہ ٹرمپ کے ہاتھ مضبوط کرے گا، جن کا کہنا ہے کہ اگر وہ صدر بنے تو کچھ عرصہ مسلمانوں کو امریکہ میں گھسنے بھی نہیں دیںگے۔
کوئی تعجب نہیں ہوگا اگر یہ بھی معلوم پڑے کہ عمر متین کا دماغ پھرا ہوا تھا جیسا کہ کئی امریکی جوانوں کا ہوتا ہے۔ امریکہ میں آئے دن ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ یہ نوجوان اپنی ناامیدی اور غصہ نکالنے کے لیے بغیرکسی سبب کے ہی گولیاں چلا دیتے ہیں‘ بھیڑ پر ٹرک چڑھا دیتے ہیں‘ ہوائی جہازگرا دیتے ہیں۔ اس کا سبب نہ اسلام نہ عیسائیت‘ نہ کوئی اصول اور نہ ہی کوئی نظریات ہوتے ہیں، بلکہ یہ نفسیاتی مریض ہوتے ہیں۔ اس مرض کا سبب تو یہ بھی ہے کہ امریکہ میں جتنے لوگ گزشتہ دو سو برس کی جنگوں میں مارے گئے ہیں‘ اس سے کہیں زیادہ اس طرح کے اچانک واقعات سے مارے گئے ہیں۔اس کا ایک سبب تو یہ بھی ہے کہ وہاں یہ جان لیوا ہتھیارکوئی بھی خرید سکتا ہے۔
30 کروڑ کے ملک میں تین کروڑ سے زیادہ ہتھیار ہیں۔ وہاں شرابیوںکی بھی بھر مار ہے۔
بوتل اور بندوق امریکہ کی تہذیب پر حاوی ہے۔ تشدد اس کا اٹوٹ انگ ہے۔ ایسے گھر وہاں آپ کو مشکل سے ہی ملیں گے‘ جن میں بوتل بندوق نہ ہوں۔
امریکہ میں ہوا 2001 ء کے واقعہ کا اتنا پرچار بہت زیادہ ہوا لیکن اس واقعہ میں جتنے لوگ مارے گئے‘ اس سے کئی گنا ان چھوٹے موٹے واقعات میں مارے گئے ہیں۔ دہشت گردوں کو تو امریکہ نے لگ بھگ قابو کر رکھا ہے لیکن سر پھروں کے ذریعے کی جا رہی اس طرح کی خونی کارروائیوں کو روکنا آسان نہیں ہے۔ 
پاک چین زخموں پر نمک ؟
خارجہ پالیسی کو ٹھوس نتیجوں کی نظر سے دیکھیں تو نریندرمودی کا یہ دورہِ امریکہ سب سے زیادہ اہمیت والا اور کامیاب رہا ۔کوری تقریر بازی اور نوٹنکی توگزشتہ دو برس سے چلتی رہی ہے؛ حالانکہ اس بات کی کچھ اہمیت ہے، لیکن امریکہ کے ساتھ گہرائی کے جو بیج اٹل بہاری واجپائی سرکار نے بوئے تھے اور من موہن سرکارکے دنوں میں جو معمولی باہر آئے تھے‘ وہ اب پھل اور پھول دے رہے ہیں۔ اس عمل میں مودی کی نوٹنکی کی کچھ نہ کچھ مدد ضرورہے۔ امریکی صدر اوباما کے ساتھ ان کی ذاتی دوستی اور ہمارے خارجہ سیکرٹری (امریکہ میں ہمارے سابق قونصلیٹ) کے ذاتی تعلقات نے امریکی پالیسی میکروں کو مجبور کیا کہ وہ بھارت کے بارے کھلے عام اعلان کریں۔ اوباما نے کہہ دیا کہ این ایس جی میں بھارت کی ممبرشپ کی امریکہ ڈٹ کر حمایت کرے گا۔اس کے علاوہ جو ٹھوس کامیابی حاصل ہوئی ہے‘ وہ یہ کہ (ایم ٹی سی آر)کی ممبر شپ بھی بھارت کو مل گئی ہے۔ بھارت کی ممبر شپ پر کچھ ملکوں نے اعتراض کیا تھا۔ اس اعتراض کو جتانے کی آخری ڈیڈ لائن 6 جون کو ختم ہو گئی ہے۔ 34 ملکوں میں ایک بھی بھارت کے خلاف نہیںگیا۔ اب 
بھارت کو جدید میزائل اور تکنیکوں کو خریدنے اور اپنے سپر سونک کروز اور براہموس بیچنے کی سہولت مل جائے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ سہولت امریکی حمایت کے بنا نہیں مل سکتی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ 2008 ء میں ہوا بھارت امریکہ جوہری سودا بیچ میں لٹکا ہوا تھا، اب اس کے تحت آندھر میں چھ جوہری بھٹیوں پر کام شروع ہو جائے گا۔ جہاں تک نیو کلیئر سپلائرس گروپ کے ممبر شپ کاسوال ہے‘ اب صرف چین کا اڑنگہ بنا رہ سکتا ہے لیکن اب چین نے میٹھے میٹھے اشارے بھیجنے شروع کر دیے ہیں۔ چین کو لگنے لگا ہے کہ اوباما کی شروعاتی چینی پرست پالیسی کا خاتمہ بھارت پرستی سے ہونے والا ہے۔ اب چین بھی این ایس جی میں کتنے دن اڑنگہ لگائے گا؟ مودی اور اوباما نے آب و ہوا کے متعلق پیرس معاہدے پر متفقہ خواہش طاہر کی ہے۔ فوجی سہولیات کے لیے تعاون معاہدہ بھی تیار ہے۔ ہماری وزارت خارجہ کے افسروں نے درست زمین تیار کی ہے۔ وہ مبارک کے حق دار ہیں لیکن مودی لیڈر ہیں، انہیں بولنے کا شوق ہے۔ انہیں دھیان رکھنا ہوگا کہ وہ اپنے منہ سے کوئی ایسی بات نہ بولیں جس سے چین اور پاکستان کے ان تازہ زخموں پر نمک چھڑکا جائے۔ وہ تو پہلے سے ہی پریشان ہیں۔ اگر چین ہمیں اب چینی پروس رہا ہے تو مشری گھولنے میں ہمارا کیا بگڑ رہا ہے۔
تعلیم میں تجارت گیری
ہمارے ملک میں علاج اور تعلیم کے شعبوں میں کیسی لاقانونیت مچی ہوئی ہے‘ اس کی تازہ مثال بہار نے دی ہے۔ بہار تعلیمی بورڈ کے بارہویں کلاس کے امتحانات کے سب سے زیادہ مارکس پانے والے 14 طلبہ کو دوبارہ امتحان دینا پڑا ہے۔ ایسا اس لیے ہوا کہ ان دمدار شاگردوں کا کچھ ٹی وی چینلوں نے انٹر ویوکر لیا تھا۔ انٹرویو اس لیے کیا گیا کہ انہیں زبردست کامیابی ملی تھی۔ ان کے انٹرویو سے دیگر ہزاروں شاگردوں کو نصیحت ملے گی، لیکن ہوا الٹا ہی! ایک طالبہ سے پوچھا گیا کہ آپ نے کس مضمون کا امتحان دیا تھا تو اس نے بتایا کہ 'پروڈیکل سائنس‘ کا! وہ پولیٹیکل سائنس کو پروڈ یکل سائنس بتا رہی تھی۔ جب اس سے پوچھا کہ اس سائنس میں آپ 
کوکیا کیا پڑھایا جاتا ہے تو اس نے کہا کہ کھانا پکانے کا ہنر سکھایا جاتا ہے یعنی کچن کتاب پڑھائی جاتی ہے۔ اسی طرح میرٹ لسٹ میں جو لڑکا جو سب سے اول تھا‘ اس سے جب عام سوالات پوچھے گئے تو وہ بھی بغلیں جھانکنے لگا۔ یہ سب طلبہ وشالی کے وشنو رائے کالج کے ہیں۔ اس کالج کے سائنس کے 646 طلبہ میں سے 534 اے گریڈ میں پاس ہوئے تھے اور 96 بی گریڈ میں! 646 میں سے 630 پاس صرف 16 فیل۔ واہ ‘ کمال ہے!
ظاہر ہے کہ ہنگامہ ہونا ہی تھا۔ وزیراعلیٰ نتیش کمار نے اس کالج کی رجسٹریشن منسوخ کر دی اور زیادہ مارکس لینے والوںکا امتحان دوبارہ کروادیا۔ چودہ میں سے کچھ طلبہ فیل ہو گئے۔ انہیں پہلے 100 میں سے 90 نمبر ملے تھے۔کچھ طلبہ بھاگ کھڑے ہوئے،کچھ بیمار پڑ گئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بہار کے سبھی سکولوں اور کالجوں کی یہی حالت ہے۔کسی زمانے میں بہارکی یونیورسٹیوں کا سکہ کافی بلند مقام پر تھا، لیکن ذات پات اور رشوت خوری نے بہار ہی نہیں‘ اتر پردیش‘ کرناٹک‘ آندھراپردیش اور کچھ دیگر صوبوںکو بھی چوپٹ کر رکھا تھا۔ وہاں میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں بھی بڑے پیمانے پر دھاندلی چلتی رہتی ہے۔ اسی کے انجام میں کئی مریضوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اورکئی مکان اور پل ٹوٹ جاتے ہیں۔ اس بارے میں سرکار کوکافی سخت اقدام کرنا ہوگا۔ تعلیم اور علاج کی دکانوں پر ٹوٹ پڑنے کے لیے ایک الگ محکمہ بنانا پڑے گا۔ اس طرح کے گنہگاروں کے لیے سخت سزا کاقانون بنانا ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں