پاکستان کے مشہور قوال امجد صابری کے قتل کا اصل مطلب کیا ہے؟ وہ مطلب نہایت ہی خطرناک ہے۔ پاکستان میں اس طرح کے قتل اکثر ہوتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کراچی میں تین قتل ہوئے ہیں۔ انہیں ذاتی قتل مان کر کچھ دن غم منایا جاتا ہے اور پھر بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ لیکن پاکستان کے لوگ ‘ لیڈر اور فوج ان کا اصل مقصد سمجھ لیں تو شاید انہیں ان سے نجات مل جائے۔ یہ قتل آدمی کے نہیں‘ نظریات کے قتل ہیں۔ نظریہ بھی ایسا جس سے پاکستان بنا ہے۔ جس نظریہ کی بنیاد پر پاکستان بنا ہے۔۔۔ جو خواب چوہدری رحمت علی‘ علامہ اقبال اور محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔ کیا یہ قتل اس خواب کو دفنانے کا کام نہیں کر رہا؟ پاکستان بنا ہی اس لیے تھا کہ مسلمان وہاں محفوظ اور عزت کے ساتھ رہیں گے، لیکن کوئی یہ بتائے کہ پشاور میں مرنے والے سکول کے بچے کیا مسلمان نہیں تھے؟ کیا سلمان تاثیر مسلمان نہیں تھے؟ کیا امجد صابری مسلمان نہیں تھے؟ جو درجنوں لوگ دہشت گردوں کے ہاتھوں روز مارے جاتے ہیں‘ وہ کون ہیں ؟ کیا وہ مسلمان نہیں ہیں؟ وہ سب مسلمان تو ہیں لیکن وہ طالبان چھاپ نہیں ہیں۔ وہ انتہا پسند نہیں ہیں۔ ٹھیک ہے، لیکن پاکستان کی فوج اور سرکارکا فرض کیا ہے؟ وہ کیا کر رہی ہے۔کراچی میں پی پی پی کے قائم علی شاہ کی‘ پشاور میں عمران کی اور لاہور میں شہباز شریف کی‘ سبھی سرکاریں طالبان یا علیحدگی پسندوں کے آگے
بے حال ہیں؟ایسا بھی نہیں ہے کہ عام عوام طالبانی ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو صابری کے جنازے میں ہزاروں لوگ حصہ کیوں لیتے؟ پاکستان اور افغانستان میں آج بھی کروڑوں لوگ صوفی فقیروںکی فراخدلی اور نظریات کو مانتے ہیں۔ صوفی ازم ایک ایسا نظریہ ہے جو پرانے آریہ ورت کے ملکوں کو باہم میں جوڑتا ہے۔ وہ پاکستان ہی نہیں پورے جنوب اور وسط کو جوڑنے والا نظریہ ہے۔ صابری کا قتل ایک پروگرام تحت قتل ہے۔ پاکستان میں امن ہو اور سارا پرانا آریہ ورت (جنوب اور وسطی ایشیا) ایک خاندان کی طرح رہ سکے‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ امجد صابری جیسے لوگ زندہ رہیں۔
عجیب افطار
خبر ہے کہ مسلم قومی منچ اس برس 2 جولائی (یعنی آج) ایک افطار پارٹی کا انتظام کرنے والاہے۔ اس پارٹی میں ملک کے خاص مسلمان لیڈروں کے علاوہ سبھی مسلم ملکوں کے سفارتکاروں کو بھی مدعو کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی ہائی کمشنر کو بھی۔ یہ چھوٹی موٹی خبر نہیں ہے، بڑی خبر ہے۔ یہ بڑی خبر اس لیے ہے کہ مسلم قومی منچ‘ آر ایس ایس کی خاص برانچ ہے۔ اس منچ کی بنیاد اس وقت کے آر ایس ایس سربراہ کپ سی سدرشن جی نے رکھی تھی۔وہ محسوس کرتے تھے کہ سنگھ اور مسلمانوں کے بیچ جو بڑی دیوار کھڑی ہو گئی ہے‘ اسے کسی طرح توڑنا چاہیے۔ سدرشن جی کو جتنی اسلام کے بارے میں جانکاری تھی‘ اتنی عام مسلم لیڈروں کو بھی نہیں تھی۔ سدرشن جی جب جوان تھے اور اندور میں پرچار کا کام کرتے تھے تو ہم لوگ روز کھلی بحث تو کرتے ہی تھے‘ وہ میرے والد صاحب کی ذاتی لائبریری سے پڑھنے کے لیے کتابیں بھی لے جاتے تھے۔ا نہوں نے اسلام پر لگ بھگ ہرکتاب پڑھ ڈالی تھی۔ آرایس ایس سربراہ بننے کے بعد بھی وہ میرے فقیر صفت والد صاحب سے کتابیں منگواتے رہتے تھے۔ سنگھ کے سربراہ کے طور پر یہ ان کا حیرت انگیز تعاون مانا جا ئے گا کہ انہوں نے مسلمانوں کو سنگھ سے جوڑا اور سنگھ کو مسلمانوں سے! ایمرجنسی کے دنوں میں جو مسلم لیڈر ان کے ساتھ جیل میں رہے‘ انہوں نے اس عمل کو مظبوط بنایا۔
اس مسلم منچ کا کا کام سوئم سیوک اندریش کمار نے سنبھالا اور اس میں انہوں نے چار چاند لگا دیے۔ ان کی سیدھی اور پُرکشش شخصیت نے ہزاروں مسلم بھائی بہنوں کو اس منچ کے ساتھ متحرک کر دیا۔ انہوں نے گائے ذبح کرنے کی کھلی مخالفت کی اور وندے ماترم کی ڈٹ کر حمایت کی۔ ان کی خواتین برانچ آج کل 'تین دفع طلاق‘ کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے۔ یہ منچ مسلمانوںکو مضبوط ارادے کے ساتھ مذہبی فرض پورے کرنے کو کہتا ہے۔ لیکن انہیں یہ فرقہ واریت عناصر سے بچنے کی نصیحت دیتا رہتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ملک کی جن دو طاقتوں کے بیچ 36 کا آنکڑا تھا‘ وہ اب 63 کا ہو رہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے آہستہ آہستہ نرم پڑیں گے۔ کوئی تعجب نہیں کہ کسی دن سنگھ کے دروازے بھی ہر بھارتی کے لیے کھل جائیں۔ اسلام کی جو بھی قابل فخر بھارتی شکل ہے‘ وہ ساری دنیا کی اسلام کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔ سدرشن کے ذریعے لگائی گئی یہ پیار کی بیل اگر پھلتی پھولتی رہی تو مان کر چلیے کہ کچھ ہی دہائیوں میں بھارت کی تاریخ کا ایک نیا باب شروع ہوگا۔
بھارت کی پگڑی میں نیا مور پنکھ
این ایس جی میں کچھ دن پہلے ہم نے جو پٹخنی کھائی تھی‘ اب اس کے مقابلے کے لئے خم ٹھوک پھر کھڑے ہو گئے ہیں۔ بھارت اب ایم ٹی سی آرکا ممبر بن گیا ہے۔ اس34ممالک کی تنظیم نے بھارت کا خیر مقدم کیا ہے۔ اگر ہم گروپ میں شامل ہونے کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتے اورعرضی نہیں ڈالتے تو ہماری اتنی بے عزتی نہ ہوتی۔ چین کی چالاکی میں ہمارے لیڈر اور افسر پھسل گئے ہیں لیکن خود چین اس ایم ٹی سی آر کا ممبر نہیں ہے۔ وہ اس کا ممبر بننے کے لیے بیتاب ہے۔ اب بھارت کو جوابی سیاست کرنی ہوگی۔ جب تک چین ہمیں گروپ کا ممبر نہ بننے دے ‘ تب تک ہم اسے اس ایم ٹی سی آر میں گھسنے نہ دیں۔ ایٹمی پھیلائوکے بارے میں بھارت کا سلوک دنیا کے کسی بھی ایٹمی ملک سے بہتر رہا ہے جبکہ چین اس معاملے میں غیر ذمہ دار رہا ہے۔ اس نے شمالی کوریا اور پاکستان کے ساتھ بہت گھال میل کیا ہے۔
ابھی بھارت کو ایٹمی سپلائرز گروپ کے ساتھ ساتھ 'آسٹریلیا گروپ‘ اور 'وازنر انتظامیہ‘ کا ممبر بھی بننا ہے۔ ان تنظیموں کا مقصد روایتی‘ جوہری اور کیمیکل ہتھیاروں اور ان کی تکنیکوں پر ضابطہ لاگو رکھنا ہے۔ بھارت کا راستہ اب آسان ہو جائے گا۔ چین کو اصل ڈر اب یہ ہے کہ ان سب تنظیموں کی ممبر شپ بھارت کو سلامتی کونسل کی ممبر شپ دلوانے میں مدد کرے گی۔ ایشیا میں چین کی دادا گیری کو یہ سب سے بڑی للکار ہوگی۔
اب ایم ٹی سی آر کی ممبر شپ مل جانے سے بھارت کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کے ذریعے وہ براہموس کروز میزائل دنیا بھر میں فروخت کر سکے گا۔ اسی طرح اب وہ دنیا کی بہتر اور جدید ٹیکنالوجی خرید سکے گا۔ اس تنظیم کے ممبر ملک 300 کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ اور 500 کلوگرام سے زیادہ وزن کے ہتھیار نہیں بنا سکتے۔1987ء میں بنی اس تنظیم کا مقصد دنیا میں ہتھیاروں کو با ضابطہ بنانا ہے۔
ایم ٹی سی آرکی ممبر شپ بھارت کی پگڑی میں لگا نیا مور پنکھ ہے۔ ہمارا بہتر ایٹمی رویہ اور اچھی سیاست کی بدولت یہ مثال ہے۔کچھ دن پہلے کے زخم پر لگا ہوا یہ ٹھنڈا مرہم ہے۔ مبارک !