"DVP" (space) message & send to 7575

کشمیر پر بھارت پہل کرے

جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے‘ ویسا اب بھی ہو رہا ہے۔ برہان وانی کی موت کے بعد قتل عام بھڑکا۔ چالیس سے زیادہ لوگ مارے گئے‘1400 زخمی ہوگئے۔کرفیو لگ گیا۔ حالات قابو میں آگئے۔ بیان بازی بند ہو گئی۔ اخبار کی سرخیاں کھسک کر اندر کے صفحوں پر چلی گئیں۔ ٹی وی چینلوں کے لیے کئی تازہ مدعے ابھر آئے۔ اس طرح بات آئی گئی ہوگئی۔ کشمیر میں چلنے والا دوطرفہ قتل عام اتنا لمبا ہوگیا ہے کہ لوگ اب اس کی خاص پروا بھی نہیں کرتے۔ وہ یہ ماننے لگے ہیں کہ جھڑپیں اور خونی کھیل اب کشمیر میں روزکا معمول بن گیا ہے۔ نہ سرکارکوکوئی راستہ سوجھ رہا ہے اور نہ ہی کشمیریوںکو۔ دونوں ہی ایک اندھی اور لامحدود سرنگ میں داخل ہو گئے ہیں۔ مفتی صاحب اور محبوبہ مفتی نے جب بھاجپا کے ساتھ مل کرجموںکشمیر میں سرکار قائم کی تھی تو امید پیدا ہوئی تھی کہ تشدد کم ہوگا اور کشمیر پرکوئی راہ نکلے گی۔
محبوبہ نے جو ودھان سبھا میں بیان دیے‘ ان سے یہ امید ظاہر ہوئی تھی لیکن دوبرس خالی نکل گئے۔ وفاقی سرکار نے کیا کیا؟ اس نے کروڑوں اربوں روپے دینے کا اعلان کیا۔ ترقی کی کئی نئی اونچائیوں کے راستے کھلے۔ لیکن یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی کا پائوں ٹوٹ جائے تو آپ اس کی ہڈی جڑوانے کی بجائے اسے کاجُو‘ کشمش اور بادام کھلانے لگیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کشمیر کے بھارت مخالف رویے سے نمٹنے کے لیے آپ نے کیا کیا؟ پولیس اور فوج کشمیر کے تشدد کوکب تک دباتی رہے گی؟ وہ تھوڑے دن دبے گا۔ پھر موقع پاتے ہی اٹھے گا۔ فوج جتنی مشکلوں میںکشمیر میں ڈٹی رہتی ہے‘اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ فوجیوں کے پاس گاڑیاں ہیں، اسلحہ ہے، اس سے زیادہ بھی ہو سکتاہے، لیکن پولیس توکشمیری ہی ہے۔کشمیرکے83 ہزار جوان چپے چپے میں تعینات ہیں۔ آخر یہ کشمیری پولیس والے اپنے کشمیری بھائی بہنوں پرگولیاںکیوں چلاتے ہیں؟ یہ سرکاری تشدد اس لیے ہوتا ہے کہ یہ جوابی تشدد ہے۔ اگر بے قابو بھیڑ تھانہ لوٹتی ہے‘ ہتھیار چھینتی ہے‘ پتھر برساتی ہے‘ بم پھوڑتی ہے‘ آگ زنی کرتی ہے‘ پولیس والوںکو ندی میں دھکیل دیتی ہے تو پھر آپ پولیس اور فوج سے کیا امید کرتے ہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ برہان کی موت ہو یا افضل گروکی پھانسی،کشمیری عوام کو غصہ آئے گا اور وہ اسے ظاہرکریں گے، لیکن انہیں یہ طے کرنا چاہیے کہ وہ اسے کیسے ظاہرکریں؟ اگر وہ قتل عام پر اتریں گے تو انہیں بدلے میں یہی کچھ ملنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔گزشتہ ہفتے کشمیر میں یہی ہوا۔ خون کا بدلا خون، یہ کشمیرکی پالیسی بن گئی ہے۔
لیکن کیا یہ مسئلہ کشمیرکا حل ہے؟ نہیں‘ بالکل نہیں۔ اگر کشمیر کے علیحدگی پسند یہ سوچتے ہیں کہ وہ دہشت گردی اور خونی کھیل کے ذریعے کشمیرکو بھارت سے الگ کر سکتے ہیں تو میں کہوںگا کہ وہ بہت بڑی غلط فہمی میں جی رہے ہیں۔ کیا انہیں پتا نہیںکہ ان کے پاس دہشت گردی کی جتنی طاقت ہے‘ اس سے ہزارگنا طاقت بھارت کے پاس ہے۔ وہ اس کا مقابلہ کیسے کر پائیں گے؟ اگر انہیں پاکستان کی مددپر بھروسہ ہے تو کیا میں انہیں یاد دلائوںکہ پاکستان سارے حربے آزما چکا ہے۔ وہ مداخلت کار بھیج چکا ہے‘ سیدھی جنگ کر چکا ہے‘ عظیم قوتوںکی منت سماجت کر چکا ہے‘ اقوام متحدہ میں چھاتی پیٹ چکا ہے؛ اب اس کے پاس کوری بیان بازی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ وہ کشمیرکو ڈھوتے ڈھوتے تھک چکا ہے۔ اس کے بلوچوں‘ سندھیوں ‘ پٹھانوں اور اپنے دہشت گردوں نے اس کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ جس کشمیر پر اس نے قبضہ کر رکھا ہے‘ اس کے کشمیری بھی اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ اس لیے اس کشمیر کو وہ آزاد کشمیرکہتا ہے۔ اس کے وزیر اعلیٰ کو وہ وزیر اعظم کہتا ہے۔ ان 'وزرائے اعظم‘ میں سے کئی نے مجھ سے کہا کہ ان کی حیثیت ایک ناظم جتنی بھی نہیں ہے۔ ایسے پاکستان کے دم پر ہمارے کشمیرکے علیحدگی پسند کب تک معصوموںکا خون بہواتے رہیںگے؟ وہ ہزار سال تک لڑتے رہیںگے تو بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔کیا وہ ناگالینڈ‘ میزورام اور خالصتانی تحریکوں سے کوئی سبق لینا چاہیں گے؟ ان سب خونی تحریکوںکو چین اور پاکستان کی فعال مدد ملتی رہی، لیکن وہ ٹھپ ہو گئیں یا نہیں؟ پاکستان کے فوجی پالیسی ساز یہ سمجھ بیٹھے ہیںکہ جیسے بنگلہ دیش ان سے الگ ہوگیا‘اسی طرح کشمیرکو بھارت سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ راولپنڈی کی کئی بیٹھکوں میں مَیں نے انہیں سمجھایا کہ ایک تو بھارت، پاکستان نہیں ہے اور دوسرا کشمیر مشرقی پاکستان نہیں ہے۔ یہ برابری ہی غلط ہے۔ جہاں تک رائے شماری کا سوال ہے‘ اسے اقوام متحدہ نے ہی جھٹک دیا ہے، لیکن آپ اسی پر زور دیتے ہیں تو آپ پہلے اپنا کشمیر خالی کریں اور وہاں ضمانت جمع کروائیں۔
نہ پاکستان رائے شماری کروائے گا اور نہ ہی بھارت! نہ کشمیری بھیڑکبھی تشددکرے گی اور نہ ہی بھارتی فوج! تو کیا کیا جائے؟ اس بند گلی میں سے جو راستہ مجھے سوجھتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر دونوں کشمیروں کے لوگ سچی آزادی اور امن چاہتے ہیں تو سب سے پہلے وہ تشدد اور خونی کارروائیاں چھوڑیں۔ دوسرے‘ وہ آزادی ضرور مانگیں لیکن الگ ہونے کی بات بندکریں۔ دونوںکشمیروںکے لوگ ویسے ہی آزاد رہیں جیسے دلی اور لاہور کے ہیں۔ وزیر اعظم نرسمہا رائونے لال قلعہ سے کہا تھا کہ خودمختاری (آزادی) آسمان تک لامحدود ہے۔تیسرے‘ دونوں کشمیروں کو ایک کریں۔ بھارت اور پاکستان کے بیچ جوکھائیاں ہیں وہ پل بنیں۔کیا محبوبہ مفتی‘ عمر عبداللہ یا حریت کے لیڈر ایسی کوئی پہل کر سکتے ہیں؟
اپنی سرکار سے بھی مجھے کچھ کہنا ہے۔ وہ صرف گولی کے سہارے نہ رہے ۔ بولی کا سہار ابھی لے۔ وہ حریت والوں، پاکستان پرستوں، غصے میں آئے ہوئے کشمیریوں اور دہشت گردوں سے بھی سیدھی بات کرے۔ پاکستان کی سرکار اور فوج سے کشمیر پر ڈٹ کر بات کرے۔ وہ آگے ہوکر کشمیر کا مدعا اٹھائے۔کشمیر کے مدعا پر بھارت متاثر ہے۔ اگر بھارت اس مدعا پر پہل نہیں کرے گا توکون کرے گا؟ کیا یہ حیرانی کی بات نہیں ہے کہ کشمیر کا مدعا ہمیشہ پاکستان آگے ہوکر اٹھاتا ہے اور بھارت بغلیں جھانکتا ہے؟کشمیر کے سوال پر بھارت کی طرفداری بے حد مضبوط ہے، لیکن بھارت کی لگ بھگ سبھی سرکاریں دبوپن کا مظاہرہ کرتی رہی ہیں۔ اگر دونوںکشمیروں‘ بھارت اور پاکستان میں سیدھی بات ہو تو حل جلدی نکلے گا۔ اگر بات زیادہ چلے گی تو لات کم چلے گی۔ یہ ثابت ہوا من موہن سرکار کے زمانے میں۔ اگر جنرل مشرف سال دوسال اور ٹکے رہتے تو شاید چار نکاتی سمجھوتے میں سے کشمیر کا حل نکل آتا۔ حل تو نہیں نکلا لیکن قتل اور تشدد کم ہوا۔
اروناچل: ادھورا فیصلہ 
اروناچل کے بارے میں جو فیصلہ سپریم کورٹ نے دیا ہے‘ وہ تاریخی ہے لیکن میری رائے میں ادھورا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سپریم کورٹ نے ایسا پہلی بار کیا کہ کسی برخاست سرکار کو دوبارہ کرسی پر بٹھا دیا۔ اس کے ساتھ اس نے گورنروںکو بھی اچھی خاصی نصیحت دے دی ہے۔ حقیقت میں یہ فیصلہ صرف گورنر جیوتی پرساد راج کھووا کی کرتوت پر ہے۔ اس فیصلے میں اروناچل کے صوبہ کے علاوہ کسی پر بھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ نہ وفاقی سرکار پر‘ نہ موجودہ وزیراعلیٰ پر‘ نہ پارٹی بدلنے والے کانگریسی ممبروں پر! کیا کسی گورنر میں اتنا دم ہوتا ہے کہ وہ اپنے بھروسے پر ودھان سبھا کے سپیکر کے فیصلے کو بدل دے؟ راج کھووا نے اروناچل ودھان سبھا کا سیشن ایک مہینہ پہلے کھسکا لیا توکیا یہ انہوں نے اپنے دم کھسکایا ہوگا؟ راج کھووا پرانے آئی اے ایس افسر رہے ہیں۔کیاانہیں ودھان سبھا کے سپیکرکی طاقت کا علم نہیں ہے؟ عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ راج کھووا کو استعفیٰ دینے کے لیے مجبورکرتی۔ اگر راج کھووا ٹانگ نہ اڑاتے تو ہوسکتا تھا کہ پارٹی بدلنے والے اکیس کانگریسی ممبروںکو مہینے بھر میں وزیراعلیٰ نبام تکی واپس لے آتے۔ ودھان سبھا کا سیشن کسی ہوٹل میں چلا ‘ نئے وزیراعلیٰ کل کھوپل کو واضح اکثریت ملی۔ پارٹی بدلنے والے ایم ایل ایز اب بھی ودھان سبھا کے ممبر ہیں، مطلب یہ کہ اکثریت ابھی تکی کی نہیں‘ پل کی ہے۔ اب پانچ ماہ بعد اگر تکی دوبارہ وزیر اعلیٰ بنیںگے تو وہ سرکار کیسے چلائیں گے؟ اقلیت کی یہ سرکار تو جمہوریت کا مذاق ہوگا۔ عدالت کا فیصلہ تب پورا ہوتا جب وہ تکی کو ودھان سبھا میں اکثریت ثابت کرنے کے لیے بھی کہتی۔ عدالت نے نہ تو گورنر کو سزادی اور نہ ہی پرانے وزیراعلیٰ کو اکثریت ثابت کر نے کو کہا۔ اترا کھنڈ‘ اروناچل کے فیصلے ہماری عدالتوں کی خود مختاری کا ثبوت تو ہیں، لیکن عدالت کو تھوڑی ہمت اور دکھانی چاہیے۔ اسے صدر اور وفاقی سرکارکے کردار پر بھی سیدھی وضاحت کرنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں