"DVP" (space) message & send to 7575

بھاجپا کے بڑھتے مصائب

اگلے برس ہونے والے صوبائی انتخابات کے حوالے سے بھاجپا کی مشکلیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ پہلے اس نے اتراکھنڈ میں منہ کی کھائی‘ پھر اروناچل میں مات کھائی‘ اس کے بعد اتر پردیش میں کانگریس نے شیلا ڈکشٹ اور راج ببر کو اکھاڑے میں اتار دیا اور اب بھاجپا کے نوجوت سنگھ سدھو نے پلا جھٹک دیا۔ سدھو راجیہ سبھا سے جس طرح مستعفی ہوئے وہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ اروناچل میں ہوا۔ باغی لیڈر کلکھوپل کیسے نبام تکی سے جا ملے‘ بھاجپا کے بڑے لیڈروں کو بھنک تک نہیں پڑی۔ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ کیا یہ نہیں کہ بھاجپا لیڈروں میں دور اندیشی کی کمی ہے؟ وہ یہ نہیں پہچان پاتے کہ سامنے والا شطرنج پر اگلی چال کیا چلے گا۔ انہیں پتا ہونا چاہیے کہ یہ لوگ گُھٹے ہوئے کرسی پریمی لیڈر ہیں‘ راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے ذمہ دار سوئم سیوک نہیں ہیں۔ اگر سدھو ''عآپ‘‘ میں جا ملیں اور پنجاب میں امیدوار برائے وزیر اعلیٰ بن جائیں تو وہ اکالی دل اور بھاجپا‘ دونوں کا سونپڑا صاف کروا سکتے ہیں۔ اکالی دل اور بھاجپا کی کھینچا تانی نے اس اتحادی سرکار کی دال پہلے سے پتلی کر رکھی تھی‘ وہ اب پانی پانی ہو سکتی ہے۔ پنجاب میں اپنی سرکار بنانے کا بھاجپا کا خواب اب دری کے نیچے سرک گیا ہے۔ یوں بھی 117 ممبروں کی ودھان سبھا میں بھاجپا نے 23 نشستیں لڑی تھیں اور اکالی دل نے 94 نشستیں۔ اب بھاجپا 117 لڑا لے تو بھی کتنی سیٹیں جیت پائے گی؟
اتر پردیش میں بھاجپا کی پوزیشن کافی مضبوط ہو رہی تھی لیکن کانگریس نے کمال کا دائو مارا ہے۔ راج ببر کو صدر اور شیلا ڈکشٹ کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنا دیا ہے۔ اس کا پہلا فائدہ تو سونیا اور راہول کو ہو گا۔ کانگریس کی ہار کا ٹھیکرا ان کے سر نہیں پھوٹے گا۔ کانگریس کی نشستیں ضرور بڑھیں گی‘ کیونکہ شیلا کی شخصیت بے جوڑ ہے۔ انہوں نے پندرہ برس میں دلی میں جو کام کر دکھایا‘ وہ کوئی بھی وزیر اعلیٰ نہیں دکھا سکا۔ اتر پردیش کے بارہ فیصد برہمن ووٹوں میں سے وہ جو بھی کھینچیں گی‘ اس کا نقصان بھاجپا کو ہو گا۔ وہ عمران مسعود کے ساتھ مل کر مسلم 18 فیصد ووٹوں میں جو کھینچیں گی‘ اس کا زیادہ نقصان مایاوتی کو ہو گا‘ یعنی اس کا فائدہ سماج وادی پارٹی کو گھر بیٹھے مل جائے گا۔ بھاجپا کی پریشانی یہ ہے کہ ملک کے اس سب سے بڑے صوبہ میں اس کے پاس کوئی نامور لیڈر نہیں ہے‘ جسے وہ بطور وزیر اعلیٰ پیش کر سکے۔ جو پریشانی بہار میں تھی‘ وہ یہاں بھی ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اب مودی کی لہر بھی اتر گئی ہے۔ کوئی حیرانی نہیں کہ راج ببر کے جلسوں میں زیادہ لوگ آئیں۔ اب تک جتنے بھی فلمی ستارے سیاست میں آئے ہیں‘ ان میں راج ببر کی پرسنیلٹی سب سے اچھی ہے۔ کیا بھاجپا کے پاس اتر پردیش میں کوئی ایسا لیڈر ہے؟ 
گاندھی پر راہول کی مہاپنڈتائی 
نہرو بادشاہ نسل کے شہزادے راہول گاندھی اپنے ہی لفظوں کے جال میں پھنس گئے ہیں۔ مارچ 2014ء میں ملک کو چنائو کا بخار چڑھا ہوا تھا۔ مہاراشٹر کے ایک جلسے میں انہوں نے ایک جملہ دے مارا۔ انہیں یہ برا لگا تھا کہ نریندر مودی جیسا آدمی اپنے جلسوں میں گاندھی اور پٹیل کی دُہائی دے رہا ہے۔ آر ایس ایس کا یہ کٹر کارکن ایسے حربے اس لیے اختیار کر رہا تھا کہ اسے ووٹ کباڑنے تھے۔ سو سیاست اور تاریخ کے علامہ نے ایک گھسا پٹا جملہ اچھال دیا کہ ''جس آر ایس ایس کے لوگوں نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا تھا‘ آج وہی لوگ ان کی بات کر رہے ہیں‘‘۔ یہ جملہ ہزاروں بار ہمارے کانگریسی اور کمیونسٹ لیڈر اچھال چکے ہیں لیکن اس بار بیچارے راہول بابا پھنس گئے۔ ان کے خلاف مقدمہ درج ہو چکا ہے‘ سنگھ کے عزت ہتک کا۔ اس معاملے پر سپریم کورٹ نے راہول سے کہا ہے کہ اپنی غلط بیانی پر وہ معافی مانگے‘ ورنہ اس پر باقاعدہ مقدمہ چلے گا۔ راہول نے اور کانگریس ترجمان نے معافی مانگنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ راہول جی ''بہت ہی سلجھے ہوئے اور پختہ لیڈر ہیں اور انہیں تاریخ کی باریکیوں کی گہری سمجھ ہے‘‘۔ ان کی رائے کانگریس کی رائے ہے۔ جو جوان اطالوی‘ ہندی یا انگریزی کے چار جملے بھی لگاتار صاف نہیں بول سکتا ہے‘ اس کے بارے میں اتنی اونچی رائے رکھنے کا مطلب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ گاندھی کے قتل کے بارے میں فیصلہ دینے والے ججوں‘ کھوسلہ کمیشن اور موجودہ سپریم ججوں کا علم راہول جی کے علم کے سامنے پھیکا اور کمزور ہے۔ ان سب نے یہ مانا تھا کہ گاندھی کا قتل گوڈسے نے کیا تھا‘ سنگھ کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ اب راہول جی اور ان کے وکیل عدالت میں ایڑی چوٹی کا زور لگائیں گے‘ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ سنگھ نے ہی گوڈسے کے ہاتھوں گاندھی کو مروایا تھا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ عدالت نے ان کے لیے جو چور گلی نکالی ہے‘ اس سے وہ کیوں نہیں نکل بھاگتے؟ پتا نہیں‘ وہ آج کل کس سے مشورے لے رہے ہیں؟ وہ اپنی مہا پنڈتائی پر عدالت کی مہر کیوں لگوانا چاہتے ہیں؟ 
صفائی یا صرف پوسٹر بازی
گزشتہ دو ماہ میں‘ میں قریب قریب درجن بھر شہروں میں گیا۔ مختلف صوبوں کے ان شہروں میں کار سے سفر کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ کئی شہروں اور گائوں سے بھی گزر ہوا۔ ان کے محلوں اور بستیوں کو نزدیک سے دیکھنے بھی کا موقع ملا۔ میں نے سوچا کہ وزیر اعظم نے جو مشنِ صفائی چلایا ہے‘ اس سے ان شہروں اور دیہات کا نقشہ ہی بدل گیا ہو گا‘ لیکن ایسا لگا کہ پہلے سے بھی زیادہ گندے ہو گئے ہیں۔ یہ زیادہ گندے تو کیا ہوئے ہوں گے‘ لیکن ایک خاص نظریے اور نظر سے دیکھنے کی وجہ سے کافی گندے لگ رہے تھے۔ وہ پہلے اتنے گندے نہیں لگتے تھے‘ کیونکہ گندگی ہماری نظر کا ایک حصہ بن چکی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مودی کے مشن صفائی سے دکھی ہو کر لوگوں نے سال ڈیڑھ سال سے زیادہ گندگی پھیلانا شروع کر دی ہے۔ وزیر اعظم کی یہ مہم زبردست تھی لیکن یہ اخباروں‘ ٹی وی کے پردوں اور اشتہاروں میں سمٹ کر رہ گئی۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں۔ دور دور تک وہ بدبو پھیلاتے رہتے ہیں۔ ان کے آس پاس سوئروں کے بچے منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ گائے اور بھینس بھی ان ڈھیروں سے اپنے لیے کچھ ڈھونڈتی رہتی ہیں۔ محلوں اور بازاروں کے بیچ لگے ان گندے ڈھیروں کی بدبو سے بچنے کے لیے اپنی ناک پر رومال رکھنا پڑتا ہے۔ کئی دیہات میں‘ میں نے دیکھا کہ فٹ پاتھ اور سڑکوں کے کنارے پاخانے کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ برسات میں ان کی بدبو گھروں تک پہنچتی رہتی ہے۔ یہ بیماری کا شرطیہ انتظام ہے۔ دو دن سے میں اندور میں ہوں۔ اس شہر کی صفائی پر ہم کبھی ناز کیا کرتے تھے لیکن اب اس کا حال بھی ویسا ہی ہے جیسا دوسرے دیہات کا۔ اور یہ اس کے باوجود ہے کہ اندور کا نگر نگم مودی کا ہے‘ ایم پی میں سرکار مودی کی ہے اور وفاق میں سرکار بھی مودی کی ہے۔ اب مودی تو یہاں آ کر جھاڑو لگانے سے رہے۔ وہ تو نوکرشاہوں کے محتاج ہیں۔ میں پوچھتا ہوں‘ خاص طور سے امیت شاہ سے‘ کہ آپ کی پارٹی کے 13 کروڑ ممبر کیا کر رہے ہیں؟ وہ کس کام کے ہیں؟ جب تک وہ متحرک نہیں ہوں گے‘ یہ صفائی مشن صرف پوسٹر بازی بن کر رہ جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں