"DVP" (space) message & send to 7575

لات سے نہیں ‘بات سے حل کریں مسئلہ کشمیر

کشمیر میں مچے کہرام کو مہینہ بھر ہو گیا لیکن وہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔تشدد کے واقعے تو پہلے بھی ہوئے ہیں لیکن برہان وانی کی موت نے کشمیر ہی نہیں بھارت کی پارلیمنٹ کو بھی ہلا دیا ہے ۔ صرف 60لوگ مرے ہی نہیں ‘ہزاروں لوگ زخمی ہوئے ہیں اور سینکڑوں لوگ چھروں کے سبب اندھے ہو گئے ہیں ۔ کشمیر مسئلے کو بین الاقوامی کرنے کی پرزور کوشش پاکستان کر رہا ہے ۔پاکستان کے وزیراعظم اور اس کے صلاح کار سرتاج عزیز نے اقوام متحدہ اوراسلامی ملکوں کی تنظیم سے مداخلت کی اپیل کی ہے ۔کشمیر کے سابق مہاراجا ڈاکٹر کرن سنگھ نے ایوان میں قبول کیا ہے کہ کشمیراب بھارت کا اندرونی مسئلہ نہیں رہ گیا ہے ۔جموں کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی عجیب کیفیت میں پھنس گئی ہیں ۔اقتدار میں آنے سے پہلے جن طبقوں کی جانب وہ ہمدردی بتاتی رہتی تھیں ‘اب ان کا مقابلہ انہیں سے ہے ۔انہیں کہنا پڑ رہا ہے کہ کشمیریوں کی یہ قربانیاں بیکار نہیں جائیں گی ۔نریندر مودی نے 32 دن بعد اپنی خاموشی توڑی اور انہوں نے اٹل بہاری واجپائی کے پرانے نعرے کا سہارالیا ۔انہوں نے کہا کہ کشمیر مسئلہ کا حل ضرور ہوگا ‘انسانیت ‘ جمہوریت اور کشمیریت کے دائرے میں رہ کر لیکن آج کوئی نہیںجانتا کہ کشمیریوں کو مطمئن کرنے کا گرو منتر کیا ہے ؟
بھارت کی پارلیمنٹ میں کشمیر کو لے کر جو بحث ہوئی اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کے لوگ کشمیریوں کو غیر ملکی لوگ یا اجنبی یا غدار وطن نہیں سمجھتے ۔وہ کشمیریوں کے دکھ میں دکھی ہیں ۔ پاکستان کے لیے کشمیر کی خون ریزی ایک سیاسی مدعہ ہے ‘بھارت کے خلاف بہانہ ہے لیکن بھارتیوں کے لیے وہ گہرے افسوس کا مضمون ہے ۔اسی لیے ایوان میں سبھی پارٹیوں نے کشمیر کے زخموں پر مرہم لگانے کی اپیل کی ہے ۔ایک بھی رکن پارلیمنٹ نے نہیں کہا کہ پتھر یا گولیاں یا بم چلانے والوں کو بھون دو۔الٹے ساری پارٹیوں نے ایک جگہ بیٹھ کر یہ سوچنے کا کام کیا ہے کہ کشمیر کے نوجوانوں سے دلی رشتے کیسے قائم کیے جائیں ۔یہ بھارتی جمہوریت کی بڑی مثال ہے ۔جب سے نریندر مودی کی سرکار بنی ہے ‘ہماری سیاسی پارٹیوں نے ایسے اتحاد کی مضبوطی کا تعارف پہلی بار دیا ہے ۔اسی سے پتا چلتا ہے کہ مسئلہ کشمیر آج کتنا سنجیدہ ہے ۔
جو سیاسی پارٹیاں برسوں سے آرٹیکل 370 ختم کرنے کی رٹ لگائے ہوئی تھیں اور جسے سخت فرقہ واریت اوراور تنگ دل بتایا جا تا تھا ‘اسی کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ سرکار کشمیر کی سبھی پارٹیوں اور ماڈریٹ تنظیموں سے بات کرے گی ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ وہ شدت پسند اور علیحدگی پسند وں سے بات نہیں کرے گی ۔یہ فطری ہے ۔سرکاریں اکثر ایسے لوگوں سے بات نہیں کرتیں ‘جو اسکے اقتدار کو سیدھی للکار دیتے ہیں ۔وہ لات کا جواب لات سے دیتی ہے ۔وہ مانتی ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔بہت حد تک یہ بات ٹھیک ہو سکتی ہے ۔ لیکن یہی ایک اکیلا راستہ نہیں ہے ۔میرا تجربہ یہ ہے کہ کبھی کبھی بات کا اثر لات سے بھی زیادہ اور زبردست ہوتا ہے ۔گزشتہ پچاس برسوں میں میں نے بھارت اور پڑوسی ملکوں کے شدت پسندوں ‘دہشتگردوں اور بھارت مخالفوں سے لگاتار بحث چلائی ہے ۔سری لنکا کے تامل اگروادیوں سے‘ نیپال کے مائووادیوں‘ خالصتان کے خونخوار قاتلوں ‘افغانستان کے مجاہدین ‘ کشمیر کے حریت لیڈروںاور پاکستا ن کے حافظ سعید جیسے بھارت مخالف لوگوں سے سیدھی بات چیت کرتا رہا ہوں ۔اس سے ان کایکدم دلی بدلائو ہوگیا ‘ایسا دعویٰ میں نے کبھی نہیں کیا لیکن ہماری مثالوں ‘ رویہ اور اخلاقی برتائو نے ان پر اثر ضرور ڈالا ہے ۔جو بھارت توڑنے کا نعرہ دیا کرتے تھے اور ہمارے خاص لیڈروں کے قتل کی قسم کھایا کرتے تھے ‘وہ بھارت کے دوست بنے ہیں ۔وہ نرم پڑے ہیں ۔انہوں نے تشدد کا راستہ چھوڑ دیا ہے ۔وہ شاید لات کے خوف سے تشددکا راستہ نہیں چھوڑتے لیکن بات کے اثر نے ان کا راستہ بدلوا دیا ۔میں تو کہتا ہوں کہ دہشتگردوں سے بھی بات کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے ۔کیا دہشتگرد اس دشمن ملک سے بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے ‘جو ہم جنگ کرتا ہے ۔جب ہم جنگ کرنے والے ملک سے بات کرتے ہیں تو دہشتگردوں سے بات کرنے میں پرہیز کیوں کرتے ہیں ؟دہشتگرد توغیر ملکی نہیں ہوتے ۔وہ تو اپنے ہیں ۔ بھارتی شہری ہیں ۔ گمراہ ہیں ۔ انہیں صحیح راستے پر لانا ہمارے سماج اور سرکار کی ذمہ داری ہے ۔یہ بدقسمتی ہے کہ ہماری سرکاروں کے پاس گزشتہ کچھ برسوں سے ایسے لوگ ہی نہیں رہے ‘ جو دہشتگردوں سے اور بھارت کے اعلان کیے ہوئے دشمنوں سے سیدھی بات کر سکیں ۔کشمیر کے نوجوانوں سے ہمارے لیڈر تو بات کریں گے ہی ‘ان کی باتوں سے بھی زیادہ اثر کچھ صوفی ‘پیر بابائوں اور اچھے انسانوں اور ملے مولویوں کا ہو سکتا ہے ۔وہ آگے کیوں نہیں آتے ؟وہ کوئی پہل کیوں نہیں کرتے ؟
وزیراعظم نے وہی بات ادھوری دہرائی 'جو برسوں سے بھارت اور پاکستان کے اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر کہتا رہا ہوں ۔ میں کہتا ہوں کہ' کشمیر کی آزادی ہاں ‘لیکن الگ نہیں ۔یہ بات وزیراعظم نرسمہا رائو جی نے لال قلعے میں قدرے دوسرے الفاظ میں کہی تھی ۔ سارے کشمیر ی ہی نہیں ‘اگر کشمیر کی آزادی کے لیے بھی مجھے لڑنا پڑے تو میں لڑوں گا ۔وہ سری نگر میں اسی طرح آزاد رہیں‘جیسے میں دلی میں رہتا ہوں اور میاں محمدنوازشریف لاہور میں رہتے ہیں ۔اگر ان کی آزادی میں کوئی کمی ہو تو وہ اسے کھل کر بتائیں ۔ان کی بھارت سے الگ ہونے کی مانگ انہیں کھائی میں دھکیل دے گی ۔وہ کیا آزاد ملک بن کر زندہ رہ سکتے ہیں ؟وہ چاروں طرف زمین سے گھرے ہیں ۔ان کے پاس کشمیر سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ہے ۔وہ بھارت یا پاکستان یا چین کے محتاج رہیں گے ۔ان کے پاس تجارت نہیں ہے ۔
تو پھر حل کیا ہے ؟دونوں کشمیر ایک ہوں ۔دونوں کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان کھائی بنے ہوئے ہیں ۔وہ پل بنیں ۔ جوڑیں ۔بات چلے تو سب سے چلے ۔ایک دو نہیں ‘چاروں میں چلے ۔بھارت پاک ‘ہمارا کشمیر اور ان کا کشمیر !کشمیری نوجوانوں کو ایک بات میں کہنا چاہتاہوں۔ تمہارے ہاتھ میں پتھر ہے ‘تم پتھر چلائوگے ۔فوجی کے ہاتھ میں بندوق ہے ‘وہ بندوق چلائے گا ۔پتھر اور بندوق ہزار برس بھی چلتے رہے تو کشمیر کا کوئی حل نہیں نکلے گا ۔ ضروری ہے کہ وہ تشدد کا راستہ چھوڑیں ۔کشمیر سے باہر آئیں ۔ سارے بھارت میں گھومیں اور عام عوام کے گلے میں اپنی بات اتاریں ۔بھارت جمہوری ملک ہے ۔اگر عوام ان کے ساتھ ہوں گے تو سرکاروں کو جھکنا ہی پڑے گا ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں