بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی جی ٹونٹی کی بیٹھک میں حصہ لینے چین گئے لیکن اس کے ایک دن پہلے ویت نام پہنچ گئے۔ آج کل چین اور ویت نام میں کافی کھینچا تانی چل رہی ہے ‘ خاص طور سے جنوبی چین کے سمندر کے بارے میں۔ اس کے علاوہ چین کو یہ بھی پسند نہیں ہے کہ بھارت ویت نامی سمندر میں گیس و تیل پر کام کر رہا ہے۔ ان سب کڑوی حقیقتوں کے باوجود ہماری وزارت خارجہ نے مودی کا دورہِ ویت نام طے کر دیا۔ یہ اپنے طور پر ایک بڑی بات ہے۔ اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ بھارت، چین کے ساتھ برابری کے تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ وہ چین کے ساتھ ضرورت سے زیادہ لحاظ داری نہیں کرنا چاہتا۔ اگر چین بھارت کے پڑوسیوں پاکستان ‘ نیپال ‘ سری لنکا، مالدیپ اور برما کے ساتھ اپنے تعلقات گہرے کرتا جا رہا ہے تو بھارت چین کے پڑوسیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی اونچائیاں کیوں نہ دے؟
مودی کا دورہِ ویت نام اس نظریے کے اعتبار سے اہم ہے کہ اس دورے کے دوران بھارت ویت نام تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔ دونوں ملکوں نے 12 سمجھوتوں پر دستخط بھی کیے ہیں ۔ بھارت نے 50 کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ ویت نام کی سمندری حدود میں بھارت گشتی کشتیاں بھی بنائے گا۔ جنگی اطلاعات کے تبادلے کا بھی بندوبست ہوا ہے۔ ویت نام کو بھارت براہموس میزائل بھی دے گا۔ ویت نام میں بھارت سیارہ بھی چھوڑے گا تاکہ جنوبی چینی سمندر میں چلنے والی چین کی حرکتوں پر بھارت کی نظر رہے۔ دونوں ملکوں کے مابین تجارت بھی بڑھے گی ۔ اس کے علاوہ مودی نے بودھ ویت نام کا دل جیتنے کی کوشش اپنے انداز میں بھی کی ہے۔
دونوں ملکوں نے اپنی مشترکہ پریس کانفرنس میں سائوتھ چائنا سی پر چل رہے تنازع کا ذکر کیا اور دونوں کا اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ متعلقہ ملک اس کا پر امن حل نکالیں۔ بین الاقوامی قوانین کا احترام کریں ۔ دونوں ملکوں نے سلامتی کونسل کے دوبارہ اتحاد کی مانگ اور اس میں ایشیا کے ملکوں کو مکمل نمائندگی دینے کی درخواست کی ہے۔ ویت نام سامیہ پرست ملک ہے لیکن بھارت کے ساتھ اس کی بڑھتی گہرائی یہ ثابت کر رہی ہے کہ کسی بھی ملک کو نظریات کے نام پر ٹھگا نہیں جا سکتا ۔ چینی سمندر میں فری ٹریڈ کے سوال پر بھی جزیرے والے ملک ویت نام ‘ فلپائن‘ تائیوان ‘ ملائیشیا اور برونائی بھارت کے رویے سے خو ش ہیں۔
بھارت چین حقیقت کی زمین پر
چین میں چل رہی جی ٹونٹی بیٹھک کا فائدہ نریندر مودی نے کافی اچھا اٹھایا ۔ چینی صدرشی جن پنگ سے مودی نے کافی کھری کھری باتیں کہیں۔ ہمارے ترجمان نے وہاں صحافیوں کو بتایا کہ اگر وہ درست ہے تو ماننا پڑے گا کہ ہماری سرکار خارجہ پالیسی کے معاملے میں صحیح کام کرتی جا رہی ہے ۔ مودی نے شی جن پنگ سے دو باتیں صاف صاف کہیں۔ ایک تو دہشت گردی کی اور دوسری پاک چین اقتصادی راہداری کے بارے میں۔ مودی نے کسی بھی ملک کا نام لیے بغیر شی جن پنگ سے کہا کہ دہشت گردی پر ہمارے سبھی ممالک کا رویہ ایک جیسا ہونا چاہیے۔ دہشت گرد ی کہیں سے بھی آئے‘اس کی ڈٹ کر مخالفت ہونی چاہیے۔اس معاملے میں سیاسی لحاظ داری بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ مودی نے شی جن پنگ سے حال ہی میںکرغیزستان میں چینی سفارتخانے پر گزشتہ دنوں ہوئے دہشت گردانہ حملے کا ذکر کیا۔ مودی کو اگر پتا ہوتا تو وہ شی جن پنگ کو یہ بھی بتاتے کہ چین کے سنکیانگ صوبہ کے مسلمانوں میں دہشت گردی پھیل رہی ہے۔ انہیں کسی قریبی علاقے سے ہتھیار ‘ تربیت اور پیسہ بھی ملتا ہے۔ وہ اب چین کے بڑے بڑے شہروں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ مودی نے شی جن پنگ سے سی پیک کے بارے میں بھی بات کی ‘جو چین 46 ارب ڈالر لگا کر بنا رہا ہے۔ یہ راہداری کشمیر سے ہو کر گزرے گی جو کہ متنازع علاقہ ہے ‘ لیکن جسے پاکستان نے 1963ء میں ایک معاہدے کے تحت چین کو دے دیا تھا۔
مودی نے اپنی بات کہہ دی لیکن اس کا اثر کیا ہوا؟ کیا شی جن پنگ نے کوئی تسلی دی؟ کیا موجودہ حالات میں کوئی فرق پڑا؟ چین اپنی جگہ ڈتا ہوا ہے۔ اس نے مسعود اظہر کے دہشت گرد ہونے کا اعلان نہیں ہونے دیا۔ اقوام متحدہ کی پیش کش میں روڑا اٹکا دیا تھا۔ اسی طرح چین نے این ایس جی میں بھارت کے شامل ہونے پر اڑنگا لگا دیا۔ ٹوٹل ملا کر نتیجہ یہ ہوا کہ ڈھائی برس پہلے چین کو لے کر ہم جو جھولا جھول رہے تھے ‘وہ رک گیا ہے اور اب ہمیں حقیقت کی زمین پر آنا پڑ گیا ہے۔ پاکستان کی چین اقتصادی مدد کرے ‘اس میں کوئی برائی نہیں ہے، لیکن اسے وہ بھارت کے خلاف مہرے کی طرح استعمال کرے‘ یہ ٹھیک نہیں ہے۔