مزاحیہ فنکار کپل شرما کے ٹویٹ نے تہلکہ مچا دیا ہے۔ اس نے بدعنوانی کو پھر سے بحث کا مدعہ بنا دیا ہے۔ کپل نے کہا ہے کہ ممبئی نگر نگم کے ایک افسر نے اس سے پانچ لاکھ روپیہ کی رشوت مانگی ہے۔ وہ اپنا نیا دفتر بنوا رہا تھا اور اسے پیسوں کی ضرورت تھی۔ کپل شرما نے وزیر اعظم نریندر مودی سے پوچھا ہے کہ کیا یہی 'اچھے دن‘ ہیں‘ جس کا انہوں نے پوری بھارتی قوم سے وعدہ کیا تھا؟
یہ ٹویٹ کرکے کپل شرما چرچا میں تو آ گئے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ پھنس بھی گئے ہیں۔ پھنس اس لیے گئے ہیں کہ ان کا پول کھولنے والے کئی بیانات ان کے سامنے آ گئے ہیں۔ ممبئی نگر نگم کے افسروں نے بتایا ہے کہ کپل شرما کے ایک گھر کو سرکار نے 4 اگست کو اس لیے گرا دیا کہ وہ غیر قانونی تھا۔ یہ بنگلہ اندھیری (مغرب) میں تھا۔ اس کا ایک اپارٹمنٹ گورے گائوں میں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ نویں منزل پر بنا یہ اپارٹمنٹ بھی غیر قانونی طور پر تعمیر کیا گیا ہے۔ اسے گرانے کا نوٹس بھی کپل شرما کو مل چکا ہے۔ کپل شرما نے ان سرکاری نوٹسوں کی کوئی پروا نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ کسی افسر نے کپل شرما کی کشتی پار لگانے کے لیے پانچ لاکھ روپے مانگے ہوں گے‘ جو کہ اس کپل شرما کے لیے کچھ بھی نہیں ہیں‘ جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ سال کا پندرہ کروڑ ٹیکس بھرتا ہے۔ اتنی بڑی رقم کا چرچا کر کے کپل شرما اپنی کھال بچانا چاہتا تھا اور اپنے غیر قانونی مکانوں اور دفتر کی ان دیکھی کروانا چاہتا تھا‘ تاکہ ان کی طرف کسی کی توجہ نہ جائے۔ سوال یہ ہے کہ جس افسر نے پانچ لاکھ روپے مانگے‘ اس کا نام کپل شرما نے کیوں نہیں بتایا؟ اس سے شک پڑتا ہے کہ کہیں ساری کہانی ڈرامائی تو نہیں ہے؟ مہاراشٹر نونرمان سینا نے کپل کو چیلنج دیا ہے کہ اگر اس نے 48 گھنٹے میں رشوت مانگنے والے سرکاری افسر کا نام نہیں بتایا تو وہ اس کو ٹی وی شو نہیں کرنے دیں گے۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ نے بدعنوان افسر کے خلاف سخت کارروائی کی یقین دہانی کرائی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ سرکاری محکموں میں اوپر سے نیچے تک بدعنوانی کا بول بالا مودی حکومت کے ڈھائی سال گزرنے کے باوجود جوں کا تیوں ہے۔ ڈھائی برس میں مودی سرکار کا کوئی اثر دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔ بدعنوانی کم نہیں ہوئی۔ یہ ٹھیک ہے کہ سیاست دانوں کی سطح پر بدعنوانی کا کوئی بھی معاملہ سامنے نہیں
آیا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ بدعنوانی دور کرنے کی ذمہ داری کیا اکیلی سرکار کی ہے؟ میری رائے میں یہ ذمہ داری سرکار سے زیادہ عوام کی ہے۔ اگر عوام اپنے غیر قانوی کام کروانا چاہیں گے تو وہ رشوت دیں گے ہی! ورنہ نہیں۔ عوام کی مرضی کے بغیر کون ان سے رشوت لے سکتا ہے۔ کپل شرما سے رشوت مانگنے کی ہمت اس افسر کو کیسے ہوئی؟ سرکار اگر رشوت دینے والوں اور لینے والوں‘ دونوں کو رنگے ہاتھ پکڑ کر اگر سخت سزا دلوا جا سکے تو عام آدمی کو شاید کچھ راحت ملے اور ملک سے رشوت ستانی کے خاتمے کے امکانات پیدا ہو سکیں۔
کچھ نہیں تو کھاٹ ہی سہی
ڈھائی برس ہو گئے کانگریس پارٹی کھاٹ پر پڑی ہوئی ہے۔ اب بے چارا شہزادہ کیا کرے؟ اسی لیے تو اب وہ جگہ جگہ کھاٹ جلسے کر رہے ہیں۔ لوگ فضول اور بے مقصد ہی اس کی ہنسی اڑا رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ ان کے جلسوں میں آ رہے ہیں۔ کتنے فائدے کا کام ہے‘ یہ؟ انہی لوگوں کو اگر خود لانا پڑتا تو کیا ہوتا؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ اتنے لوگ شہزادے کے اٹ پٹ لٹ پٹ بول سننے آتے ہی نہیں۔ انہیں کوئی کشش محسوس نہ ہوتی۔ اگر ہاتھ پائوں جوڑ کر انہیں آنے کے لیے راضی کر لیا جائے تو بھی ان کا آنا کافی مہنگا پڑتا۔ بسوں‘ ٹرکوں اور ٹرالیوں کے کرائے بھرنے پڑتے‘ جو ظاہر ہے ایک مہنگا کام تھا‘ لیکن اب تو وہ خود ہی چلے آ رہے ہیں‘ اپنی مرضی سے‘ کیونکہ انہیں کھاٹ کا لالچ دیا جا رہا ہے اور لوگ اس لالچ میں آ بھی رہے ہیں۔ ہزاروں کھاٹیں میدان میں جمع کروا دی جاتی ہیں۔ لوگوں میں بھی آگے آگے گھسنے کی ہوڑ لگی رہتی ہے۔ اس لیے وقت کے پہلے ہی لوگ میدان میں پہنچ جاتے ہیں‘ اور اپنی اپنی پسندیدہ کھاٹ پر قبضہ جما کر بیٹھ جاتے ہیں۔ شہزادے کی تقریر سننے کی بجائے ان کا دھیان اس بات پر ہوتا ہے کہ کوئی ان کی کھاٹ کھسکا نہ لے جائے۔ اس لیے وہ اس پر جمے رہتے ہیں۔ اس کا فائدہ شہزادے کو یہ ہے کہ وہ چاہے کتنا ہی 'بور‘ کرے‘ جلسہ چھوڑ کر کوئی بھاگتا نہیں ہے۔ اگر بھاگتا ہے تو کھاٹ وہیں چھوٹ جائے گی اور گھاٹے کا سودا کون کرتا ہے؟ لیکن سامعین اور حاضرین کو بھی ایک فائدہ ہے۔ جب شہزادہ اپنی بور تقریر کو لمبا کھینچنے لگے تو سامعین بھی کھاٹ پر خراٹے کھینچ سکتے ہیں۔ اپنے دورہِ اتر پردیش میں ایسا خوبصورت بندوبست وزیر اعلیٰ اکھلیش بھی نہیں کر سکتے۔ اس پانچ ستارہ انتظام کی تعریف سارے سامعین کر رہے ہیں۔ شہزادہ صاحب اتنے محو ہیں کہ انہوں نے کہہ دیا ہے کہ جائو‘ میرے پیارے سامعین‘ چنائو جیتنے پر تمہارے سارے قرض معاف کر دوں گا۔ کسانوں کو پتا ہے کہ پارلیمنٹ نے بینکوں کو قرض معافی کے لیے منع کیا ہے۔ انہیں یہ بھی پتا ہے چنائووں میں کانگریس کی کھاٹ کھڑی ہونے والی ہے۔ پھر بھی وہ راہول جی سے بہت خوش ہیں‘ کیوں کہ ان کے قرض معاف ہوں یا نہ ہوں‘ انہیں ابھی ایک ایک کھاٹ تو مفت مل ہی گئی ہے۔ نو نقد‘ تیرہ ادھار! اور کچھ نہیں تو کھاٹ ہی سہی۔ جو مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے!