مہاراشٹر کے کچھ اضلاع میں آج کل مراٹھا لوگوں کے جیسے مظاہرے ہو رہے ہیں ویسے‘ جب سے مہاراشٹر بنا ہے‘ پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ یہ مظاہرے ابھی مراٹھ واڑا اور مغرب مہاراشٹر میں ہی ہوئے ہیں لیکن اب ان کی آگ وِدربھ اور کونکن کے علاقوں میں بھی پھیل رہی ہے۔ اگلے ماہ ممبئی میں جو مظاہرہ ہو گا ‘پتا نہیں اس میں کتنے لاکھ لوگ شریک ہوں گے۔ یہ مظاہرہ مراٹھا لوگ کیوں کر رہے ہیں؟ اس کا سبب یہ ہے احمد نگر ضلع کے کوپرڈی گائوں میں ایک مراٹھا لڑکی کا قتل۔ چار دلتوں نے اس کے ساتھ پہلے اجتماعی زیادتی کی اور پھر اس کا قتل کر دیا۔ لاکھوں مراٹھا لوگ مانگ کر رہے ہیں کہ ان زیادتی کرنے والے قاتلوں کو پھانسی پر لٹکائو۔ انہیں اس لیے مت چھوڑ دیجئے کہ یہ دلت ہیں۔
یہ مانگ اٹھتے اٹھتے اتنا زور پکڑ گئی کہ اس میں سے کئی نئی لہریں بھی پیدا ہو گئی ہیں۔ مراٹھائوں نے ایک مانگ یہ بھی کر دی ہے کہ انہیں بھی تعلیم اور نوکریوں میں ریزرویشن دیا جائے۔ یہ ٹھیک ہے کہ مہاراشٹر کے زیادہ تر وزرائے اعلیٰ مراٹھی ہی رہیُ لیکن اب بھی مراٹھا عام آدمی غریب ہے‘ دیہاتی ہے‘ لاعلم ہے۔ سماجی نظریے سے مراٹھا لوگوں کو حکمران جماعت کا سمجھا جاتا ہے لیکن وہ تو مٹھی بھر ہیں۔ وہ پارٹی کے اختلافات کو ایک طرف سرکا کر مظاہروں میں حصہ لے رہے ہیں۔ یہ مراٹھا تحریک پُرامن ہے اور کوئی دلتوں پر کسی بھی طرح کا حملہ نہیں کر رہا ہے۔ وہ یہ مانگ ضرور کر رہا ہے کہ دلتوں پر ظلم روکنے کے قانون کو واپس لیا جائے کیونکہ اس کی آڑ میں مراٹھا لوگوں پر بے حد زیادہ ظلم ہوتا ہے۔
اس تحریک نے اتنی شدت اس لیے اختیار کر لی ہے کہ مہاراشٹر کی دیویندر پھڑن ویس سرکار اس کی ان دیکھی نہیں کر سکتی۔ ہو سکتا ہے کہ وہ فوراً ہی اس کا کوئی اچھا اور قابل عمل حل کھوجنے کی کوشش کر ے۔ یہاں اس حقیقت پر دھیان دینا ہو گا کہ جب گجرات‘ ہریانہ اور راجستھان کے پٹیل‘ جاٹ اور گجر ریزرویشن کی مانگ کر رہے ہیں تو مہاراشٹر کے مراٹھا کیوں نہ مانگیں؟ اگر سرکار نے ذات پات کی بنیاد پر ریزرویشن دینا قبول کیا ہے تو وہ مراٹھا لوگوں کو 'ناں‘ کیسے کر سکتی ہے؟ اگر کمیشن کے اصولوں پر مراٹھا مانگ درست ثابت ہوتی ہے تو انہیں بھی محروموں کے قطار میں جوڑنا ہی پڑے گا۔ یا تو سرکار ذات پات کی بنا پر ریزرویشن ختم کرے یا پھر اس مسئلے کا کوئی حل نکالے۔
شام میں امن کے آثار
بین الاقوامی سیاسی تاریخ کا یہ عجیب واقعہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد روس اور امریکہ ہمیشہ ایک دوسرے کے مخالف رہے۔ کبھی وہ جرمنی‘ کبھی کیوبا اور ویت نام‘ اور کبھی افغانستان میں ایک دوسرے کے خلاف لڑتے رہے اور جب سرد جنگ تھم گئی‘ تو بھی وہ باہمی مخالف طاقتوں کی حمایت کرتے رہے‘ جیسا کہ اب تک وہ شام میں کرتے رہے ہیں۔ اگر روس شام کے حکمران بشارالاسد کی حمایت کرتا رہا تو امریکہ اسد باغیوں کی مدد‘ لیکن پہلی بار ہوا کہ دونوں عظیم قوتوں نے مل کر دشمن سے لڑنے کا عزم ظاہر کیا۔ دہشت گردوں کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ان دونوں عالمی طاقتوں کو ایک ہی منچ پر لا کر کھڑا کیا۔
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری اور روس کے وزیر خارجہ سرگیئی لاوروو نے حال ہی میں جنگ بندی کا ایک معاہدہ کیا ہے‘ جس کے مطابق اسد کی افواج اور النصرۃ مورچے کے چھاپہ مار چند روز ایک دوسرے پر حملہ نہیں کریں گے اور الیپو شہر میں جنگ میں حصہ لینے والے باشندوں کو امداد پہنچانے دیں گے۔ اس دوران روس اور امریکہ ایک متحدہ کمیٹی بنائیں گے‘ جو اسد اور باغیوں کے علاقے طے کرے گی تاکہ یہ دونوں مل کر داعش کے دہشت گردوں کا خاتمہ کر سکیں۔ چند روز پہلے تک روس کی فوجیں اسد مخالفوں پر بم برسا رہی تھیں اور ان مخالفین کی امریکہ‘ یورپ کے ملک مدد کر رہے تھے۔ اس کا فائدہ داعش کے دہشت گرد اٹھا رہے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ پانچ برس میں پانچ لاکھ لوگ مارے گئے‘ لاکھوں شام چھوڑ کر باہر بھاگ گئے اور تقریباً نصف آبادی نے نقل مکانی کر لی۔
اگر یہ معاہدہ کامیاب ہو گیا تو لاکھوں لوگوں کو راحت ملے گی اور یہ بین الاقوامی سیاست میں عالمی طاقتوں کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ دونوں عظیم طاقتیں اگر مل کر لڑیں گی تو داعش کا ٹک پانا ناممکن ہو جائے گا۔ اگر داعش کا خاتمہ ہوتا ہے تو دنیا کے مسلم ممالک کو چین سے جینے کا موقع ملے گا۔
اروناچل: سرحد کی پھسلن
اروناچل پردیش پھر کانگریس کے ہاتھ سے پھسل گیا۔ اگر مرکز میں آج کانگریس کی سرکار ہوتی تو وہ تھوک میں دھوکہ دینے کا الزام عائد کرکے یا کسی بھی بہانے سے اس سرکار کو برخاست کر دیتی۔ ویسے وفاق میں کانگریس سرکار ہوتی تو اروناچل کے ایم ایل ایز کانگریس چھوڑتے ہی نہیں۔ وفاق میں بھاجپا کی سرکار ہے‘ اس لیے اروناچل کے ایم ایل ایز نے پلٹا کھایا۔ نئی پارٹی کھڑی کر لی۔ پیپلز پارٹی آف اروناچل۔ وہ بھاجپا میں شامل نہیں ہوئے۔ بدنامی سے بچنے کے لیے۔ لیکن کون یقین کرے گا کہ یہ سب بھاجپا کی کارستانی نہیں ہے؟ ایسے تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ دل بدل بھاجپا نے کروایا ہے لیکن اروناچل کی یہ نئی پارٹی اس اتحاد کی ممبر بن گئی ہے جو شمال اور مشرق کے سرحدی صوبوں کو جوڑنے کے لیے بھاجپا نے کھڑی کی۔ اب آسام اور اروناچل کے اقتداری ایک ہو کر کام کریں گے اور کوئی تعجب نہیں کہ وہ منی پور اور میگھالیہ میں بھی تھوک دل بدل کروا لیں۔ ایک نظریہ کے مطابق یہ اچھا ہے‘ یعنی سرحدی حدود کے سارے صوبے اسی رنگ میں رنگ جائیں‘ جو رنگ وفاق کا ہے لیکن اس فطرت کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ ہم اپنے سرحدی صوبوں کی سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں میں اتنی خود اعتمادی پیدا نہیں کر پائے کہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ انہیں وفاقی حکومت کا سہارا ہمیشہ کیوں چاہیے؟ اس کی بڑی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ اگر ان صوبوں میں اپوزیشن کی سرکاریں ہوتی ہیں تو وفاق ان کی مالی امداد ایک دم نصف کر دیتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ان سرحدی چھوٹے موٹے صوبوں میں وفاقی مال کی زبردست لوٹ ہوتی ہے۔ اروناچل کے 44 میں سے 43 کانگریس ایم ایل ایز نے دل بدل کا سبب یہ بھی بتایا ہے کہ ان کی پارٹی کے وفاقی لیڈروں نے ان کی زبردست بے عزتی کی ہے۔ پتا نہیں‘ یہ کہاں تک سچ ہے لیکن یہ سچ ہے کہ پورے ملک میں اس تھوک دل بدل کو عزت کی نظر سے نہیں دیکھا جا رہا۔ اس سے لیڈروں پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھتا جاتا ہے۔ اگر وہ مستعفی ہوتے اور نئی پارٹی کے جھنڈے تلے چنائو لڑ کر پھر آتے تو ان کی عزت بڑھتی لیکن آج کل عزت کی پروا کسے ہے؟