"DVP" (space) message & send to 7575

خود کشی کے بدلے سولی کیوں نہیں؟

دلی میں جو واقعہ ہوا ہے‘ ویسا شاید ملک میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ایسا تو کئی بار سنا ہے کہ کسی مجرم نے شرم کے مارے خود کشی کر لی۔ اسے عدالت سزادے‘ اس کے پہلے ہی اس نے خود کو سزا دے دی، لیکن آپ نے کبھی ایسا بھی سنا ہے، کسی ملزم کے پورے خاندان نے خود کشی کر لی ہو؟ کارپوریٹ افیئرز منسٹری کے ڈائرکٹر بال کرشن بنسل کی فیملی کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ بنسل پر الزام تھا کہ اس نے ممبئی کی کسی کمپنی سے لاکھوں روپے کی رشوت کھا لی ہے۔ رشوت اس لیے کھائی گئی کہ اس کمپنی نے اپنے ہزاروں شیئر ہولڈروںکو چقمہ دے کر ان کے کروڑوں روپے ہضم کر لیے۔ اس کمپنی کو اپنی وزارت سے'کلین چٹ‘ دینے کا وعدہ بنسل نے کیا تھا۔ بنسل کے گھر چھاپے میں 60 لاکھ روپے نقد بھی پکڑے گئے تھے۔ بنسل کی جانچ چل رہی تھی۔ ان پر الزامات ضرور لگے تھے لیکن ثابت نہیں ہوئے تھے۔ اس دوران وہ جیل کی ہوا بھی کھا آئے تھے۔
دوماہ قبل ان کی زوجہ اور بیٹی نے خود کشی کر لی تھی اور اب خود بنسل اور ان کے بیٹے نے بھی خود کشی کر لی ہے۔ بیٹے اور بیٹی کی شادی کی بات بھی ان دنوں چل رہی تھی۔ یہ نہایت ہی افسوسناک واقعہ ہے۔ بنسل اور ان کے بیٹے نے خود کو بالکل بے گناہ کہا ہے۔ اپنے سوئیسائیڈ نوٹ (خود کشی کرنے سے پہلے لکھی گئی تحریر) میں سی بی آئی کے کچھ افسروں پر انہیں تنگ کرنے کے الزامات بھی لگائے ہیں۔ اگر بنسل بے گناہ تھے تو انہیں ڈٹ جانا چاہیے تھا اور لڑ کر اپنی ایمانداری کا سکہ قائم کرنا چاہیے تھا۔ ان کی بیوی اور بیٹی نے خود کشی کیوں کی؟ اس لئے کہ وہ شرم سے بھرگئی ہوںگی۔ چاروں کی خود کشی یہ اشارہ دیتی ہے کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے۔ رشوت لینے والے افسر اور لیڈر تو گنہگار ہوتے ہی ہیں، ان کی فیملی والے ان سے کم بڑے مجرم نہیں ہوتے۔ رشوت کی ملائی پر جب ہاتھ صاف کرنے میں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا تو اس کی سزا پانے میں بھی انہیں کیوں بخشا جانا چاہیے؟ ان کے لیے کسی نہ کسی سزا کا اصول ضرور ہونا چاہیے۔
رشوت خوروں سے بھی کڑی سزا رشوت دینے والوں کو ملنی چاہیے۔ ایماندار افسروںاور لیڈروںکو بدعنوان کرنے کی بھی ذمہ داری ان کی ہی ہے۔ بنسل فیملی کی خود کشی کے بدلے میں رشوت دینے والوں کو سولی پرکیوں نہیں لٹکایا جاتا؟ ان کی ساری ملکیت ضبط کیوں نہیں کی جاتی؟ 
مسلمان : ووٹوں کی تھوک منڈی 
کیرل(کیرالا) میں مکمل ہوئے بھاجپا کے پروگرام سے پتا نہیں اس کے کارکن کتنے خوش ہوئے، لیکن ایک بات بہت اچھی ہوئی کہ نریندر مودی نے بھاجپا کے مرحوم لیڈر دین دیال اپادھیائے کی بات کو دہرایا۔ یہ دین دیال کی صدی کا برس ہے 
اور اب سے 49 برس پہلے وہ کیرالا میں ہی جن سنگھ کے صدر بنے تھے۔ انہیں یہ عہدہ پروفیسر بلراج مدھوک کے بعد ملا تھا۔ دین دیال صرف انسانیت میں یقین رکھتے تھے۔ وہ ذات پات، مذہب اور طبقوں سے اوپر اٹھ کر 'وسودیو کٹنبکم‘ کو اپنا اصول مانتے تھے۔ وہ بے حد انسان دوست اور فقیر صفت انسان تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ بھارت کے مسلمان اپنے ہی خاندان کے ممبر ہیں۔ انہیں ہم اپنے سے الگ نہ سمجھیں۔ نہ تو ان کی ان دیکھی کریں اور نہ ہی ان کو پھسلانے کے لیے انہیں انعامات دینے کی کوشش کریں۔ وہ اقلیت پرستی اور اکثریت پرستی کے خلاف تھے۔ جب سارے بھارت کی روح ایک ہے تو یہ سب فرق دکھاوا ثابت ہو جاتے ہیں۔ اسی بات کو جب ہم نریندر مودی کے منہ سے سنتے ہیں تو ہمیں یہ اور اچھی لگتی ہے۔ جو کہا ہے اگر وہ کیا جائے تو اس سے مودی کا بھی بھلا ہوگا اور بھارت کے مسلمانوںکا بھی!
بھارت کے مسلمانوں کو ہماری سیاست میں ووٹوں کی تھوک منڈی مانا جاتا ہے۔ انہیں سبھی پارٹیاں کبھی اکسا کر‘ کبھی لالچ دے کر‘ کبھی ڈرا کر‘ کبھی پھسلاکر اور کبھی سبز باغ دکھا کر تھوک میں ووٹ دینے کے لیے مجبورکر دیتے ہیں۔ بھارت کا اوسطاً مسلمان غریب ہے‘ تعلیم سے محروم اور خوفزدہ ہے۔ اس لیے وہ آسانی سے لیڈروں کے بہکاوے میں آجاتا ہے۔ مذہب کے نام پر اقلیتی فرقوںکو بھڑکایا جاتا ہے۔ انہیں بھی نوکریوں میں ریزرویشن مانگنے کے لیے اکسایا جاتا ہے۔کئی تعلیم یافتہ اور مال دار مسلمان اپنے مسلمان ہونے کا فائدہ اٹھاکر بڑے بڑے عہدے ہتھیا لیتے ہیں۔ وہ سرکار کی جی حضوری کرتے رہتے ہیں لیکن کروڑوں مسلمان جہاں سڑ رہے ہوں‘ وہیں سڑتے رہتے ہیں۔ ضروری بات یہ ہے کہ کسی بھی آدمی کے مسلمان ہونے یا ہندو ہونے یا برہمن یا دلت ہونے کا خیال نہ کیا جائے، بلکہ سرکاری سہولیات دیتے وقت صرف اس بات کا دھیان رکھا جائے کہ وہ آدمی حقیقت میں ضرورت مند ہے یا نہیں؟ انسان کو فقط انسان مان کر چلا جائے نہ کہ جانوروں کی طرح جھنڈ مان لیا جائے۔ جس دن بھارت کا ہر ایک باشندہ اپنے دماغ کا استعمال کرے گا اور اپنے آپ کو جھنڈکا حصہ نہیں بننے دے گا ‘اس دن بھارت میں حقیقی جمہوریت قائم ہو جائے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں