مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی اور دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجری وال نے بھارت سرکار کو نوٹس دے دیا ہے کہ یا تو وہ تین دن میں بڑے نوٹوں کی واپسی کے مشن کو واپس لے لے‘ورنہ وہ بغاوت کر دیں گے ؟کیا بغاوت کردیں گے ‘وہ؟کہ ان کے کہنے سے بینکوں کے ملازم ہڑتال کر دیں گے ؟یا لوگ قطاروں میں لگنا بند کر دیں گے یا بینکوں وہ لٹوا دیں گے یا ان کے کہنے پر عام لوگ پرانے نوٹوں کے چلن کو جاری رکھیں گے ؟ان میں سے کچھ بھی کروانے کی حیثیت نہ اروند کی اور نہ ہی ممتا کی ہے۔تو پھر وہ کیا کریں گے ؟نوٹنکیاں کریں گے ۔مظاہرے کریں گے ۔ جلسے کریں گے لیکن اس کے پیسے کہاں سے لائیں گے ؟سارے لیڈروں کے کارکن اس وقت کالے کو سفید کرنے کے لیے بینکوں کی قطاروں میں لگے ہوئے ہیں ۔وہ قطاروں میں لگیں گے کہ مظاہروں میں شامل ہوں گے؟ تاجروں نے اپنا خفیہ دھن پہلے سے اپنی تجارت میں لگا رکھا ہے ۔انہوں نے گزشتہ ایک ہفتے میں اپنے اربوں روپیہ سفید کر لیے ہیں ۔زمین ‘سونا‘زیور‘ڈالر خرید لیے ہیں لیکن لیڈر بیچارے بِلبِلا رہے ہیں ۔
نریندر مودی نے کالے دھن کو ختم کرنے کے لیے یہ نہایت ہی ہمت والا قدم اٹھایا تھا لیکن وہ پہلے سے اندازہ لگا نہیں پائے کہ وہ کتنے خطرناک بھنور میں پھنسنے جا رہے ہیں ۔وہ اس سے نکلنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں ۔یہ سرکار بے حد گھبرا گئی ہے ۔چکرا گئی ہے ۔عوام سے بھی زیادہ !اسی لیے کبھی وہ چھوٹا قدم رکھتی ہے تو کبھی بڑا ۔کبھی وہ قدم آگے بڑھاتی ہے تو کبھی پیچھے ۔اس کی کوشش ہے کہ عام عوام کی مشکلات کسی طرح دور کی جائے ۔لوگ سرکار کے اس بھرم کو سمجھ رہے ہیں ۔اسی لیے وہ اتنی مشکلات کے بعد بغاوت کی صورت نہیں اختیارکر رہے ہیں ۔کسان ‘بینکراور قطاروں میں کھڑے لوگ پریشان ہیں لیکن وہ مودی کی نیت کو ٹھیک مان رہے ہیں ۔ایسے میں آپ ان سے کیا بغاوت کروائیں گے؟اگر وہ سچ مچ دکھی ہو گئی تو اس کی بغاوت کا پتا وہ ابھی اتر پردیش میں اور 2019 ء میں ملک کے چنائو میں دے گی ۔
نوٹ بندی کے مشن کو واپس کرنے کی مانگ رکھنے کی بجائے مانگ تو یہ ہونی چاہیے کہ 100کانوٹ بھی بندکر دیا جائے ۔انکم ٹیکس بالکل ختم کیا جائے سبھی لوگ اپنا کالا اور سفید‘سبھی پیسہ بنا کسی جرمانے کے بینکوں میں جمع کر دیں ۔اس کام کے لیے تین یا چھ مہینے کا وقت رکھ دیا جائے ۔تب تک ‘پچا س‘بیس اور دس کے چھوٹے نوٹ اتنے چھاپ لیں کہ لوگوں کوکچھ کمی نہ پڑے ۔قطاریں نہ لگیں‘ بھگدڑ نہ مچے۔اپوزیشن پارٹیاں اس معاملے کو لے کے پس وپیش میں پڑے ہوئی ہیں ۔اسی لیے ممتا اور اروند اکیلے پڑے ہوئے ہیں۔صدارتی ہائوس بھی سبھی پارٹیاں نہیں گئیں ۔ان کے اکسانے پر بھارت کاعوام بغاوت کیوں کرنے لگا ۔
سرکار اور ججوں میں بھڑت
ہائی کورٹس کے ججوں کی تعیناتی کو لے کرسرکاراور سپریم کورٹ میں پھر تلواریں کھنچ گئی ہیں ۔سرکار نے سپریم کورٹ کو کالجیم ذریعے سجھائے گئے 77 ناموں سے 43 کو نالائق مانا تھا ۔ان 43 ناموں پر اس نے دوبارہ غور کرنے کے لیے کہا تھا لیکن سپریم کورٹ نے سرکار کی درخواست کو ٹھکرادیا اور وہی 43 نام اسے واپس بھیج دیے ۔اب پتا نہیں سرکار کیا کرے گی ؟
اگر سرکار ان ناموں کو پھر سے نامنظور کر دیتی ہے تو ملک کی سب سے بڑ ی عدالت کی بڑی توہین ہوگی ۔اور عدالت اسے برداشت کیوں کرے گی؟عدالت نے ابھی سے پی ایم او اور وزارت خزانہ کو دھمکا دیا کہ وہ ان ججوں کو جلد تعینات نہیں کریں گے تو فائل پر بیٹھے رہنے والے بڑے افسروں کی خبر لے کر رہے گی ۔عدالت کو کیا پتا نہیں ہے کہ نوکرشاہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے ؟وہ ان کی خبر لے گی یا سرکار کے لیڈروں کی خبر لے گی؟۔سرکار کا ماننا ہے کہ ججوں کی مقرری کسی ایسی کمیشن کے ذریعے ہونی چاہیے ‘جس میں سپریم کورٹ اور سرکار کے نمائندے ہوں اور خاص خزانہ کے ماہر لوگ بھی ہوں ۔ایسے ہونے پر وہ مقرریاں مفید اور مستند ہوں گی ۔لیکن پچھلے لگ بھگ پچیس برسوں سے یہ حق سپریم کورٹ نے پوری طرح سے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔اب سرکار چاہے تو 3 جنوری 2017ء کا انتظار کر سکتی ہے ‘جبکہ کالجیم کے چیف جج ٹی ایس ٹھاکر ریٹائر ہوں گے ۔اس کے ممبر جسٹس اے آر دوے ریٹائر ہو چکے ہیں ۔جسٹس کھیور چیف جسٹس ہوں گے اور کالجیم میں ان کے ساتھ جسٹس دیپک مشرا اور چیل میشور ہوں گے ۔ہوسکتا ہے کہ وہ سرکار کی بات مان لیں اور ایک سبھی کو منظور 'میمورینڈم آف پروسیجر‘پر متفق ہو جائیں۔کالے دھن کے چکر میں سرکار کی دال پتلی ہو رہی ہے ۔کوئی حیرانی نہیں کہ سرکار مٹھ بھیڑ سے بچے اور کوئی بیچ کا راستہ نکال لے ۔
اندرا گاندھی اور نریندر مودی
سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کی صدی کل سے شروع ہو گئی ہے ۔دواسباب سے اس کا خاص پتا ہی نہیں چلا ۔ایک تو وفاق میں بھاجپا ہے اور دوسرا نوٹ بندی نے ملک میں زبردست افراتفری کا ماحول مچا رکھا ہے ۔پھر بھی میں نے مشہور اخبار 'بھاسکر‘ میں اندرا جی کی یاد میں ایک لیکھ لکھا تو کئی دانشور اور صحافیوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ نریندر مودی میں اندرا گاندھی کو نہیں دیکھتے ہیں ؟
اس سوال کو میں ایک دم دری کے نیچے نہیں سرکا سکتا ۔اس سوال میں کچھ دم ضرور ہے ۔اس میں شک نہیںکہ مودی نے بڑے نوٹ بندی کا جو قدم اٹھایا ہے ‘اس کی برابری پوکرن کے ایٹمی دھماکوں سے ‘کانگریس کے ٹکڑے ہونے ‘بنگلہ دیش کی تعمیر ‘بلوسٹار آپریشن اور ایمرجنسی جیسے دم دار کاموں سے کی جا سکتی ہے ۔ان کاموں نے اندرا گاندھی کو آئرن لیڈی بنا دیا تھا ۔اتنے زبردست کاموں کے لیے بہت بڑادم تو چاہیے ہی ‘اس کے ساتھ ساتھ پوری تیاری بھی چاہیے ‘جیسی کہ رجواڑوں کے ضم اور حیدرآبادوَ کشمیر کے لیے سردار پٹیل نے دکھائی تھی ۔لیکن ہمت کی اس زیادتی نے ہی اندرا گاندھی کو ختم کردیا ۔نہ صرف ایمرجنسی کے بعد وہ بری طرح سے شکست کھا گئیں ‘بلکہ گولڈن ٹیمپل حملے کے بعد انہیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے ۔
مودی نے جیسے ہی نوٹ بندی کا اعلان کیا ‘میں نے ٹی وی چینلو ں اور اخباروں میں کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے' وزیرپرچار ‘اب 'وزیراعظم ‘بن سکتے ہیں‘بشر طیکہ وہ انل بوکل کی اس تجویز کو ٹھیک سے نافذ کر سکیں ۔میں نے ان کا دلی خیر مقدم کیا لیکن مجھے پہلے دن سے ہی شک تھا کہ وہ اسے پوری طرح سمجھے بھی ہیں یا نہیں؟انہوں نے پوری تیاری بھی کی ہے یا نہیں ؟انہوں نے آگا پیچھا سوچا بھی ہے یا نہیں؟وہ بھارت کو گجرات سمجھ بیٹھے اور پھنس گئے ۔اندرا گاندھی کو وفاقی سرکارکو اندر باہر سے چلانے کا لگ بھگ بیس برس کا تجربہ تھالیکن مودی کئی وزرائے اعظم کی طرح بالکل نوسکھیے ہیں۔اس میں شک نہیں کہ اندرا گاندھی نے ایمرجنسی اپنی کرسی بچانے کے لیے تھوپی تھی جبکہ مودی نے نوٹ بندی ملکی مفاد کے لیے کی ہے ۔اس کا ذاتی مفاد کچھ بھی نہیں ہے ۔لیکن ان کا حال اندرا جی سے بد تر ہو سکتا ہے ‘کیونکہ اندرا جی اپنے افسروں اور ماہروں سے باادب طریقے سے مصلحت کرتی تھیں اور مودی میں وہ بات نہیں ہے ۔نوٹ بندی نے عام لوگوں کو اتنا تڑپا دیا ہے ‘جتنا ایمرجنسی نے بھی نہیں تڑپایا تھا ۔کالے دھن کا خاتمہ تو ایک ہوائی خواب ہے لیکن وہ پورا بھی ہوجائے تو بھی عام آدمی شاید مودی کو معاف کرے ۔