میں آج کل پونا ‘ممبئی اوراندورکے سفر پر ہوں لیکن موبائل فون چپ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔لکھنؤ‘دلی اور ملک بھر کے دوستوں کے لگاتار فون آ رہے ہیں ۔ٹی وی چینل میرے رد عمل کے لیے گزارش کرتے رہے لیکن میں نے چپ رہنا ہی ٹھیک سمجھا۔اس وقت دوپہر ہے میں ممبئی میں ہوں ۔چینلوں پر خبر آ رہی ہے کہ اکھلیش اور رام گوپال یادو کو پارٹی سے باہر کرنے والے فیصلے کو واپس لے لیا گیا ہے ۔سماج وادی پارٹی میں صلح ہو گئی ہے لیڈروں کے جو بیان آرہے ہیں ‘ان سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ پارٹی میں سب ٹھیک ہو گیا ہے ۔
لیکن لکھنؤمیں لیڈروں سے جو میری بات ہوئی ‘اس میں مجھ لگ رہا ہے کہ کل ہونے والی سماج پارٹی کی بیٹھک میں اس پارٹی کے کہیں دو ٹکڑے نہ ہوجائیں۔ٹکٹ کس کو دیا جائے اور کس کو نہ دیا جائے ‘یہ سب سے بڑا مدعہ بن گیا ہے ۔اس سے ایسا ماحول بن رہا ہے کہ مانو جیسے سارے سماج وادی امیدوار جیتنے والے ہیں دوسری پارٹیوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔اس لیے ان کے ٹکٹوں کو لے کرکوئی دنگل بھی نہیں ہے ۔ٹکٹوں کے بٹوارے میں جھگڑا اس لیے ہو رہا ہے کہ جس کے ایم ایل ایز زیادہ ہوں گے ‘وہ ہی وزیراعلیٰ بنے گا ۔اکھلیش کو شک ہے کہ اس کے حمایتیوں کو جان بوجھ کر کاٹا جا رہا ہے تاکہ و ہ دوبارہ وزیراعلیٰ نہ بن پائیں ۔اس میں ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اکھلیش کی شان صرف اتر پردیش میں ہی نہیں ‘سارے ملک میں چم چما رہی ہے ۔ دیگر پارٹیوں کے ہم عمر لیڈراکھلیش کے رتی بھر بھی نہیں ہیںلیکن باپ بیٹے میں کچھ ایسی ان بن چل رہی ہے کہ جس کاراز پانا مشکل ہے۔اس راز کا پتا بہت کم لوگوں کو ہے ۔ اس کے بارے میں یہاں اتنا ہی کافی ہے ۔یہاں یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ اگر سماج وادی پارٹی ٹوٹ گئی تو بیٹا پارٹی اور باپ پارٹی کے درمیاں سب سے بھاری دنگل ہوگا ۔سب سے تباہ کن ہوگا۔اس تباہی کی ذمہ داری ان کی ہے ‘جنہوں نے باپ اور بیٹے کی چاروں طرف گھیرا ڈال رکھا ہے ۔باپ اور بیٹا مل کر اس کھیر پوری کی تھالی کو لات مار دیں گے جو ‘نریندر مودی نے نوٹ بندی کر کے ان کے لیے پروس دی ہے۔ اکھلیش کے ہاتھ سے اگر لکھنؤگیا تو ملائم سنگھ کے لیے دلی تو پس خواب بن کر ہی رہ جائے گا ۔اکھلیش جیسے بے داغ ‘لائق اور باادب بیٹے پر ملائم کو فخر ہونا چاہیے اور اکھلیش کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر اس کے والد محترم ملائم جی نہیں ہوتے تو وہ ابھی کہاں ہوتے ؟کچھ ٹکٹوں کے معاملے کو آپس میں بیٹھ کر سلجھایا جا سکتا ہے ۔پارٹی بیٹھک میں ٹوٹ کا اعلان ہوجائے ‘اس سے کہیں بہتر ہوگا کہ پارٹی سدھرے اور اتحاد کا نعرہ بلند ہو تاکہ یوپی اور ملک کی سیاست صحیح پٹری پر چل سکے ۔
یہ فیصلہ کس کام کا ؟
سپریم کورٹ کا تازہ فیصلہ کس کام کا ہے ‘یہ میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مذہب ‘ذات ‘نسل ‘فرقہ واریت اور زبان کے نام پر کوئی بھی امیدوار یا اس کا کوئی سربراہ اگر ووٹ مانگے گا تو اس کی امیدواری غیر قانونی قرار دے دی جائے گی۔ ایسادستور قانون کے آرٹیکل 123 (3 )میں پہلے بنا ہو اتھا لیکن اب عدالت نے اسمیں جو اب نئی بات جوڑی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ امیدوار یا سربراہ ہو یا اس کے کارکن ہوں یا اس پارٹی کے لیڈر ہوں یا ایسے فرد بھی ہوں ‘جن کا اس امیدوار سے کوئی لینا دینا نہ ہو‘اگر وہ بھی مندرجہ بالا بنیاد پر ووٹ مانگیں گے تو اس کی امیدواری غیرقانونی اعلان ہو جائے گی ۔
اس طرح کے فیصلے دے دینا آسان ہوتا ہے لیکن انہیں عائد کیسے کیا جائے گا؟کئی دیگر فیصلوں کی طرح یہ فیصلہ بھی کاغذی بن کر رہ جائے گا ۔یہ حقیقت اسی سے ثابت ہوتی ہے کہ چار جج اس کے فیور میں تھے تو تین جج اس کے خلاف !کیا ہندوستان کی سیاست میں مذہب ‘نسل ‘ذات ‘فرقہ اور زبان کا کردار کچھ بھی نہیں ہے ؟الٹا ہے ۔ ساری سیاست انہی طبقوں پر ٹکی ہوئی ہے ۔آج کا بھارت کیا ہے ؟ مذہب کی بنیاد پر بنا ہوا ملک ہے ۔مذہب کی بنیاد پر 1947ء میں بٹوارا ہواکہ نہیں ؟ذات کی بنیاد پر ریزرویشن کس نے دیا ؟ہمارے آئین نے دیا ۔زبان کی بنیاد پر صوبے کس نے بنائے ؟ان کی منظوری کس نے دی؟ہمارے آئین نے دی ۔ہر سیاسی پارٹی اپنا امیدوار چنتے وقت سب سے زیادہ دھیان کس بات پر دیتی ہے ؟انہی باتوں پر ‘ جنہیں ہمارے معزز جج صاحبان نے رد کر دیا ہے ۔ہمارے جج صاحبان کون سے خوابوں کی دنیا میں سیر کر رہے ہیں؟ان ججوں کی اتنی بھی ہمت نہیں ہوئی کہ بیس برس پرانے اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کی زحمت اٹھاتے ‘جس میں 'ہندوپنہ ‘کے نام پرووٹ مانگنے کو ٹھیک کہا گیا تھا ۔ہندوپنہ کو مذہب نہیں ‘زندگی کا طرزعمل کہا گیا تھا ۔
عدالت کے بنیادی جذباتوں کی میں عزت کرتا ہوں کہ مذہب ‘ ذات ‘زبان وغیرہ کے نام پر تھوک ووٹ کباڑ ناجمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے لیکن عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ اپنا دماغ اس سوال پر لگاتی کہ اندھے تھوک ووٹ سے بھارتی جمہوریت کو کیسے بچایاجائے ؟اس کے کچھ ٹھوس اپائے اسے کرنے چاہیے تھے لیکن اس نے اپنا فیصلہ بھی تھوک میں ہی دے ڈالا ۔یہ فیصلہ بھی ناکام ثابت ہوگا ۔
جیت کے جادو کا بھلاوا
چندی گڑھ نگر نگم کے چنائو میں بھاجپا کی زبردست جیت پر بھاجپا صدر کا سینہ چوڑا ہوکر 56 انچ کا ہو جائے تو اس میں حیرانی کیا ہے ؟ گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں نوٹ بندی نے سرکار کی حالت خستہ کر دی ہے کہ 56 انچ کا سینہ سکڑکر چھ انچ کا رہ گیا تھا ۔اب چندی گڑھ چنائو نے اس سینے میں دوبارہ کافی ہوا بھر دی ہے ۔26 میں سے 21 نشستیں بھاجپا کی جھولی میں آگئی ہیں ۔کانگریس کے پلے محض چار نشستیں ہی پڑیں۔ان میں سے بھی تین خواتین نے جیتی ہیں ۔اتنی زبردست جیت گزشتہ کئی برسوں میں سے کسی پارٹی کو نہیں ملی ۔ 1996 ء بنی اس نگر نگم پر یہ پہلی اتنی بڑی فتح ہے ۔
اس فتح کو امیت شاہ نوٹ بندی کی جیت بتا رہے ہیں ۔اس سے پہلے گجرات اور اور مہاراشٹر کے چنائوں میں جو بھاجپا کی جیت ہوئی ہے‘کیا وہ نوٹ بندی کی وجہ سے ہوئی ؟اگر مودی اور امیت شاہ ایسا ہی مانیں گے تو مجھے کہنا پڑے گا کہ کچھوے کی پشت پر پائوں رکھ کر دوڑ رہے ہیں ۔یہ مقامی چنائو ہیں ۔اس میں اکثر مقامی مدعے اور مقامی مفاد ہی اول ہوتے ہیں ۔ووٹروں کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ ووٹ اسی پارٹی کو دیں ‘جس کی صوبہ میں سرکار ہو تاکہ نگرنکم یا نگر پالیکا کو صوبائی سرکار کافی فنڈ مہیا کروا سکے ۔اسی بات نے ہی گجرات اور مہاراشٹر میں جادو دکھایا اسی لیے تو اس جادو کو سرپر چڑھ کر بولنا تھا ۔اگر اس جادو کے بھلاوے میں بھاجپا پھنس گئی تو اسے اتر پردیش اور پنجاب میں برے دن دیکھنے پڑ سکتے ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ ابھی مودی سرکار سے عوام کا دل مکمل ٹوٹا نہیں ہے ۔نوٹ بندی کے مظالم کو وہ صبر سے برادشت کر رہی ہے لیکن مہینے دو مہینے بعدحالات پر قابو کرنا مشکل ہوگا ۔مودی کی لہر تو کبھی کی اتر چکی ہے ورنہ بہار‘بنگال اور ان سے پہلے دلی میں بھاجپا کو ایسے دن کیوں دیکھنے پڑتے ؟چندی گڑھ کی فتح کو نوٹ بندی کی فتح مانناافیم کی گولی کھا کر مست ہو جانا ہے ۔امید ہے کہ بھاجپا کے بیدار کارکن اپنے لیڈروں کی ان گولیوں کو اچھے سے نگلیں گے ۔
راہول کے بم میں دم نہیں
راہول گاندھی نے آخر کار اپنا بم پھوڑ ہی دیا ۔ان سے وہ ایوان میں نہیں پھوٹا تو اب ایک جلسے میں اسے پھوڑ دیا ۔کون سا دھماکہ ہو رہا ہے ‘اس سے ؟کون سا زلزلہ آگیا ‘اس سے ؟بم تو وہ ہے لیکن وہ ٹائیں ٹائیں پھس کیوں ہو رہا ہے ؟وہ اس لیے پھس ہو رہا ہے کہ وہ باسی کڑھی ہے ۔کئی مہینوں سے اس کے بارے میں لوگوں کو پتا ہے ۔ سوشل میڈیا پر سہارا گروپ کے وہ بنیادی دستاویز دکھائے جا رہے ہیں ‘جن سے پتا چلتا ہے کہ سہارا گروپ سے مودی ہی نہیں ‘دیگر کئی وزرائے اعلیٰ اور وزیر بھی رشوت کھاتے رہے ہیں ۔ اس میں صرف بھاجپا کے لیڈروں ہی نہیں ‘البتہ کئی خاص پارٹیوں کے لیڈروں کے نام بھی ہیں ۔ راہول سے کوئی پوچھے کہ وہ صرف نریندر مودی کے پریم میں اتنے پاگل کیوں ہو رہے ہیں ؟مودی کے نام کی مالا جپنے کے ساتھ اگر وہ پارٹی کے لیڈروں کے نام بھی اجاگر کرتے اور انہیں بھی سزا دینے کی بات کرتے تو وہ آج ملک کی آواز بن جاتے ۔وہ امید کی کرن بن جاتے ۔لیکن ملک کے عام لوگوں کو بھی پتا ہے کہ سیاست کے حمام میں سب ننگے ہیں ۔من موہن سنگھ جیسے کسی لیڈر کو چھوڑ دیں تو کیا ملک میں ایک بھی ایسا لیڈر ہے ‘جو اپنے ماں باپ یا بال بچوں کی قسم کھا کر یہ کہہ سکے کہ اس نے دھنا سیٹھوں یا بڑی کمپنیوں سے رشوت نہیں کھائی ہے ؟گجرات کے وزیراعلیٰ رہتے ہوئے اگر مودی نے سہارا اور برلا گروپ سے چایس پچاس کروڑ کی رشوت کھائی ہے تو یہ تو کچھ بھی نہیں ہے‘اس رشوت کے مقابلے‘ جو دس برس تک کانگریس سرکاریں کھاتی رہی ہیں۔ان کے زمانے میں بڑے بڑے درجنوں گھپلے ہوئے جن میں سیکڑوں اور کروڑوں روپیہ کھائے گئے ۔پیسے کے بنا آج آپ سیاست کر ہی نہیں سکتے ۔آج کانگریس اگر بھاجپا کو رشوت خور کہہ رہی ہے تو یہ ایسا ہی ہے ‘ جیسے کوئی بلی سوسو چوہے کھا کر حج کو چل پڑی ہے ۔اس کے علاوہ ‘سپریم کورٹ نے کسی سیٹھ کی نجی ڈائری میں کچھ بھی لکھے کو مستند ماننے سے انکار کر دیا ہے ۔قانونی نظر سے یہ بات ٹھیک ہے ۔اس لیے مودی کو عدالت میں گھسیٹنا ذرا مشکل ہے ۔لیکن عوام کا فیصلہ صرف قانون سے نہیں ہوتا ۔قانون کی پکڑ میں تو راجیو گاندھی نہیں آئے تھے ‘لیکن بوفورس انہیں لے بیٹھا ۔بوفورس انہیں کیوں لے بیٹھا‘کیوں کہ وہ معاملہ وی پی سنگھ جیسے صاف لیڈر نے اٹھایا تھا ۔ انہوں نے اپنے عہدہ وزارت کو بھی ٹھوکر مار دی تھی ۔کیا راہول گاندھی کی حیثیت دور دورتک وی پی سنگھ جیسی ہے ۔حقیقت کا حقیقت ہونا ضروری ہے لیکن یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس حقیقت کو بولنے والا منہ کون ساہے ؟