عالمی یوم ہندی اور ہر برس آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ ان سرکاری پروگراموں سے عام آدمی کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔نہ تو سرکار کوئی نیا عزم کرتی ہے اور نہ ہی عوام!
دونوں چاہیں تو ایک دوسرے کو متاثر کر سکتے ہیں، لیکن دونوں کے دل ودماغ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ہندی کے نام پر کورا پروگرام ہو جاتا ہے۔ بھارت کی زبان کے تخت پر ستر برس سے انگریزی مہارانی بنی بیٹھی ہے اور اس کے قدموں میں پڑی ہوئی نوکرانی کی طرح ہندی سسک رہی ہے۔ ہندی کو آگے بڑھانے کی لمبی لمبی باتیں ہانکنے میں سبھی استاد ی دکھاتے ہیں، لیکن کسی کی ہمت نہیں پڑتی کہ وہ یہ کہے کہ زبان کے تخت سے انگریزی ہٹائو۔ ایسا کہنے میں لیڈر لوگ ڈرتے ہیں کیونکہ ہمارے تقریباً سبھی لیڈر آدھے پڑھے لکھے ہیں۔ وہ بس ٹوٹی پھوٹی انگریزی جانتے ہیں اور دیگر بیرونی زبانوں میں تو باکل صفر ہیں۔ انہیں یہ پتا ہی نہیں کہ کسی آزاد ملک میں بیرونی زبانوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔ غیر ملکی زبانیں رہیں لیکن کہاں رہیں؟ کتب خانوں میں رہیں ‘ خارجہ پالیسی میں رہیں‘ تجارت
میں رہیں‘ ریسرچ میں رہیں اور خوب رہیں لیکن بھارت کے سرکاری کام کاج میں‘ عدالتوں میں‘ پارلیمنٹ میں‘ بچوں کی تعلیم میں،گھر میں‘ نوکریوں کی بھرتی میں اس میں انگریزی کی ضرورت ہی کیا ہے؟ دنیا کے کسی طاقتوراور خوشحال ملک میں غیر ملکی زبان کا وہ مقام نہیں ہے‘ جو بھارت میں انگریزی کا ہے۔ اب ضروری ہے کہ بھاجپا سرکار ایوان میں ایک بل ایسا لائے ‘ جس میں انگریزی کا لازمی ہونا ختم کیا جائے۔ یہ مانگ اپنے آپ کو وطن پرست کہنے والے پارلیمنٹ کے ممبر خودکیوں نہیں کرتے؟
جہاں تک عوام کا سوال ہے‘ وہ اپنا ساراکام کاج ہندی اور اپنی زبانوں میں شروع کیوں نہیں کر دیتے؟ سب سے پہلے تو ہر ایک بھارتی کو اپنے دستخط اپنی مادری زبان میں کرنا چاہئیں۔ اپنی چٹھی ‘ دعوت نامے، لین دین وغیرہ بھی انگریزی میں بند کرنا چاہیے۔ بازاروں میں لگے انگریزی میں نام پتوں کوہٹا دینا چاہیے۔ سرکاری کام کاج سے انگریزی کا جادوٹونا ختم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ نوکر شاہی کے سر پر چڑھے انگریزی کے بھوت کو پٹخ مارنے کی جرأت کرنی چاہیے۔ اپنے لیڈروں کی نفسیاتی غلامی دور کرنے کے لیے دھرنے ‘ مظاہرے اور جلوس کیوں نہیں نکالنے چاہئیں؟ اس وقت ہندی لانے کی نہیں‘ انگریزی کو ہٹانے کی ضرورت ہے۔ وہ ہٹی تو ہندی اپنے آپ آ جائے گی۔
مودی نے دکھایا صحیح راستہ
بھاجپا کی بیٹھک کے دوسرے دن نریندر مودی نے وہی بات کہہ دی ‘جو گزشتہ دوماہ میں کئی بار کہہ چکا ہوں۔ جب میں وہی بات ٹی وی چینلوں پر بولتا تھا اور اخباروں میں لکھتا تھا تو ہمارے بھاجپا کے کچھ ساتھیوں کو کافی برا لگتا تھا اور میرے کہے ہوئے کے پیچھے حساب کتاب بھی لگاتے تھے۔ لیکن خود مودی نے کہا ہے کہ عام عوام کو یہ جاننے کا پورا حق ہے کہ بھاجپا کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے‘ کیسے آتا ہے اور کون دیتا ہے؟ کیوں کہا مودی نے ایسا؟ ایسی ہمت آج تک کسی وزیر اعظم یا لیڈر کی نہیں ہوئی۔ مودی نے ایسا اس لیے کہا کہ انہیں پتا ہے کہ ہماری سیاسی پارٹیاں بدعنوانی کی اماں ہیں۔ اقتداری پارٹی ‘ چاہے و ہ کوئی بھی ہو ‘ وہ کرپشن کی دادی ہوتی ہے، اس لیے مودی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ بھاجپا سب سے پہلے اپنا حساب ظاہر کرے، دوسرے کو ہدایت دینے سے کیا فائدہ؟ پر اچھی ہدایات بہت ہو چکیں! جب ملک کے وزیر اعظم اور وزراء حضرات روز خود بدعنوانی کے پیسے سے اپنی سیاسی گاڑی کھینچتے ہیں تو وہ دوسروں پر انگلی کیسے اٹھا سکتے
ہیں؟ اس میں شک نہیں کہ لیڈر حضرات کرپشن کرتے وقت کافی چوکس رہتے ہیں۔ کہیں وہ پکڑے نہ جائیں‘ اس کا مکمل انتظام کرتے ہیں، لیکن کیا ان کی یہ سب تگڑم بازی ان کے افسروں سے چھپی رہتی ہے؟ کیا ان کے گہرے پیروکاروں کو ان کی شاطر چالوں کا پتا نہیں رہتا ہے؟ وہ سب بھی ڈٹ کر بدعنوانی کرتے ہیں۔ اس طرح ملک میں بدعنوانی کرنے والوں کی ایک بڑی تعدادکھڑی ہو جاتی ہے۔ اسے آپ نوٹ بندی جیسے فرضی مشنوں سے ختم نہیں کر سکتے اور نہ ہی صرف قانون اسے روک سکتا ہے۔ قانون ضرور بنایا جائے‘ ایسا کہ پارٹیوں کا سارا لین دین ڈیجیٹل اور سر عام ہو۔کوئی بھی جب چاہے‘ اسے دیکھ سکے، لیکن اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ آج بھاجپا بھارت کے سامنے ہی نہیں کہ ساری دنیا کے سامنے ایک مثال پیش کرے۔۔۔۔ ایک صاف پارٹی کی ‘ ایک دور اندیش پارٹی کی‘ ایک کرپشن سے فری پارٹی کی۔ اس وقت نریندر مودی بھاجپا میں طاقتور اور سروے سروا ہیں۔ اگر وہ اپنی طاقت اس کام میں لگا دیں تو تاریخ میں وہ بڑے لیڈر کی شکل میں مانے جائیں گے، لیکن ڈر یہی ہے کہ نوٹ بندی کی طرح وہ کہیں بھاجپا کو بھی بیچ میں نہ لٹکا دیں۔