"DVP" (space) message & send to 7575

کانگریس‘ ڈوبتا ہوا جہاز؟

وزیر اعظم نریندر مودی نے جالندھر میں باتیں کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس تو اب ایک ڈوبتا ہوا جہاز ہے۔ اس کے ساتھ ایک مشہور ہندی اخبار نے 'پریوار‘ (فیملی) کے بارے میں جو خبر شائع کی‘ اگر وہ سچ ہے تو اس جہاز کو ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ اکھلیش بھی نہیں۔ اکھلیش کی سائیکل پر کانگریس سوار ضرور ہو گئی ہے‘ لیکن اتر پردیش کے سب سے مشہور اخبار میں چھپی یہ خبر کانگریس کو لے بیٹھے گی۔ اس سب سے بڑی خبر میں کانگریس کا نام ایک بار بھی نہیں لیا گیا‘ لیکن پریوار لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ اس پریوار کے بارے میں ہماری جانچ ایجنسیوں نے جو کھوج پڑتال کی ہے‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ اسے اگسٹا ویسٹ لینڈ ہیلی کاپٹروں کے سودے میں دو سو کروڑ روپے کی رشوت ملی ہے۔ یہ سودا بارہ بڑے ہیلی کاپٹروں کے لیے من موہن سنگھ سرکار نے کیا تھا۔ یہ سودا 5620 کروڑ روپے کا تھا۔ اس میں وزیر اعظم من موہن سنگھ کو ایک پیسہ بھی نہیں ملا۔ اس سودے کے دو دلالوں گوئیڈو ہسکے اور کرشچین مشل نے پریوار کو صرف دو سو کروڑ روپے ہی پہنچائے۔ آدھا پیسہ وہ خود کھا گئے۔ ہماری خفیہ ایجنسیوں نے ان بینک کھاتوں کے سراغ پا لینے کا دعویٰ کیا ہے‘ جن کے ذریعے یہ روپیہ پریوار تک پہنچا ہے۔ جن کمپنیوں کے نام یہ پیسہ آیا‘ ان کا بھی پتا چل گیا ہے۔ ہماری سرکار نے آٹھ ملکوں سے پوچھ تاچھ کی ہے۔ ان میں سے چھ ملک پورا تعاون کر رہے ہیں۔ 
ہو سکتا ہے کہ ہندی اخبار میں خبر کا اثر کچھ دیر سے ہو‘ کیونکہ ہمارے لیڈروں‘ افسروں اور کچھ صحافیوں کے دماغ پر انگریزی کی غلامی چھائی رہتی ہے اور وہ انگریزی میں چھپنے والی خبروں کو ہی توجہ کے قابل سمجھتے ہیں‘ لیکن اس میں شک نہیں کہ پانچ صوبوں کے اس چناوی دنگل میں یہ خبر تہلکہ مچا دے گی۔ یہ خبر اگر من گھڑت ہے اور اخبار میں سرکار نے دبائو سے چھپوائی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کانگریس چپ کیوں ہے؟ وہ اس کی تردید کیوں نہیں کرتی؟ وہ پریوا کو کھلی جانچ کے لیے پیش کیوں نہیں کر دیتی؟ سرکار بھی چپ ہے۔ یہ خاموشی بہت سے رازوں کو بیان کر رہی ہے۔ اخبار سے پہلے سرکار کو بولنا چاہیے تھا۔ اگر یہ خبر سچ نکلی تو اس کا اثر بوفورس سے بھی زیادہ برا ہو گا۔
بھارتی خارجہ پالیسی کی نئی بلندی 
خلیج کے ملک متحدہ عرب امارات کے کرائون پرنس شیخ محمد بن زید النہیان اس برس ہمارے ریپبلک ڈے کے مہمانِ خاص تھے۔ یہ اعزاز کچھ برس پہلے سعودی عرب کے بادشاہ کو بھی مل چکا ہے‘ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ابوظہبی اور دبئی سمیت سات ریاستوں والے ملک کے ساتھ بھارت کے تعلقات اس سطح تک آگے بڑھنے والے ہیں‘ جس لیول تک اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ ہیں۔ اس کا سارا کریڈٹ نریندر مودی کو ملے گا۔ یو اے ای میں تو بھارت کے لاکھوں لوگ پہلے سے رہتے اور کام کرتے رہے ہیں‘ اس کے ساتھ کھربوں روپیہ کی بھارت کی تجارت بھی ہے لیکن بھارت کے سابق وزیر اعظم کو یہ نہیں سوجھا کہ اس اہمیت والے ملک کے ساتھ بھارت کی فوجی قوت کی حصے داری کھڑی کی جا سکتی ہے۔ حقیقت میں ان ریاستوں کو دیکھ کر یہی لگتا ہے‘ جیسے وہ بھارت ہی ہے۔ یہ مسلم ریاستیں ہیں۔ ان میں فرقہ واریت کا نام نشان تک نہیں ہے۔ پرنس محمد کے چچا شیخ نہیان مبارک میرے گہرے دوست ہیں۔ ان کے دعوت ناموں پر میں درجنوں بار ابوظہبی اور دبئی جا چکا ہوں۔ وہ بھارتیوں میں کافی مقبول ہیں۔ انہوں نے کئی گردواروں اور مندروں کو بنوانے میں مدد کی اور خود آ کر ان افتتاح کیا۔ وہ بھارتی تہذیبی پروگرام میں خصوصی مہمان ہوتے ہیں۔ اٹل جی کے زمانے میں میرے کہنے پر وہ ایم پی میں بنا منافع کے ستر ہزار کروڑ روپیہ کی سرمایہ کاری کرنا چاہتے تھے لیکن ہمارے افسروں کی رشوت خوری کے سبب وہ سرمایہ کاری نہیں ہو سکی۔ 2015ء میں مودی جب یو اے ای گئے تو 75 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان ہوا‘ لیکن ابھی تک وہ نوکر شاہی کے کھونٹی پر ہی لٹکا ہوا ہے۔ یو اے ای کی ریاستیں اب تیل اور گیس کے علاوہ نئی تکنیکوں میں بھی پیسہ لگانا چاہتی ہیں۔ انہیں بھارت سب سے ٹھیک جگہ لگتی ہے۔ ابھی ابھی قندھار میں ابوظہبی کے پانچ سفارت کاروں کا قتل ہو گیا ہے‘ حالانکہ پہلے طالبان سے یو اے ای کے تعلقات اچھے رہے ہیں‘ لیکن اب وہ دہشتگردوں کے بالکل خلاف ہو گیا ہے۔ اس نے بھارت مخالف دہشتگردوں کو نکال باہر کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ خلیجی ممالک سے پاکستان کے خاص اور گہرے تعلقات ہیں لیکن اب ان تعلقات میں بدلائو آئے گا‘ کیونکہ ان کی جانب امریکہ بھی رویہ بدل رہا ہے اور یوں بھی اقتصادی نظریہ سے بھارت سے تعلقات گہرے بنانا خلیجی ملکوں کے لیے زیادہ فائدے مند ہے۔ کرائون پرنس کا یہ دورہِ بھارت خلیج کے ممالک اور بھارت دونوں کے لیے تاریخی ثابت ہوا۔کچھ برس پہلے میں نے خلیج کے شیخوں سے کہا تھا کہ آپ کے ملکوں کو جنوب ایشیائی یونین میں شامل ہونا چاہیے۔ شاید میرا وہ خواب اب پورا ہونے کی راہ پر چل پڑا ہے۔
ٹرمپ کی مسلم بندی سمجھ سے بالاتر
امریکی صدر اپنے چناوی مشن کے دوران جو کہتے رہے‘ وہ دنادن کرتے جا رہے ہیں۔ اب انہوں نے مسلم بندی شروع کر دی ہے۔ سات مسلم ممالک کے باشندوں کے امریکہ آنے پر انہوں نے 90 دن کی روک لگا دی ہے۔ یہ ملک ہیں ایران‘ شام‘ عراق‘ صومالیہ‘ یمن‘ لیبیا اور سوڈان۔ دیگر ممالک کے پناہ گیروں کے امریکہ داخلے پر انہوں نے 120 دن کی روک لگا ئی ہے۔ ان ملکوں کے بارے میں ہی نہیں‘ تمام ملکوں کے بارے میں چنائو کے دنوں میں وہ جس لفظ کا استعمال کرتے رہے‘ وہ تھا 'مسلم بین‘ یعنی مسلم بندی۔ اب وہ صفائیاں دے رہے ہیں۔ کہہ رہے ہیں کہ یہ مسلم بندی نہیں 'دہشگرد بندی‘ ہے۔ یہ دہشتگردوں کے خلاف ہیں‘ مسلمانوں کے خلاف نہیں۔ یہ انہوں نے ڈر کے مارے کہہ دیا ہے۔ اب ان کی جارحانہ مخالفت ہو رہی ہے اور ٹرمپ کے پائوں کے نیچے کی زمین کھسکنے لگی ہے۔ ان کے اپنے ملک میں ہوائی اڈوں‘ روڈوں اور شہروں میں کئی دوسرے ممالک کے رہنے والے لوگوں نے آمد و رفت ٹھپ کر دی ہے۔ ہزاروں لوگ سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں‘ جو ملک امریکہ کے گہرے دوست ہیں اور اس کے مدد کے دم پر اتراتے ہیں‘ انہوں نے بھی ٹرمپ کی اس پالیسی پر تنقید کی ہے۔ فرانس‘ جرمنی اور برطانیہ کے لیڈروں نے ٹرمپ کے اس فیصلے کو غلط اور غیر قانونی مانا ہے۔ برطانیہ کی اہم پارٹیوں کے لیڈروں نے ٹرمپ کے دورہ لندن کو رد کرنے کی مانگ کی ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم نے مغربی ایشیا کے پناہ گزینوں کا اپنے یہاں خیر مقدم کیا ہے۔ بھارت سرکار نے اس معاملے میں ابھی تک کوئی ردعمل نہیں دیا‘ لیکن وہ یہ نہ بھولے کہ وہ دنیا کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے اور اس کے مسلم باشندے بھی بڑی تعداد میں امریکہ میں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے تقریباً پونے دو لاکھ طالب علم اور ان کے رشتے دار ایچ ون بی ویزا پر امریکہ میں ہیں۔ ان کا وہاں رہنا بھی مشکل ہونے والا ہے۔ بھارتی نژاد تیس لاکھ امریکی شہریوں کو ٹرمپ نکال تو نہیں سکتے لیکن وہ ان کے روزگار ضرور چھیننا چاہیں گے۔ آخر بھارت کب تک چپ بیٹھے گا؟
ٹرمپ کو شاید پتا نہیں کہ دنیا میں دہشتگردی کو پیدا کرنے اور اس کی پرورش کرنے والا امریکہ ہی ہے۔ مختلف ممالک کے خونخوار دہشتگردوں کی پُشت کس نے ٹھونکی تھی؟ افغان مجاہدین کو ڈالر اور ہتھیار کس نے دیے تھے؟ اب امریکی عدالتوں نے ٹرمپ کی اتنی کھچائی کر دی ہے کہ ان کی سرکار کو اپنی مسلم بندی میں ڈھیل دینا پڑی ہے۔ دہشتگردوں کو ختم کرنے کے ٹرمپ کے عزم کا ہم دل سے خیر مقدم کرتے ہیں لیکن اس عزم کو عملی شکل دیتے وقت اپنی عقل کو طاق پر رکھنا ضروری نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں