وزیرخزانہ ارون جیٹلی نے آج جو بجٹ پیش کیا ‘اس میں غیر معمولی بات کیا ہے‘یہ میں ڈھونڈتا ہی رہ گیا ۔اس بجٹ میں غیر معمولی بات کی کھوج میں اس لیے کر رہا تھا کہ اس سرکار نے آزادی کے بعد کا سب سے زیادہ جرأت بھرا فیصلہ کیا تھا ‘نوٹ بندی کا !نوٹ بندی نے کروڑوں غریبوں کو لائن میں کھڑ اکردیا ‘ لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کر دیا اور کچھ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔عام آدمیوں نے ساری تکالیف چپ چاپ برداشت کیں اور سرکار نے اپنی پشت ٹھوک لی ۔لیکن اس خاموشی کے پیچھے عوام کی دہاڑ نے سرکار کے چھکے چھڑا دیے ۔مودی سرکار نے اسے چاروں شانے چت کردیا ۔سارا کالادھن اس نے سفید کردیا ۔کئی بینکروں اور انکم ٹیکس افسروں کو مالامال کردیا ۔اس نے بدعنوانی کو لیڈروں کی دہلیز سے باہر نکال کرجن دھن کھاتہ والوں تک پہنچادیا۔
میں سوچتا تھا کہ اس بجٹ میں وزیرخزانہ نوٹ بندی کے فائدے اور نقصان پر تفصیل سے روشنی ڈالیں گے اور جوتھوڑا بہت نقصان ابھی ہوا ہے اور جوخطرناک نقصان ابھی ہونے والا ہے ۔اس کے تدارک کا کوئی راستہ نکالیں گے لیکن انہوں نے کانگریسی سرکار کے بجٹوں کی طرح سماج کے ہر طبقے کو لولی پوپ بانٹ دی ہے۔ کوئی بھی طبقہ چھوٹا نہیں ہے ۔کیا کسان ‘کیا خواتین ‘کیا سٹوڈنٹ ‘کیا نوجوان ‘کیا بزرگ ‘کیا تاجر‘کیا غریب سبھی کو چاشنی میں بھگو بھگو کر ارون نے جلیبیاں پروس دی ہیں ۔جیٹلی کی جلیبیاں میٹھی ہیں ‘اچھی ہیں ‘دل کو لبھانے والی ہیں لیکن اس سے پیٹ بھرا جا سکتا ہے ‘کیا؟نوٹ بندی کے بعد یہ کہیں منہ بندی کی کوشش تو نہیں ہے ؟ کچھ ماہ بعد جب مندی آئے گی اور لاکھوں بے روزگار ‘جوابھی شہروں سے اپنے گائوں جاکر دن کاٹ رہے ہیں ‘جب وہ سڑکوں پر اتریں گے ‘تب کیا ہوگا؟تب نوکرشاہوں کے گروں پر چل رہی مودی سرکار کیا کرے گی ؟نوکرشاہوں کے گر انگریزی میں ہوتے ہیں ‘جنہیں ہمارے ادھورے پڑھے لکھے لیڈر جیسے تیسے رٹ کر دہراتے رہتے ہیں ۔جیسے ٹیک انڈیا ‘ ڈجیٹل انڈیا ۔ہمارے ان بیچارے لیڈروں کے پاس ان انگریزی محاوروں کے لیے ہندی لفظ نہیں ہیں ‘جنہیں عام آدمی سمجھ سکے۔اگر بجٹ ایساہوتا کہ جس سے ملک کے کم ازکم سوکروڑ لوگوں کے لیے روٹی ‘کپڑااور مکان ‘تعلیم اور صحت کی جدید سہولیات کا راستہ کھلتا تو مانا جاتا کہ یہ بجٹ وطن پرست سرکار کاہے ۔ابھی بھی سدھار کا موقع ہے ۔
بدعنوانی پر پارٹیو ں کی رضامندی
اس بار بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیرخزانہ نے بدعنوانی کی جڑ پر حملہ کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔بدعنوانی کی جڑکیا ہے ۔؟ہمارے لیڈروں اورپارٹیوں کے پاس آنے والا پیسہ !اسی پیسے کی وجہ سے لیڈر بدعنوانی کرتے ہیں ۔انہیں کی دیکھا دیکھی ان کے افسر بھی ان سے زیادہ بدعنوانی کرتے ہیں ۔کیوں کہ وہ لیڈروں سے زیادہ قابل ہوتے ہیں اور ان کی نوکری پکی ہوتی ہے ۔لیڈروں کو پتا نہیں ہوتا کہ ان کی نوکری کب ختم ہوجائے ‘کب ان کی نوکری نیچے سے کھسک جائے ۔اگر سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کا لین دین صاف ستھرا ہوجائے تو ملک کے90فیصد بدعنوانوں کو خود بخود لگام لگ سکتی ہے۔ وزیرخزانہ نے اعلان کیا ہے کہ پارٹیوں کو جو نقد چندہ ملتا ہے ‘وہ دوہزار روپیہ تک ہی ہو سکتا ہے ۔پہلے جو بیس ہزارتک نقدی کی چھوٹ تھی ‘وہ ختم کی جارہی ہے ۔جو دوہزار سے زیادہ دینا چاہے گا ‘اسے چیک یا ڈجیٹل سسٹم سے دینا ہوگا ۔ دکھنے میں یہ طریقہ اچھا دِکھتا ہے لیکن اس سے کیا فرضی ناموں کی فہرست دس گنا لمبی نہیں ہو جائے گی ؟اب تک نقد ایک لاکھ روپیہ کے لیے کوئی بھی پانچ فرضی نام بھر لیے جاتے تھے ۔اب پانچ کی جگہ پچاس بھر لیے جائیں گے ۔بھاجپا کے پاس تو گیارہ کروڑ ممبر ہیں ۔وہ آسانی سے ہر ممبر کے نام سے دو ہزار روپیہ دکھا کر بائیس ہزارکروڑ روپیہ کا فرضی واڑہ کر سکتی ہے ۔اس کھیل میں کانگریس تو بھاجپا سے بھی بڑی استاد ہے ۔ تجربہ کار ہے ۔ یہ دونوں پارٹیاں شعبہ انکم ٹیکس کوجو اپناسارا چندہ دکھاتی ہیں ‘ وہ صرف کچھ سوکروڑ کا دکھاتی ہیں ۔جب کہ ان کے پاس ہزاروں کروڑوں کا نقد مال آتا ہے ۔نہ کھاتہ نہ بہی !شیر جو کہے ‘وہی درست!! جیسے لوگوں نے نوٹ بندی کو چاروں شانے چت کردیا ہے ویسے ہی اس چندہ بندی کو بھی ساری پارٹیاں چت کردیں گی ۔
وزیرخزانہ نے اپنی کیٹلی میں سے ایک نئی چائے نکالی ہے۔ اس چائے پر دونوں اصلی چائے والے بھائی لوگ بھی فدا ہیں ۔یہ چائے ہے چنائو بورڈ کی ۔اگر آپ کسی پارٹی کو موٹا پیسہ دینا چاہتے ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ کا نام چھپا رہے تو آپ بینکوں میں وہ موٹا پیسہ جمع کرکے اس کے بانڈ خرید کر انہیں پارٹیوں کو دے سکتے ہیں ۔واہ‘کیا چور دروازہ نکالا ہے ‘ ہمارے وزیرخارجہ نے !لوگ بینکوں میں پیسہ جمع کرکے اپنی گردن کیوں پھنسائیں گے ؟آپ نے جو دوہزار کے نوٹ نکالے ہیں ‘اب ان کی گڈیاں آپ کو سیدھی بکسوں میں ملیں گی۔لیڈرو‘تم فکر مت کرو۔ تم بھی اس کشتی میں بیٹھے ہو ‘جس میں مودی ‘شاہ اور جیٹلی سوار ہیں ۔یہ لوگ اس کشتی کو ڈوبنے نہیں دیں گے ۔
اگر سیاسی پارٹیوں کو بدعنوانی کوفری کرنا ہوتا تو سب سے پہلے ان کے کھاتوں کی جانچ کروائی جاتی ۔ابھی تو ہمارے شعبہ انکم ٹیکس کو سالانہ حساب ہی نہیں دیتے ۔ سارے اراکین پارلیمنٹ ایم ایل ایز اور پارٹی افسروں کو ملکیت اورٹیکس حساب کو ہرسال سرعام کیا جانا چاہیے ۔کیا آج تک کسی پارٹی پر بدعنوانی کی بنیاد پر پابندی لگائی گئی ہے ؟ساری پارٹیاں بدعنوانی کرتے رہنے پر رضامند ہیں ۔خداان کا نگہبان بنے ۔