آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اپنے دؤرہِ مدھیہ پردیش کے دوران ایسا بیان دے دیا ہے‘جسے لے کر ملک میں بحث چھڑ جائے تومجھ سے زیادہ خوش کون ہوگا‘میں نے لگ بھگ دس برس پہلے چھپی اپنی کتاب 'بھاجپا ہندوتوا اور مسلمان ‘میں اسی سوال کو اٹھایا تھا ۔بنیادی سوال یہ ہے کہ ہندو کون ہے؟ہندوپنا کیا ہے ؟ہندوستان ہم کسے کہیں ؟ کیا بھارت کے مسلمان ‘عیسائی، پارسی اور یہودی اپنے آپ کو ہندو کہہ سکتے ہیں؟کیا ہم انہیں ہندو مانتے ہیں ؟
ویر ساورکر نے اپنی مشہور کتاب 'ہندوتوا‘ میں لکھا ہے کہ جو بھی آدمی بھارت کو اپنی جائے ولادت اور بزرگوں کی جگہ مانتا ہے وہ ہندوہے ‘جن مذاہب کی پیدائش بھارت سے باہر ہوئی ہے ‘ان کے پیغمبر مسیحا‘جائے عبادت یا جگۂ زیارت ان کی بھارت میں نہیں ہے ۔اسی لیے انہیں ہندو کیسے کہا جائے ؟لیکن ان کے بزرگوں کی جگہ تو بھارت ہی ہے ان کے بزرگ تو بھارت میں ہی پیدا ہوئے ہیں ۔ساورکر کے اسی سوال کو بنیاد بناکر ہندو مہا سبھا کا جنم ہوا اور بعد میں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ بنا۔بیسویں صدی کے شروع میں بنی مسلم لیگ کو فرقہ واریت سیاست کا یہ جواب تھا۔ لیکن اب موہن بھاگوت جی نے بیتول میں ہندوتوا پر جو بات کہی ہے ‘اس نے ہندو لفظ کو کافی فراخ دل بنا دیا ہے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ اس لفظ کا جو اصلی مطلب ہے ‘اس پر انہوں نے انگلی رکھ دی ہے ۔ہندو کا مطلب ہے ہند کا باشندہ ۔ہند کیا ہے؟ سندھ ہی ہند ہے ۔فارسی میں س کا اچارن ہ ہوجاتا ہے ۔جیسے سپتاہ کا ہفتہ ۔جو بھی سندھو ندی کے پار رہتا ہے ‘وہ ہندو ہے۔ یعنی پاکستانی بھی ہندو ہی ہوئے ۔ہندولفظ بھارتی نہیں ہے ‘غیر ملکی ہے ۔یہ لفظ کسی بھارتی قدیم کتاب میں نہیں ہے ۔یہ ہمیں پٹھانوں ‘ترکوں ‘مغلوں یا کہیں کے مسلمانوں نے دیا ہے۔ مسلمانوں کے دیے ہوئے نام کو ہم نے اپنا نام مان لیا ہے ‘یہی بات یہ ثابت کرتی ہے کہ ہندو میں کتنی فراخ دلی ہے اور ہونی چاہیے ۔موہن جی نے اس بات کوہی اجاگر کیا ہے ۔انہوں نے کہا ہے کہ آپ کی عبادت کا طور طریقہ جو بھی ہو‘اگر آپ ہندوستان کے رہنے والے ہیں تو آپ ہندو ہیں ۔بالکل ویسے ہی جیسے امریکہ کا ہر شہری امریکی ہے ‘چاہے اس کے عبادت کا طریقہ کوئی بھی ہو ۔اسی دلیل کی بنیاد پر سابق سنگھ سربراہ اور میرے گہرے دوست شری سدرشن جی سے میں کہا کرتا تھا کہ ملک کے مسلمانوں کو ملکی وطن پرست پارٹی سے جوڑنا بہت ضروری ہے۔مجھے خوشی ہے کہ مسلم راشٹریہ منچ کے ذریعے وہ کام ہو رہا ہے۔وہ سبھی کو منظور ہونے والی حقیقت ہے کہ کسی کا بھی کوئی مذہب یا نظریہ کا جنم کسی بھی ملک میں ہو اہے‘اس کے ماننے والوں پر زیادہ اثر اس کے اپنے ملک کی روایات کا ہی ہوتا ہے۔ اسی بنیاد پر میں نے دبئی کی ایک تقریر میں تقریباًبیس برس پہلے کہا تھا کہ بھارت کا مسلمان دنیا کا سب سے اعلیٰ مسلما ن ہے‘ کیوں کہ بھارت کی اعلیٰ روایات ان کے خون میں بہتی ہیں اور یہی بات پچاس برس پہلے میں نے ہمارے کمیونسٹوں کے بارے میں سوویت یونین میں کی ایک تقریر میں کہی تھی۔
برطانیہ میں انگریزی کی مخالفت
یہ اپنے آپ میں بڑی خبر ہے کہ برطانیہ کے سائنسدان انگریزی کی اکیلے بالادستی کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔یوآن گونزالیز ‘ولیم سدرلینڈاور تات سوامانونام کے سائنٹسٹوں نے ایک رسالہ میں تحریر لکھ کر اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ آج کل سائنس کے متعلق زیادہ تر تحقیق انگریزی میں ہوتی ہے۔ غیر انگریز لوگ بھی انگریزی کا استعمال کرتے ہیں ۔اس کا ایک برا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا کے زیادہ ترلوگ ان نئی تحقیق کا فائدہ نہیں اٹھا پاتے ہیں ۔انہوں نے چین کی مثال دی۔2004 ء میں چین میں لاکھوں پرندوں کو نہیںبچایا جاسکا‘کیونکہ وہاں کے سائنسدانوں کو انگریزی میں لکھے نسخے سمجھ میں نہیں آئے ۔اس کا الٹابھی حقیقت ہوتا ہے ۔روس اور جاپان کے سائنسدان اپنی ریسرچ کا کا م اپنی زبانوں میں کرتے ہیں ‘جس کا فائدہ دنیا کے ملک تب تک نہیں اٹھا پاتے ‘جب تک ان کا انگریزی میں ٹھیک ٹھاک ترجمہ نہ ہو جائے ۔برطانیہ کے سائنسدانوں کو گزارش ہے کہ دنیا کے سبھی سائنسدانوں کو زیادہ زبانیں یا کم ازکم دوزبانیں آنی چاہئیں تاکہ ان کا فائدہ سب کو مل سکے ۔
ان سائنسدانوں کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ دوسرے کی زبان میں سائنس پڑھنااورپڑھانا آپ کی بنیاد کو تباہ کر دیتا ہے ۔غیر ملکی زبان کو ذریعہ بنانے سے آپ کے غور کا طریقہ بدلنے لگتا ہے اور عقل پر بھی بوجھ بڑھ جاتا ہے ۔اجنبی زبان کے استعمال میں دماغ کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہوتا ہے ۔غیر ملکی زبان آسان نہیں ہوتی ۔سائنس کے کئی قابل کوپرنکس ‘نیوٹن ‘کیپلرس وغیرہ نے اپنی تحقیق لاطینی میں ہی کی تھیں۔کسی زمانے میں سائنس کی مخصوص زبان جرمن ہی تھی ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ غیر انگریزسائنسدان انگریزی نہ سیکھیں یا انگریزی میں کام نہ کریں ۔ان سائنسدانوں کا زوراسی بات پرہے کہ انگریزی کے تحقیقی رسائل میںدیگر غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ یا مختصر آئیڈیاز ضرور دیے جائیں اور غیر ملکی زبانوں میں تحقیق کا کام انگریزی داں لوگوں کو بھی ملتا رہے ۔کیا ہمارے بھارتی سائنسداں ان انگریزی سائنسدانوں کی رائے پر دھیان دیں گے بھارت جیسے سابق غلام ملکوں میں ابھی بھی سائنس تو کیا ‘سبھی ریسرچ کے کام انگریزی میں ہی چلا رہے ہیں ۔
مودی اور اکھلیش کی جملہ بازی
اتر پردیش میںدورانِ انتخاب لیڈروں کے درمیاں جو نوک جھونک چلتی ہے ‘عوام اس کا مزہ لیتے ہیں ۔ابھی نریندر مودی اور امیت شاہ جتنے کس کر اکھلیش اور راہول پر حملہ کر رہے ہیں ‘اس سے لگتا ہے کہ وہ اتنے ہی زیادہ گھبرائے ہوئے ہیں ۔اگر اتر پردیش میں بھاجپا ہار گئی تو اگلے دو ڈھائی سال مودی اور شاہ کے لیے گرم توے کی طرح بن جائیں گے ۔بھاجپا کے اندر ہی مودی اور شاہ کی جوڑی بدلنے کی بات اٹھنے لگے گی ۔سنگھ کو بھی اپنی خاموشی توڑنی پڑے گی ۔اس لیے یہ دونوں لیڈر اپنی تقاریر میں کہیں لکشمن ریکھا پار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے ۔مودی نے اپنی تقریر میں اتر پردیش کو سیاست کا بڑا سکیم کہا ہے۔ انہوںنے انگریزی کے (SCAM) کے پہلے لفظ ایس کو سماج وادی (سی )کو کانگریس (اے) کو اکھلیش اور ایم کو مایاوتی بتایا اور اپنے سبھی مخالفین کے منہ پر سیاہی ملتے انہیں گھوٹالہ بنادیا ۔اس کے جواب میں اکھلیش نے بھی سخت مارلگائی انہوں نے سکیم کا مطلب نکالا ہے کہ ''سیو دَکنٹری فرام امیت اینڈ مودی‘‘یعنی ملک کو مودی اور امیت شاہ سے بچائو ۔اکھلیش چاہتے تو سکیم لفظ کے اتنے تیزابی مطلب نکال سکتے تھے کہ وہ معنی مودی اور شاہ کی چمڑی توڑ دیتے لیکن یہی فرق مودی اور اکھلیش میں ہے۔اکھلیش ٹھنڈی مار لگاتا ہے۔مودی اور شاہ کا یہ پوچھنا کچھ حد تک ٹھیک ہے کہ اکھلیش نے کانگریس جیسی ادھ مری پارٹی کے ساتھ اتحاد کیوں کیا ؟کیوں کہ اسے شکست کا خوف ہے لیکن اکھلیش کا جواب یہ ہے کہ یہ اتحاد ہم نے ڈھائی سو نہیں تین سونشستیں جیتنے کے لیے کیا ہے ‘اور 2019 ء کے لوک سبھا چنائو جیتنے کے لیے کیا ہے۔ دیکھیں یہ بات کہاں تک سچ ہوتی ہے لیکن یہ سچ ہے کہ جملہ بازی میں اکھلیش اور راہول مودی اور امیت شاہ کو مات نہیں کر سکتے ۔انہیں اس کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے ۔اکھلیش کی جو باادب شان بنی ہوئی ہے وہ بنی رہی تو زیادہ ووٹ کھینچیں گے ۔
ایران اور ٹرمپ کا برس پڑنا
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بنتے ہی امریکہ اور ایران میں پھر سے تنازع بڑھ گیا ہے ۔ٹرمپ حکومت نے ایران پر کچھ نئی پابندیاں لگا دی ہیں ‘کیونکہ ایران نے ایک میزائل چھوڑا ہے ۔ایران کا کہنا ہے کہ ا س ٹیسٹ سے اس نے کسی بھی سمجھوتے کی خلاف ورزی نہیں کی ہے ۔اس کے مطابق 2015 ء میں ایٹمی تجربات کے بارے میں اس نے امریکہ اور یورپی ممالک سے جو سمجھوتہ کیا تھا ‘اس میں ایٹم بم نہیں بنانے اور ایٹم تجربات نہیں کرنے کا عزم کیا تھا ۔اس نے ابھی جو چھوڑا ہے‘وہ ایٹمی سمجھوتے میں نہیں آتا ہے ۔اس بنیاد پر ایران کی دلیل ہے کہ اقوام متحدہ نے 2010 ء ایران کے خلاف جو بل پاس کیا تھا اس میں بھی ایٹمی میزائل پر اعتراض تھا لیکن ٹرمپ نے ایران کو سختی سے خبردار کیا ہے۔اس نے کہا ہے ‘ایران ‘تم مجھے اوباما مت سمجھ لینا۔میں تمہیں ٹھیک کر دوں گا ۔یہ میزائل جو تم نے چھوڑا ہے ‘کیا یہ بندروں کو خلا میں سیر کرانے کے لیے چھوڑا ہے ؟ایران کو سب سے زیادہ دہشت گرد ملک اعلان کرنے کی بجائے بہتر ہوگا کہ اسے امن اور تعاون کے راستہ پر چلنے کے لیے متاثر کیا جائے ۔