کیا ہمارے ملک کے لیڈروں اور عام لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہے کہ رنگون سے لے کر استنبول تک اگر ٹرین سروس شروع ہو جائے تو اس کے کیا کیا فائدے ہوں گے ؟ یہ تقریباً چھ ہزار کلومیٹر کا زمینی راستہ ہے ۔ اس راستے سے ایشیا کے لوگ یورپ اور یورپ کے لوگ ایشیا سینکڑوں برسوں سے آتے جاتے رہے ہیں لیکن یہ زمینی راستہ ابھی تک ریل راستہ نہیں بن پایا ہے۔ برما کے رنگون سے لے کر ترکی کے استنبول تک اگر یہ ریل راستہ کھل جائے تو اپنے ایشیا کے لوگوں کے لیے کئی فائدے کے امکانات ہیں۔ اس ریل راستے پر سات ملک بسے ہیں۔برما ‘بنگلہ دیش ‘بھارت ‘پاکستان ‘افغانستان‘ ایران اور ترکی۔ برما میں تمو سے کلائے تک کا چھوٹا سا ریل راستہ ابھی بننا باقی ہے اور افغانستان میں ریل ہی نہیں ہے لیکن بھارت نے ابھی وہاں جرنج دلارام سڑک بنائی ہے‘ جوافغانستان کو فارس کی خلیج تک جوڑتی ہے۔ بھارت ‘برما سرحد پر تمو گائوں سے ترکی کے استنبول تک اب سے پچاس سال پہلے میرا پہلا زمینی سفر ہو چکا ہے لیکن پاکستان سے مجھے ہوائی جہاز سے گزرناپڑا ۔ پاکستان میں بھی لاہور سے خیبر تک میں زمینی راستے سے کئی بار ہو آیا ہوں۔ ان سارے ملکوں میں زمینی راستے سے آنے جانے کا تجربہ نہایت ہی عجیب وغریب ہے لیکن زمینی راستے سے ان سب ملکوں کے بیچ مال آنے جانے لگے اور ریلوے سفر شروع ہو جائے تو وقت اور پیسے کی زبردست بچت ہوگی‘ اور جنوب ایشیا کے ملکوں کو سویج ندی کے چکر بھی نہیں کاٹنے پڑیں گے ۔ ان کے مال کی رسد روس اور سویڈن تک سیدھی پہنچے گی ۔ اسی حوالے سے مارچ کے اس مہینے میں بھارتی وزارتِ ریلوے نے ابھی افغانستان اور برما کے علاوہ سبھی چھ ملکوں کے شعبہ ریلوے کو دعوت نامہ دیا ہے ۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان کے خاص ریلوے افسر کو بھی دعوت نامہ دیا گیا ہے ۔ انہیں ضرور آنا چاہیے ۔اب بلوچستان سے ہوکر ایران کے زاہدان تک 150 کلومیٹر کا ریلوے ٹریک بھی تیار ہو گیا ہے ۔ برمااور افغانستان کو ابھی نہ چھوئیں ‘تب بھی ڈھاکہ سے استنبول تک آسانی سے لاکھوں ٹن مال پانچ چھ دن میں پہنچایا جا سکتا ہے ۔ ابھی کچھ دن پہلے چین نے اپنے شہر ییبو سے لندن تک کا 12 ہزار کلومیٹر کا سفر ریل سے طے کر کے اپنا مال پہنچایا تھا۔ اگر چین وسطی ایشیا سے یورپ جا سکتا ہے تو بھارت جنوبی ایشیا سے یورپ کیوں نہیںجا سکتا ؟
کجری وال کا کمال
دلی کی کجری وال سرکار کے ایک اشتہار اور ایک خبر نے میرا دل خوش کردیا ۔ اشتہار یہ ہے کہ دلی کے کسی بھی مقیم کو اگر ایم آر آئی ‘سی ٹی سکین اور ایکس رے جیسے درجنوں ٹیسٹ کروانے ہوں تو وہ سرکاری ہسپتالوں اور پولی کلینکوں میں جائے۔ اگر ایک ماہ میں اس کا ٹیسٹ ہو جائے تو ٹھیک ورنہ وہ اپنا ٹیسٹ ذاتی ہسپتالوں میں بھی کرواسکتا ہے ۔ وہ مفت ہو گا ‘ جیسا کہ سرکاری ہسپتالوں میں ہوتا ہے ۔ آپ جانتے ہی ہیں کہ بھارت کے سرکاری ہسپتالوں کی حالت کیا ہے؟وہاں افسروں اور لیڈروں کے علاج پر تو ضرورت سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے لیکن عام آدمیوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح گلیاروں میں پٹخ دیا جاتا ہے ۔ یہی حال ٹیسٹوں کا ہے ۔ پہلی بات یہ کہ ٹیسٹوں کی لائن اتنی لمبی ہوتی ہیں کہ مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور کبھی کبھی انتظار کے اس وقت کے دوارن مریض اللہ کو پیارا ہوجاتا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ ٹیسٹ سدا ٹھیک ہی ہوں ‘یہ بھی ضروری نہیں۔ جو مریض ان ہسپتالوں میں جاتے ہیں ‘وہ کون ہوتے ہیں؟ وہ جن کی جیبیں خالی ہوتی ہیں۔ دیہاتی ‘غریب ‘ محروم ‘دلت اور ان پڑھ لوگ! سارا علاج انگریزی زبان میں ہوتا ہے ‘جادو ٹونے کی طرح ۔ دلی سرکار کو سب سے پہلے تو ان سرکاری ہسپتالوں کو سدھارنا چاہیے اور اب جو انہوں نے اتنی
سہولیات کااعلان کیا ہے ‘اسے ٹھیک سے عائد کرنا اپنے آپ میں بڑی ذمہ داری ہے ۔ اس میں بدعنوانی کی کافی گنجائش ہے ۔ اروند اور منیش ‘دونوں ہی میرے پیارے ساتھی ہیں ۔ میں دونوں سے کہتا ہوں کہ وہ دلی سرکار کے سبھی ملازمین اور ایم ایل ایز کے لیے یہ لازمی کیوںنہیں کر دیتے کہ ان کا اور ان کے رشتے داروں کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں ہی ہوگا۔ ان ہسپتالوں کی حالت راتوں رات سدھر جائے گی ۔ اگر کجری وال سرکار کی یہ تجویز کامیاب ہوگئی ٹو عاپ پارٹی کو دلی سے باہر پھیلانا بہت آسان ہو جائے گا لیکن دھیان رہے علاج کی یہ سہولت مودی کی نوٹ بندی اور سکل انڈیا کی طرح فیل نہ ہو جائے ۔ وہ صرف اشتہار اور تقریر کا موضوع بن کر نہ رہ جائے ۔ دلی سرکار کو ہرماہ آنکڑے جاری کر کے بتانا چاہیے کہ اس کی اس نئی تجویز سے کتنے لوگوں کو فائدہ مل رہا ہے ۔ اس درمیان ایم پی سرکار کے غریبوں کے لیے پانچ روپیہ میں اور دلی سرکار نے سرکاری سکول کے بچوں کو نو روپیہ میں بھر پیٹ کھانا دینے کا جو اعلان کیا ہے ‘وہ بھی تعریف کے لائق قدم ہے ۔مجھے یقین ہے کہ مرکزی سرکار ان دونوں سرکاروں سے نصیحت لے گی ۔
مودی جیتے یا ہارے ‘ملک کا بھلا ہوگا
اتر پردیش کا چنائو وفاقی چنائو سے بھی زیادہ اہمیت والا چنائو بن گیا ہے ۔ ایسا چنائو شاید پہلے کبھی بھارت میں ہوا ہی نہیں۔ کیا آپ نے کبھی ایسا دیکھا یا سنا کہ کسی وزیراعلیٰ کو شکست دینے کے لیے کوئی وزیراعظم مارا مارا پھر رہا ہو ‘سڑکوں پر نوٹنکی کر رہا ہو‘چھوٹے موٹے انتخابی علاقوں میں بھیڑ جٹانے کی کوشش کر رہا ہواور ٹی وی چینلوں اور اخباروں کو پٹانے کے لیے سبھی حربے آزما رہا ہو؟ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟کیونکہ وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے آپ کا دم پُھلا رکھا ہے۔ آپ
صرف ترقی کے وعدے کرتے ہیں جبکہ وہ ترقی کرتا ہے ۔ آپ صرف باتیں کرتے ہیں وہ کام کرتا ہے ۔ آپ وزیراعظم کی شان کو طاق پر رکھ کر اکھلیش پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور وہ نوجوان وزیراعلیٰ آپ پر گلاب کی ایسی پنکھڑیاں مارتا ہے کہ اس کے کانٹے آپ کو لہو لہان کر دیتے ہیں۔ آپ نے اسے بھاجپا اور سپا کی ٹکر کی بجائے اکھلیش اور مودی کی ٹکر بنا دیا ہے۔سماج وادی پارٹی کی جگہ صرف اکھلیش ہی اکھلیش ہے ۔ اکھلیش کے سوا کوئی لیڈر کہیں دکھائی نہیں پڑتا ۔ ادھر ہمارے مودی جی کے سوا سبھی بھاجپا لیڈر ندارد ہیں۔اگر ادھر ملائم سنگھ‘ بینی پرساد ورما‘ شوپال اور رام گوپال بھی گول ہیں تو ادھر لعل کرشن ایڈوانی‘ مرلی منوہر جوشی ‘راج ناتھ‘ سشما سوراج ‘ نتن گڈکری سبھی غائب ہیں۔ پس مودی ہی مودی ہے۔ واہ کیا جمہوری چنائو ہے‘ یہ؟ جمہوریت ہے یا ایک آدمی کا چنائو ہے ؟ اس چنائو میں مودی ہارے یا جیتے ‘جو بھی ہو‘ہر حال میں ملک کے لئے بہتر ہے ۔ اگر مودی کو ہارنا پڑا تو ان کو سبق لینا ہی پڑے گا۔ انہیں کسی سے صلاح لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ وہ خود سمجھ جائیں گے کہ بنڈی بدل بدل کر بنڈل مارنے سے کام نہیں چلے گا۔ بھاجپا کے دیگر لیڈروں اور کارکنوں کی ہمت بڑھے گی۔ سنگھ کی ہمت لوٹے گی اور ہوا میں اڑ رہی مودی کی بلٹ ٹرین پٹری پر آ جائے گی۔ اگر اتر پردیش میں مودی کی جیت ہو گئی تو یہ کرشمہ مودی میں 2014 ء سے بھی زیادہ ہوا بھر دے گا۔ مودی نام کا یہ غبارہ اتنا پھول جائے گا کہ وہ زمین پر ٹک ہی نہیں پائے گا۔ احسان فراموشی گر جے گی۔ 56 انچ کا سینہ پھول کر 65انچ کا ہو جائے گا۔ سارے مخالفین ڈر جائیں گے ۔ یہ ڈر انہیں ایک کر دے گا ‘جیسا کہ ایمرجنسی کے بعد ہوا تھا۔ اگر ایسا فوراً ہوگیا تو اقتدار کے نشے میں چور ہاتھی پر بریک لگے گا ۔ جمہوریت کا توازن شاید لوٹ پائے گا ۔کیا اس سے ملک کا فائدہ نہیں ہوگا ؟