"DVP" (space) message & send to 7575

ایودھیا :بات چیت سے حل ہو

سپریم کورٹ نے ایودھیا کے مندر مسجد تنازع کو آپسی بات چیت اور سبھی کی رائے سے حل کرنے کی صلاح دی ہے ۔چیف جسٹس جے ایس کھیہر نے کہا ہے کہ دونوں طرف کی پارٹیاں راضی ہوں تو وہ خود مفاہمت کا کردار کرنے کو تیار ہیں ۔یہ فیصلہ لگ بھگ چھ برس تک انتظار کرنے کے بعد آیا ہے ۔2010 ء الہ آباد ہائی کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا ‘وہ مقدمہ لڑنے والی تینوں پارٹیوں کو قبول نہیں تھا ۔اس نے 2.7 ایکڑ تنازع والی زمین کو رام لیلا ‘نرموہی اکھاڑا اور سنی وقف بورڈ میں بانٹ دیا تھا ۔وہاں مندراور مسجد پھر سے بن سکتے تھے ۔اب اگر اس معاملے پر سپریم کورٹ کو صاف صاف فیصلہ نہیں دینا تھا تو اس نے چھ برس برباد کیوں ہونے دیے ؟وہ چھ برس پہلے ہی یہ کہہ سکتی تھی کہ مقابلے والی پارٹیاں آپس میں فیصلہ کریں ۔آپس میں فیصلے کی کوشش کب نہیں ہوئی ؟چندر شیکھر ‘ نرسمہارائو اور اٹل جی کے زمانے میں میں نے خود وشو ہندو پریشد ‘ سنگھ ‘بھاجپا اور مسلم لیڈروں کے درمیاں بات کروائی تھی ۔کئی باتیں چپ چاپ چلتی رہیں ۔کئی کھل کرنہیںہوئیں ۔کار خدمت تو اکتوبر 1991 ء میں ہونی تھی ۔میری درخواست پر اسے ٹال کر 6 دسمبر کو اتوار تھا ۔اس دن ڈھانچہ ڈھے گیا ۔اس کے بعد بھی بات چلتی رہی لیکن کوئی حل نہیں نکلا ۔مسلم لیڈر حضرات مجھے کہتے رہے کہ اس سارے معاملے کوعدالت کے حوالے کیجئے ۔2010 ء کے عدالتی فیصلے کوکون مان رہا ہے؟اگر سپریم کورٹ بھی کوئی فیصلے دے دے تو تو اسے کون مانے گا ‘یہ بات وہ بھی جانتی ہے ۔
اسی لیے اس نے اسے باہمی بات چیت حل کرنے کے لیے کہا ہے۔ تمام ہندو یونین نے اس رائے کا خیر مقدم کیا ہے لیکن مخصوص مسلم تنظیموں نے اس کی مخالفت کی ہے ۔اس حمایت اور مخالفت کے پیچھے حقیقت کم اور عقیدت زیادہ ہے ۔دلیل کم‘غرورزیادہ ہے ۔اگر عدالت فیصلہ بھی کر دے تو اسے نافذ کون کرے گا؟عدالت کے کئی فیصلے بیچ میں ہی لٹکے رہتے ہیں ۔نہ ججوں کو وہ یاد رہتے ہیں اورنہ ہی لوگوں کو۔فیصلہ ایسا ہونا چاہیے ‘جسے سب لوگ تہ دل سے قبول کریں ۔ یہی فیصلہ بات چیت سے ضرور ہو سکتا ہے لیکن یہ اس پر مدار ہے کہ بیچ کا کردار کون ہیں ‘ان کی دلیل کیا ہے اور ان کے طریقے کیا ہیں ۔
سرکاری بھرتیاں :نیند کب کھلے گی ؟
سنگھ پبلک سروس کمیشن ہی سرکار کی بھرتی امتحانات کا سب سے بڑا مرکز ہے ۔اس کا نام پبلک سروس کمیشن لیکن اس کے خاص امتحانات کسی بھی بھارتی زبان میں نہیں ہوتے ہیں ‘جس کا نام انگریزی ہے ۔سرکار سے کوئی پوچھے کہ افسر بننے کے بعد یہ لوگ کس کی خدمت کریں گے ؟بھارتیوں کی یا انگریزی کی؟یہ پبلک سروس کمیشن ہے یا پرلوک سروس کمیشن ہے؟اپنے لوگوں پر غیر زبان تھوپنے کا یہ کمیشن سب سے بڑا کارخانہ ہے ۔اگر سرکار کے بھرتی امتحانات میں انگریزی لازمی نہ ہوتو کیا ہمارے سارے پبلک سکول دیوالیے نہیں ہو جائیں گے ؟اپنے بچوں کو اونچی نوکریاں دلانے کے لالچ کے سبب ہی انگریزی سکول دھڑا دھڑکھلتے جا رہے ہیں ۔لوگ اپنا پیٹ کاٹ کر ہزاروں روپیہ فیسیں آخر کیوں بھرتے ہیں ؟پبلک سروس کمیشن کی زبان پالیسی‘ کسی بھی آزاد ملک کے لیے بے حد شرم کی بات ہے ۔یہ ایسی پالیسی ہے‘جو ملک کے کروڑوں دیہاتیوں ‘غریبوں اور محروموں کے بچوں کے لیے سرکاری نوکریوں کے دروازے بند کر دیتی ہے ۔
اس پالیسی کے خلاف کچھ سمجھدار ارکان پارلیمنٹ نے کل راجیہ سبھا میں میں آواز اٹھائی ہے ۔ان میں سے کچھ اراکین پارلیمنٹ میرے پرانے ساتھی ہیں ۔انہیں میں مبارک باد دیتا ہوں ۔اب سے قریب قریب 25 برس پہلے میں نے اس زبان پالیسی کے خلاف ایک زبردست تحریک چلائی تھی ۔پشپیندرچوہان کی سربراہی میں کئی نوجوانوں نے اس کمیشن کے دروازے پر دس سال تک لگاتار دھرنا بھی دیا تھا۔ایک دن میری درخواست پراٹل واجپائی جی ‘وشوناتھ پرتاپ سنگھ‘ گیانی ذیل سنگھ ‘نتیش کمار‘شردیادووغیرہ کئی لیڈروں نے بھی وہاں دھرنا دے دیا تھا ۔وزیراعظم نرسمہارائو جی نے خود فون کرکے مجھے کہا تھا کہ یہ تو ضروری کام ہے ۔یہ ملکی مفاد میں ہے ۔اس کے لیے اتنے بڑے بڑے لیڈروں کو دھرنا دلوانے آپ کیوں لے آئے ؟لیکن پھر بھی کچھ نہیں ہوا ۔سامعین کی اگلی قطار میں کئی وزرا بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔وہ ابھی بھی وزیر ہیں ۔من موہن سنگھ جی ہمارے اچھے دوست ہیں لیکن اس بارے میں اس سے کیا بات کرتے ؟وہ توخود اس سڑی گلی انتظامیہ کی پیدائش ہیں ۔ہمیں امید تھی ‘ نریندر مودی سے لیکن ڈھائی برس نکل گئے ۔اس مدعہ پر سرکار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے ۔اپنے آپ کو وطن پرست کہنے والے لوگ اور تہذیبی محب وطن کو ڈھنڈورا پیٹنے والے لوگ اگر اس مدعہ پر تھوڑی سی ڈھولک بھی پیٹ دیں تو شاید سرکار کی نیند کھل جائے ۔
''مودی ہی بھارت ہے ‘‘
پانچوں صوبوں میں چنائو ہوگئے ۔اب سارے صوبوں میں وزرائے اعلیٰ بھی بیٹھ جائیں گے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کی سیاست کس جانب ہوگی ۔ہم پہلے بی جے پی اور اپوزیشن پارٹیوں پر تبصرہ کریں گے جیساکہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ‘بھاجپا میں نریندر مودی کا جیسا اثر اب قائم ہوگا ‘وہ ویسا ہی ہوگا ‘جیسا اندرا گاندھی کا 1971 ء کے چنائو کے بعد کانگریس میں ہوگیا تھا ۔اس وقت کہاجانے لگا تھا ، ''اندرا از انڈیا ‘‘۔اب کہا جا سکتا ہے کہ 'مودی ہی بھارت ہے ‘۔اس بیچ مجھے دو تین وفاقی وزیراور بی جے پی کے کچھ بزرگ لیڈراچانک مل گئے ۔وہ سمجھنے لگے کہ مودی تو بھگوان کا اوتار ہے ۔اس کے جیسا لیڈر نہ کبھی ہوا ہے نہ کبھی ہونے والا ہے ۔انہوں نے مودی کو ساتویں آسمان پر بٹھا دیا ۔لیکن آپ ذرا مودی کی تقریر پر دھیان دیجئے ۔اسمیں جتنا مہذب اور باادب طریقہ اور لچیلا پن نظر آتا ہے ویسا مودی کی تقریر میں پہلے کبھی نہیں دِکھا ۔اگر مودی نے جو کہا ‘وہ وہی کرتے رہے تو بھارت کا بڑا ہی بہتر ہو سکتا ہے ‘ورنہ جیسا کہ میں نے کہا تھا اگلے دوڈھائی برس صرف سیاسی مٹھ بھیڑوں کے سال ہوں گے ۔مودی کو ووٹ کم ہی ملے ہیں لیکن نشستیں زیادہ ملی ہیں ۔2014 ء پارلیمنٹ کے چنائو میں مودی کو صرف تیس فیصد ہی ووٹ ملے تھے ۔1967 ء میں جیسے ڈاکٹر منوہر لوہیا نے غیر کانگریسی کا نعرہ دیا تھا اور جس کا فائدہ 1977 ء میں دِکھا ‘ویسے ہی ساری اپوزیشن پارٹیاں اگر غیر مودی کا نعرہ دیں تو ہی 2019 ء میں مودی کا مقابلہ کر سکتے ہیں بشرطیکہ مودی بھی اگلے ڈھائی برس ویسے ہی کاٹ دیں ‘ویسے کہ انہوں نے گزشتہ سوادوبرس کاٹ دیے ہیں ۔مودی کوئی ٹھوس کرشمائی کام کر سکیں تو سارے اندازے الٹا سکتے ہیں ۔ 
غیر مودی کا مطلب نہ تو غیر بی جے پی اور نہ ہی غیر سنگھ ہے ۔ جب لہر اٹھے گی تو ان دونوں پارٹیوں کے لوگ بھی جڑتے چلیں گے یہ لہر تحریک کی ہو ‘ملک کو نئی راہ دینے کی ہو ۔وہ صرف مودی کو غلط ٹھہرانے کی نہ ہو ‘ووٹ کباڑنے کی نہ ہو اقتدار کی بھوک مٹانے کی نہ ہو‘بنڈیاں بدل بدل کر مارنے کی نہ ہو ۔ورنہ آپ کو غیر مودی واد صرف ایک مزاحیہ نعرہ بن کر رہ جائے گا ۔آپ ہی 'مودی ہی بھارت ہے‘اس نعرے کو بلند کریں گے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں