"DVP" (space) message & send to 7575

موہن بھاگوت کا صدر ہونا

راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کا نام عہدہ صدر کے لیے اچھلا ہے ۔شو سینا کے ایک ترجمان نے انہیں صدر بنانے کی پیشکش کی ہے ۔شو سیناکی اس پیشکش نے نریندر مودی کو کنفیوز کر دیا ہو گا‘ کیونکہ اتر پردیش میں بمپر جیت پانے کے باوجود بھاجپا کو صدارتی چنائو جیتنے کے لیے ابھی کم ازکم بیس ہزار ووٹ کم پڑ رہے ہیں ۔جبکہ شو سینا کے 21 ایوانی ممبر اور 63 ایم ایل ایز کے کل ملاکر 25893 ووٹ بنتے ہیں ۔اگر شو سینا بغاوت پر اتر جائے تو بھاجپا کے امیدوار کا صدر بنناکھٹائی میں پڑ سکتا ہے ۔یوں بھی شوسینا نے گزشتہ صدارتی انتخاب میں کانگریس کے پرنب مکھرجی اور پرتیبھا پاٹل کی حمایت کی تھی۔اب شو سینا نے پتا نہیں موہن بھاگوت کا نام کیوں اچھالا ہے ؟اس کے ترجمان کے مانیں تو موہن جی کے صدر بننے پر بھارت کو 'ہندو راشٹر‘بنانا ممکن ہو جائے گا ۔
یہ خالص مذاق نہیں تو کیا ہے ؟یہ نریندر مودی کو پٹخنی مارنے کا حربہ بھی ہو سکتا ہے ۔یوں صدر کا عہدہ تو صرف ربڑ سٹیمپ کاہوتا ہے لیکن مودی جیسے سوئم سیوک کے لیے سنگھ کا ایک سربراہ کسی بھی گرو‘مرشد یاو والد سے کم نہیں ہوگا ۔جو مودی ایڈوانی اور جوشی کو نہیں جھیل سکتا ‘کیا وہ موہن جی کو برداشت کر لے گا ؟جہاں تک موہن جی کا سوال ہے ‘وہ صدر یا کسی بھی عہدے کو قبول کیوں کریں گے ؟قطعی نہیں ۔سوئم سیوکوں کے ان کا عہدہ ‘عہدہ نہیںبڑ اعہدہ ہے ۔ انہیں صدر بنانے کی بات کہنا کیا ان کی عزت کرنا ہے ؟موہن بھاگوت جیسے محنتی ‘سب کچھ قربان کرنے جیسی زندگی گزارنے والے کے آگے یہ سب عہدے چھوٹے پڑجاتے ہیں ۔گرو گولولکر جی سے لے کر موہن جی تک جتنے بھی سنگھ کے سربراہ رہے ہیں‘ان سے میرا ذاتی گہرا تعلق رہا ہے ۔میں یہ بات پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ موہن جی جیسا مفکر ‘فراخ دل اور باادب ہونا لیڈروں کے بس کی بات نہیں ہے ۔وہ اپنے آپ کو لیڈروں کی قطار میں اتارنا کیوں پسند کریں گے؟جہاں تک بھارت کو 'ہندو راشٹر‘بنانے کی بات ہے‘شوسینا کے 'ہندو راشٹر‘اور موہن بھاگوت کے ہندوراشٹر میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔ 
جنرل شریف نئے اتحاد کے سربراہ
پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کو دنیا کے اسلامی ممالک کے افواج کے اتحاد کا چیف تعینات کیا گیا ہے۔ پاکستان سرکار نے انہیں اس کی اجازت بھی دے دی ہے ۔اس 39 مسلم ممالک کے فوجی اتحاد کا ہدف بین الاقوامی دہشت گردوں سے لڑنا ہے ۔اس کی شروعات سعودی عرب نے کی ہے ۔یہ پہل 2015ء میں ہوئی تھی لیکن یہ پروان اب چڑھ رہی ہے ۔اگر حقیقت میں یہ اتحاد کھڑا ہوگیا اور اس نے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کی ٹھان لی تو کوئی تعجب نہیں کہ یہ دنیا سال بھر میں ہی قریب قریب دہشت گردی سے نجات حاصل کر سکتی ہے ،یہ بھی تسلی کی بات ہے کہ اس اینٹی ٹیررسٹ اسلامی اتحاد کا سربراہ جنوب ایشیا کے ایک جنرل کو چنا گیا ہے۔میں پر اعتماد ہوں کہ جنرل شریف سب سے پہلے جنوب ایشیا میں دہشت گردوں کو ختم کرنے پر دھیان دیں گے۔جنرل شریف نے ہی دوبرس پہلے پاکستان کے دہشت گردوں کے خلاف زبردست مشن چلایا تھا ۔ جنرل شریف کے ارادے تو نیک ہیں انہیں دہشت گردوں سے لڑنے کا اچھا تجربہ بھی ہے لیکن اصلی سوال یہ ہے کہ وہ جس اتحاد کے چیف بن رہے ہیں‘ اس کے اصول ‘قاعدے ‘ ہدف اور پالیسی کیا ہیں ؟ تمام تفصیلات آ جائیں تو ہی کھل کر بات کی جا سکتی ہے ۔
یوگی کا وزیر اعلیٰ بننا 
یوگی آدتیہ ناتھ کو اتر پردیش کا وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا ہے ‘اس حقیقت نے سب کو حیرانی میں ڈال دیا ہے ‘ جیسا کہ وہاں کے چنائو نتائج نے ڈال دیا تھا لیکن اتر پردیش کے چنائو نتیجے اور یوگی کی تعیناتی میں ایک غائبانہ تار جڑا ہوا ہے ۔آپ پوچھیں کہ اتر پردیش میں بھاجپا کیسے اتنا کرشمہ دکھا سکی تو اس کا ایک ہی بڑا جواب ہے کہ وہاں فرقہ واریت کی بنیاد پر ووٹ تقسیم ہوئے۔ ہندوؤں نے نوٹ بندی کی تکالیف کو بھلا دیا ۔ان پر سرجیکل سٹرائیک کا بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔مودی ترقی کے ایجنڈے پر بھی صفر تھے لیکن پھر بھی بازی مارگئے ۔ آخر کیسے ؟ اسی سوال کا جواب ہے یوگی آدتیہ ناتھ!اس غیر معمولی فتح کا سہرا اسی کے سر باندھنا چاہیے تھا ‘جو اس کا حقدار تھا۔شمشان اور قبرستان کی بحث مودی سے پہلے یوگی آدتیہ ناتھ نے چلائی تھی ۔تبلیغ اور مذہب کی تبدیلی کے خلاف مشن کس نے چلایا تھا ؟''اقلیت بلیک میل‘‘کے خلاف کس نے آواز بلند کی تھی ؟یوگی آدتیہ ناتھ نے!اسی لیے یوگی اس عہدہ کے حقدار بن گئے ۔ کوئی تعجب نہیں کہ یہ یوگی ایودھیا میں رام مندر بھی کھڑا کر دیں لیکن یوگی آدتیہ ناتھ کی خوبی تبھی مانی جائے گی جب کہ پاک کام سبھی کی رضامندی سے کریں ۔میں تو کہتا ہوں کہ اس ساٹھ ایکڑ کے احاطہ میں سبھی مذاہب کے عبادت کے مقام وہ بنوا سکیں تو وہ سچے سنیاسی (عارف) کہلائیں گے ۔
اکھلیش کی طرح یوگی بھی جواں ہیں ۔وہ کٹر ہیں لیکن باادب بھی ہیں ۔فقیر کا غرور شہنشاہ سے بھی زیادہ ہوتا ہے لیکن یوگی آدتیہ ناتھ میں فقیروں کے اکھڑ پن سے زیادہ لیڈروں سی چالاکی ہے ۔ امید ہے کہ اب وہ سی ایم بننے پر وہ صبر اور احتیاط سے کام لیں گے۔ اکھلیش کے ادھورے کاموں کو پورا کریں گے۔ وہ پانچ بار ممبر آف پارلیمنٹ رہے ہیں لیکن پہلی بار اقتدار میں آئے ہیں ابھی اقتدار کے داؤ پیچ سیکھنے میں وقت لگے گا ۔وہ بنیادی تحریک چلانے والے رہے ہیں ۔اس کے ساتھ دو ڈپٹی سی ایم اس لیے جوڑے گئے ہیں یہ تینوں مل کر اس22 کروڑ لوگوں کے اس اتر پردیش کو اچھے سے چلائیں گے ظاہر ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ جی اپنے دیگر وزراء کو چیلا سمجھنے کی غلطی نہیں کریں گے ۔انہیں وزیراعلیٰ اس لیے بھی بنایا گیا ہے کہ وہ فقیر ہیں ۔ان سے بدعنوانی کااندیشہ بالکل نہیں ہے لیکن جیسا کہ آچاریہ کوٹلیہ نے سچ ہی کہا ہے کہ مچھلی پانی میں رہے اور پانی نہ پیئے‘یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟کسی سنیاسی کا وزیراعلیٰ یا وزیراعظم بننا اپنے آپ میں عجوبہ ہے لیکن سنگھ اور بھاجپا نے یہ غیر معمولی کام کیا ہے کہ مودی‘منوہر لعل کھٹر ‘یوگی آدتیہ ناتھ اور ترویندر راوت جیسے لوگوں کو اقتداری بنایا ہے ۔یہ لوگ بھگوا پہنیں یا نہ پہنیں ‘سنیاسیوں کی کچھ خوبیاں تو ان میں ہیں ہی ۔ان سے ملک توقع رکھتا ہے کہ یہ لوگ کچھ کرشمہ کریں گے ورنہ ان کی خراب حالت لیڈروں سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے ۔ 
جناح ہائوس کا کیا کریں؟
مہاراشٹر کے ایک ایم ایل اے نے مانگ کی ہے کہ ممبئی کے 'جناح ہائوس‘ کو ڈھا دیا جائے اور وہاں ایک نیا تہذیبی مرکز بنایا جائے۔ یہ ایسی مانگ ہے کہ اگر اسے طول دے دیا جائے تو بھارت میں اس کی حمایت کرنے والے ڈھیروں لوگ مل جائیں گے۔ عام لوگ جذبات میں بہتے ہیں۔ وہ گہرائی میں نہیں اترتے۔ وہ آگے پیچھے کا بھی نہیں سوچتے۔ اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اگر محمد علی جناح نہ ہوتے تو پاکستان بھی معرض وجود میں نہ آتا۔ یوں تو مسلم لیگ 1906ء میں بنی اور بڑے بڑے مسلم لیڈر اس کے صدر بنتے رہے لیکن اقبال کے خواب کی تعبیر تو جناح نے ہی پوری کی۔ جناح تو کانگریس کے بھی متحرک ممبر رہے۔ وہ جتنے دن مسلم لیگ میں متحرک رہے‘ اس سے زیادہ وہ کانگریس میں رہے۔ مہاتما گاندھی جن دنوں دنیا کے پوگا پنتھی مسلمانوں کی 'خلافت تحریک‘ کی حمایت کر رہے تھے‘ جناح اس کی مخالفت کر رہے تھے۔ گاندھی اور جناح کی ٹکر 1920ء کی ناگپور کانگریس میں ہوئی اور وہ دراڑ پھیلتی گئی۔ اس کے پہلے جناح اتنے بڑے لیڈر بن چکے تھے کہ سروجنی نائیڈو نے ان کی سوانح عمری لکھی تھی۔ جناح کی والدہ کا نام مٹھی بائی اور بیوی کا نام رتی بائی تھا۔ جناح زبردست محب وطن تھے۔ انہوں نے بھگت سنگھ کا مقدمہ بھی لڑا تھا۔ 1930ء تک جناح اتنے ناامید ہو چکے تھے کہ وہ لندن جا مقیم ہوئے تھے۔ لیاقت علی اور ان کی بیگم انہیں واپس لے آئے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دس گیارہ برسوں میں علیحدہ ہونے کی بات کہی‘ جسے اوسطاً بھارتی غلط سمجھتا ہے۔ لیکن جناح کی دو باتیں ہم نہ بھولیں۔ ایک یہ کہ وہ پاکستان سے لوٹ کر ممبئی کے اپنے جناح ہائوس میں ہی رہنا چاہتے تھے اور دوسری یہ کہ انہوں نے پاکستان کے قائد اعظم کے طور پر اپنی تقریر میں صاف صاف کہا تھا کہ آزاد پاکستان میں مذہب کی بنیاد پر کوئی فرق نہیں ہو گا۔ ان کی اس تقریر کو بھاجپا کے صدر لعل کرشن ایڈوانی نے بھی ظاہر کیا تھا۔ کسے پتا ہے کہ جناح اگر ستمبر 1948ء کے بعد بھی زندہ رہتے تو کیا صورتحال پیدا ہوتی۔
ڈھائی ایکڑ میں بنے جناح کے بنگلہ کی قیمت اس وقت کئی ارب روپے ہیں۔ نہرو نے اسے دشمن کی ملکیت اعلان نہیں کیا۔ وہ اسے جناح کو لوٹانا چاہتے تھے۔ جناح کی مرضی سے وہ اسے کسی یورپی باشندہ کو کرائے پر بھی دینا چاہتے تھے لیکن جناح سال بھر بعد ہی وفات پا گئے۔ ہمارے کئی وزرائے اعظم نے اسے پاکستان سرکار کو لوٹانا چاہا لیکن وہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکے۔ اگر اسے پاکستان کو نہیں لوٹانا ہے تو اس کا وجود ختم کرنا تو نہایت ہی بے وقوفی کا کام ہو گا۔ یہ وہ بنگلہ ہے جس پر گاندھی اور نہرو جیسے لیڈر درجنوں بار جاتے رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ 'جناح ہائوس‘ کو ایک ایسے میوزیم میں تبدیل کر دیا جائے‘ جو جناح کے ساٹھ برس بھارت ماں کے بیٹے کی طرح دکھائے اور ان کے آخری گیارہ برس پاکستان کے قائد اعظم کے طور پر دکھائے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں