بھارت کی عدالتیں جادو ٹونا گھر بنی ہوئی ہیں۔ بھارت جیسے سابق غلام ملکوں کی یہ بے حد خراب حالت ہے۔ انگریزوں کا بنایا ہوا قانون ابھی تک چل رہا ہے۔ مشہور انگریز مفکر جان سٹیورٹ مل نے لکھا تھا کہ دیر سے کیا گیا انصاف تو ناانصافی ہی ہے۔ بھارت کی عدالتوں میں تین چار کروڑ مقدمے لٹکے ہوئے ہیں‘ تیس تیس برس سے! پہلی بات یہ ہے کہ انصاف میں دیری ہوتی ہے‘ اور انصاف بھی ایسا ہوتا ہے کہ مقدمہ لڑنے والوں کو یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ ہارے ہیں تو کیوں ہارے اور جیتے ہیں تو کیوں جیتے ہیں؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس لئے کہ ہمارا قانون‘ ہماری بحث‘ ہمارے فیصلے سب کچھ انگریزی میں ہوتے ہیں۔ بھارت کی سپریم کورٹ میں آپ کسی بھی بھارتی زبان کا استعمال نہیں کر سکتے۔ ہندی کا بھی نہیں۔ ہندی راج زبان ہے۔ یہ ہندی اور راج دونوں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اگر پارلیمنٹ میں آپ بھارتی زبانوں کا استعمال کر سکتے ہیں تو سب سے بڑی عدالت میں کیوں نہیں؟ بھارت کی سب سے بڑی عدالت میں سب سے بڑی ناانصافی ہے۔ ملک کی صرف چار ہائی کورٹس میں ہندی کا استعمال ہو سکتا ہے: راجستھان‘ اتر پردیش‘ مدھیہ پردیش اور بہار۔ چھتیس گڑھ اور تامل ناڈو نے بھی اپنی زبان کے استعمال کی سفارش کر رکھی ہے۔ نریندر مودی نے بھی 2012ء میں بطور وزیر اعلیٰ‘ گجرات کی ہائی کورٹ میں گجراتی کے استعمال کی مانگ کی تھی‘ لیکن ان کی سرکار بنے تین برس ہو رہے ہیں‘ نتیجہ زیرو ہے۔ یہ ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 348 (1) میں فی الفور ترمیم کی جائے تاکہ بھارتی عدالتوں میں بھارتی زبانوں میں کام شروع ہو اور ملک کے کروڑوں لوگوں کو انصاف ملنے میں دیری (تاخیر) نہ ہو۔ آج کل ٹھگی کی دو سب سے بڑی تجارتیں ہیں‘ ڈاکٹروں اور وکیلوں کی! اگر ان دونوں تجارتوں پر چڑھا انگریزی کا نقاب اتار دیا جائے تو ملک کے عام آدمی کو بڑی راحت ملے گی۔ اسی مدعے کو لے کر شیام رُدر پاٹھک‘ پریم اگروال اور برہم مشر‘ میرے ان تینوں ساتھیوں نے پی ایم او پر دھرنا دینا طے کیا ہے‘ لیکن پارلیمنٹ کے راستے پر ڈیوٹی دینے والے ایک پولیس افسر نے گزشتہ روز ان تینوں کے ساتھ بڑی بدتمیزی کی اور رات تک انہیں تھانے میں بٹھائے رکھا۔ آج پاٹھک نے پی ایم او میں جاکر اپنا مؤقف جمع کرا دیا ہے۔ یہ پاٹھک وہی نوجوان ہے جس نے آئی آئی ٹی کے امتحان کا سوالی پیپر ہندی میں کروانے کے لیے 1989ء میں انیس دن بھوک ہڑتال کی تھی۔ میرے پیارے دوست آندھرا پردیش کے پی شو شنکر جی‘ جو وزیرِ تعلیم تھے‘ نے پاٹھک کی مانگ مان لی تھی اور میں نے ان کی بھوک ہڑتال ختم کروائی تھی۔ اگر بھارت میں بیداری ہوتی تو آج پورا ملک پاٹھک کے پیچھے کھڑا ہو جاتا۔
گوشت نہیں‘ دودھ!
راشٹریہ مسلم منچ نے اس بار ایک زبردست فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ہزاروں ممبر رمضان کے دنوں میں جو افطار کریں گے‘ اس میں گائے کا گوشت ندارد ہو گا۔ اس کی جگہ روزہ داروں کو افطار کے وقت گائے کے دودھ سے بنی ہوئی اشیا دی جائیں گی۔ کیا کمال کی بات ہے یہ! یہ بات میں مسلم ممالک کے کئی مولانائوں‘ صدور اور وزرائے اعظم‘ پروفیسروں اور صحافیوں سے کہتا آ رہا ہوں۔ کچھ ممالک میں ایسا ہونے بھی لگا ہے۔ میں تو ان سے کہتا ہوں کہ گائے کا ہی نہیں کسی بھی جانور کا گوشت کیوں کھایا جائے؟ روزے جیسا پاک فرض اور روحانی فرض آپ مکمل کریں‘ اور اس کے بعد اپنا پیٹ بھرنے کے لیے گوشت کھائیں۔ جو سبزی خور ہیں‘ وہ کیا اچھے مسلمان نہیں ہیں؟ میں تو کہتا ہوں جو لوگ عادتاً گوشت خور ہیں‘ انہیں بھی رمضان کے پاک مہینہ میں گوشت‘ شراب اور جسمانی تعلقات سے دور رہنا چاہیے۔ اگر ہمارے ملک کے مسلم بھائی میری اس درخواست کو ماننے لگیں تو ساری دنیا میں وہ سب سے اچھے مسلمان مانے جائیں گے۔ ماضی میں ہو سکتا ہے کہ گوشت خوری مجبوری رہی ہو‘ لیکن آج کی دنیا بھر میں سبزی ہر جگہ سہولت سے مل جاتی ہے۔ رمضان میں عبادت کے دنوں میں دماغ اور پیٹ دونوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے سبزی سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟ اگر بھارتی مسلمان اس راہ پر چلیں تو وہ اپنے آپ کو چار چاند لگا لیں گے۔ میں نے افغانستان‘ ایران اور پاکستان میں رہتے وقت رمضان کے دنوں میں ایسے روزے رکھے‘ جن میں‘ میں نے سحری بھی نہیں کی اور چوبیس گھنٹوں میں معمولی ریفریش منٹ کی اور تھوڑا پانی پیا۔ صرف افطار کیا۔ میرے مسلم میزبانوں کو میں نے بتایا کہ ہندوستان میں ایسے فرقے بھی ہیں‘ جن میں لوگ ہفتوں تک صرف پانی ہی پیتے ہیں اور کچھ بھی نہیں کھاتے۔ کبھی کبھی وہ پانی پینا بھی بند کر دیتے ہیں۔ عبادت ایسی ہی ہوتی ہے۔ دوسروں کو مارنا نہیں ‘خود کو تکلیف بھی دینی پڑتی ہے۔
بھلا‘ دو کروڑ کیا ہوتے ہیں؟
دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجری وال اور ان کی عآپ پارٹی‘ دونوں ہی دن بدن کیچڑ میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ اب ان کے ایک وزیر رہے ساتھی‘ کپل مشرا نے ہی ان پر دو کروڑ روپیہ کی رشوت لینے کا الزام لگا دیا ہے۔ یہ الزام اپنے آپ میں عجیب ہے۔ ایک اور وزیر ستیندر جین‘ اپنے وزیر اعلیٰ کو رشوت کیوں دیں گے؟ جین پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے وزیر اعلیٰ کے رشتے دار کا 50 کروڑ کا معاملہ حل کروایا ہے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ رشوت کا جو پیسہ اروند کے رشتہ دار نے جین کو دیا ہو گا‘ اس کا ایک حصہ جین نے اروند کو دے دیا۔ اگر یہ مشرا کی آنکھوں کے سامنے ہی ہوا تو مشرا نے اسی وقت بھانڈا کیوں نہیں پھوڑا؟ وزارت سے ہٹتے ہی انہوں نے منہ کیوں کھولا؟ اس سے ان کی بات پر بھروسہ کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ سیاست میں کروڑوں کا لین دین روزمرہ کی بات ہے۔ کون وزیر اعظم اور کون وزیر اعلیٰ ایسا ہے‘ جو سینہ ٹھوک کر کہہ سکے کہ وہ اپنے وزرا سے وصولی نہیں کرتا ہے؟ اگر آپ کو رشوت نہیں کھانی ہے‘ اگر آپ کو سچار ہریش چندر بنے رہنا ہے‘ اگر آپ کو صاف زندگی جینی ہے تو آپ سیاست میں جاتے ہی کیوں ہیں؟ اس کاجل کی کوٹھری میں سے آج تک کوئی بے داغ نکلا ہو تو اس کا نام بتائیے؟ بھرتری نے ہزار سال پہلے جو کہا تھا‘ وہ آج بھی سچ ہے کہ سیاست ایک طوائف کی طرح ہے‘ جس کی کئی تصاویر ہوتی ہیں۔ وہ ایک ساتھ سچ اور جھوٹ‘ میٹھا اور سخت بولتی ہے۔ وہاں سدا دھن برستا ہے اور سدا پانی کی طرح بہتا ہے۔ بھلا‘ دو کروڑ روپیہ کیا ہیں؟ مچھر بھی نہیں۔ مکھی بھی نہیں۔ کسی وزیر اعلیٰ پر دو کروڑ روپیہ لینے کا الزام لگانا تو اس کی سراسر بے عزتی ہے۔ کیا آپ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ وہ آدمی پستول سے مکھیاں مار رہا ہے؟ وہاں روز کروڑوں کے وارے نیارے ہوتے ہیں۔ پتا نہیں‘ لیڈر لوگ اس وارے نیارے پر پردہ کیوں ڈالے رہتے ہیں؟ اگر پارٹی کی بہتری کے لیے‘ سرکار کے بھلے کے لیے‘ ملک کی بہتری کے لیے وہ کسی سے پیسہ لے رہے ہیں تو اسے چھپانے کی ضرورت کیا ہے؟ لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ خود بھی اس امانت میں خیانت کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ پردہ ڈالے رہتے ہیں۔ پیسے کھانے کے لیے وہ غیر قانونی اور غلط کام کرتے رہتے ہیں۔ اسی لیے ان پر لگے الزام چاہے ثابت نہ ہوں‘ لیکن لوگ ان پر اعتماد کر نے لگتے ہیں۔ کجری وال بھی اسی گرفت میں آ جائے تو تعجب کیا؟