اس بار نریندر مودی نے جو 'دل کی بات ‘کہی ، وہ مجھے کام کی لگی ۔اس میں ایک نہیں ‘کام کی کئی باتیں تھیں۔سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ان کے تین برس کام کی تنقید کا انہوں نے خیر مقدم کیا ۔اس خیر مقدم میں جمہوریت کی جھلک ملتی ہے ۔اگر وہ اس کا خیر مقدم نہ کریں تو بھی ان کی تعریف اور تنقید ہو ہی رہی ہے ۔سارے اخباروں اور ٹی وی چینلوں پر بولنے والے سبھی لوگوں کے منہ پر تالا لگانا تو ممکن نہیں ہے ۔اس لیے اس خیر مقدم کا مطلب یہ بھی نکالا جائے گا کہ تنقید کرنے والے لوگ کچھ نرم پڑ جائیں لیکن اصلی تنقید تو وہ ہے ‘جو پارٹی اور سنگھ کے اندر ہوتی ہے ۔کیا وہ ہو رہی ہے ؟جہاں تک میری جانکاری ہے ‘وہ قریب قریب نہیں کے برابر ہے ۔نہ تو پارٹی کے لیڈرکھل کر بولتے ہیں ‘نہ وزیر لوگ اپنا منہ کھولتے ہیں اور نہ ہی سنگھ کے لیڈر اپنی بات کہہ پاتے ہیں ۔اسی لیے نوٹ بندی جیسے ادھ چکرے قدم اٹھ جاتے ہیں ۔ماحول دیکھ کر بڑے بڑے تیس مار خاں اینکر اور صحافی لوگ بھی ہکلاتے رہتے ہیں ۔کھری کھری کہنے والے لوگ بچے ہی کہاں ہیں ؟یہی مودی سرکار کا سب سے بڑا نقصان ہے ۔اپوزیشن کی بات پر کوئی بھروسہ ہی نہیں کرتا ۔اسی لیے مودی مزے میں ہیں۔تعجب ہے کہ تین برس میں ایک بار بھی انہوں نے پریس کانفرنس نہیں کی ۔کیا بحث مباحثہ میں یقین نہیں رکھتے صرف اپنی ہی دھن میں مگن رہتے ہیں ۔
اس بار مودی نے رمضان کو پاک کہا اور مبارک باد دی ‘اپنے آپ میں یہ بڑی بات ہے ۔یہی سچا ہندو یا بھارتی ہونا ہے ۔اس طرح ہر فیملی کی تین نسلیں یوگ کریں ‘یہ بڑی بات ہے ۔کام کی بات ہے ۔اگر لوگوں کے جسم تندرست رہیں تو ملک میں اربوں کھربوں روپیہ کی بچت اپنے آپ ہو جائے اور پیداوار کئی گنا بڑھ جائے ۔انہوں نے صفائی مشن کی بات کرتے ہوئے چار ہزار قصبوں اور شہروں میں کچرا ڈھونے کے لیے ڈبے رکھنے کی بات کہی ۔یہ لائق تعریف شروعات ہے ۔مودی نے 28 مئی (یوم ولادت )ویر ساورکر کو یاد کیا ‘یہ ان سب لوگوں کو خوش کرے گی جو ‘جو ملک کی آزادی میں انقلابی ہیروزکی قربانیوں کو انمول مانتے ہیں ۔مہارشی دیانند سرسوتی ‘اور لوک مانیہ بال گنگا دھر تلک کے خیالات سے متاثر ویر ساورکر نے لندن میں بیٹھ کر برٹش سرکار کی بنیادیں ہلا دی تھیں اور بھارت کو فرقہ واریت سے آزاد کرنے کا قومی نظریہ پیش کیا تھا ۔
یورپ میں ٹرمپ اور مودی
پہلے ٹرمپ اور اب مودی یورپ پہنچ گئے ہیں ۔ٹرمپ اور مودی میں کئی برابرکی باتیں ہیں لیکن مجھے یقین ہے کہ یورپ میں مودی کا کردار ٹرمپ کے مقابلے میں بہتر ہوگا ۔ٹرمپ نے اپنی تقاریر میں نیٹو ممالک کو ہڑکا دیا ہے ۔انہوں نے نیٹو ممالک سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ امریکہ آپ کی حفاظت کا بوجھ کب تک ڈھوتا رہے گا ؟آپ اپنی اکانومی کا دو فیصد بھی خرچا نہیں کرتے ‘اور سارا بوجھ امریکہ پر ڈال رکھا ہے ۔ٹرمپ شاید جانتے نہ ہوں یا بھول گئے ہوں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد 'نیٹو‘ نام کے اتحاد کا جنم داتا امریکہ ہی تھا ۔سوویت روس کے جوزف سٹالن سے ڈر کے امریکہ نے اپنا یہ بکتر کھڑا کر لیا تھا ۔ٹرمپ نے جرمنی میں یہ بھی کہہ ڈالا کہ ہم آپ کی کاروں کا امریکہ میں ڈھیر نہیں لگنے دیں گے یعنی یورپین ممالک کو ٹرمپ نے تجارتی دھمکی بھی دے دی ہے ۔اٹلی کی جی 7 کی بیٹھک میں ٹرمپ نے پیرس کے آب وہوا معاہدہ کو بھی رد کر دیا ہے ۔یورپ کی دلی کیفیت آج کیا ہے ۔‘اس کا پتا جرمنی کی چانسلر انگیلا مرکل کے اس بیان سے چل جاتا ہے کہ ہم اب مکمل طرح سے باہری عناصر پر مدار نہیں رکھ سکتے یعنی اب یورپ کو امریکہ کی بیساکھی چھوڑنے کے لیے تیار رہنا پڑے گا ۔آجکل یورپ پہنچے ہوئے امریکہ کے سابق صدر اوباما کاجتنا زبردست استقبال ہورہا ہے ‘اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ٹرمپ کی جانب یورپ کا رویہ کیا ہے ۔
ایسے میں پہلے مودی اور ان کے فوراًبعد چینی وزیر اعظم کا جرمنی پہنچنا بہت معنی رکھتا ہے ۔امریکہ کے ذریعے خالی کی جگہ کو اب 'مشرق ‘کے یہ دو ملک بھر سکتے ہیں ۔یورپ اور بھارت کی مجبوریاں ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے نزدیک آئیں ‘کیوں کہ امریکہ روس اور چین کاثالثی تعلقات عالمی سیاست میں ابھر رہا ہے ۔ میںاسے 'مقابلے کے ساتھ ساتھ تعاون ‘تعلق کہتا ہوں ۔ اس نئی دوڑ میں بھارت کو اپنے مفادات کی حفاظت کرنی ہے ۔اس نظریہ سے مودی کے دورہِ یورپ کی خاص اہمیت ہے ۔'شنگھائی تعاون کونسل ‘میں 15 جون سے بھارت اور پاکستان بھی شامل ہو جائیں گے ۔اس دورہِ ماسکو کے دوران مودی کو پیوٹن سے کہہ کر یہ دیکھنا ہو گا کہ شنگھائی کونسل بھی کہیں 'سارک ‘کی طرح نیا اکھاڑا نہ بن جائے !چین چاہے تو بھارت اور پاک کے تعلقات میں نرمی لا سکتا ہے لیکن بھارت کی جانب اس کی اپنی نظر تو سیدھی ہو ۔ایسے میں یہی پہل بچی رہتی ہے کہ یورپی اور ایشیائی ممالک کے ساتھ دوطرفہ سطح پر بھارت اپنے تعلقات گہرے بنائے ۔
لال کرشن ایڈوانی جی کو بنائیں صد ر
لال کرشن ایڈوانی ‘مرلی منوہر جوشی ‘اوما بھارتی وغیرہ پراب 25 برس بعد پھر مقدمہ چلا ہے ‘بابری مسجد توڑنے اور فرقہ واریت فساد پھیلانے کے لیے !اس مرے ہوئے مقدمہ کو زندہ کس نے کیا ہے ‘سی بی آئی عدالت نے !سی بی آئی کو کون چلاتا ہے ؟سرکار چلاتی ہے ۔سپریم کورٹ نے اس عدالت کو دو برس کی مہلت دی ہے لیکن دو سال سے پہلے ہی بھارت کے دو بڑے چنائو نمٹ جائیں گے ۔ایک صدارتی انتخاب اور دوسرا نائب صدر کا ۔صدر کا تو اگلے دوماہ میں ہی نمٹنا ہے ۔اپوزیشن پارٹیاں ابھی بھی اوما بھارتی سے استعفیٰ مانگ رہی ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اتنے سنگین الزامات میں ملوث خاتون ‘وزیر کیسے رہ سکتی ہیں ؟اگر کوئی ان الزامات کے سبب وزیر نہیں رہ سکتا تو وہ پھر صدر اور نائب صدر بھی نہیں بن سکتا ۔مطلب ایڈوانی اور جوشی کے ساری مواقع ختم !
یہ نریند رمودی کے سامنے اب تک سب سے بڑاچیلنج ہے ۔بھارت کا کوئی قانون کسی ملزم کو کوئی بھی چنائو لڑنے سے نہیں روک سکتا ۔اگر ایڈوانی اور جوشی ‘دونوں صدر اور نائب صدر کافارم بھریں تو انہیں کون روک سکتا ہے ؟یہیں مودی کا امتحان ہوگا ۔مودی کا یہ فرض بنتا ہے وہ اپنے ان لیڈروں کو سپریم عہدوں پر فائز کروائیں ۔دونوں ہی ان عہدوں کے لیے لائق ہیں ۔انہیں عہدے دے کر قرض بھی چکائیں گے ۔مودی کویاد ہوگا کہ 2002 ء میں گجرات میں راج دھرم کی حکم عدولی پر وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی انہیں گوواکے بھاجپا کانفرنس میں وزیر اعلیٰ کے عہدہ سے ہٹانا چاہتے تھے لیکن انہیں بچایا کس نے ؟لال کرشن ایڈوانی جی نے !اگر مودی احسان فراموش انسان نہیں ہیں تویہ موقع ہے کہ وہ اسے ثابت کریں ۔اس میں ان کی شان بھاجپا اور سنگھ کے کارکنان کے بیچ چمکے گی ۔خود مودی کو بڑا آدمی بننے کا موقع ملے گا ۔بڑی کرسی میں بیٹھنے سے کوئی بڑا آدمی نہیں بن جاتا ‘بڑے کام کرنے سے بڑا آدمی بنتا ہے ۔صدر کے چنائو کے عین موقع پر اس مقدمہ میں ایڈوانی جی اور جوشی جی کو پھنسانے کے کئی ناپسند مطلب نکالے جائیں گے ۔ان سب شک و شبہات سے نجات پانے کا یہی طریقہ ہے کہ ان دونون بے داغ ‘تجربہ کا ر اور بزرگ لیڈروں کو ان کے لائق عہدوں کا امیدوار بنا دیا جائے ۔