"DVP" (space) message & send to 7575

بڑے کسانوں کی بڑی لوٹ

ملک میں کسان تحریک اتنی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ صوبائی سرکاریں ایک کے بعد ایک کھیتی پر دیے قرضوں کو معاف کرنے کے اعلان کر رہی ہیں۔ دوسری کمیشن کی رائے ہے کہ کاشت پر انکم ٹیکس لگایا جانا چاہیے ۔ ایک طرف سرکاریں کسانوں کو کچھ دینا چاہ رہی ہیں اور دوسری طرف وہ ان سے کچھ لینا بھی چاہ رہی ہے۔ یہ آپسی مخالف پالیسی عجیب سی لگتی ہے لیکن اگر آپ تھوڑے گہرے اتریں تو ان دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
کسانوں پر انکم ٹیکس اس لیے نہیں لگایا جاتا‘کیونکہ وہ غریب ہوتے ہیں ‘ان کی انکم موسم کے سبب طے ہوتی ہے اور مزدوروں اور ملازمین کی طرح متفق نہیں ہوتے لیکن 'انفارمیشن ‘کے تحت ابھی جو تازہ ترین جانکاری سامنے آئی ہے ‘ اسے پتا چلتا ہے کہ کاشت کے نام پر کتنی بدعنوانی چل رہی ہے۔ 2012 ء میں ایسے آٹھ لاکھ بارہ ہزار کرداتا تھے ‘جنہوں نے اپنی کاشت کی انکم اوسطاًفی فرد 83 کروڑ روپیہ بتائی یعنی لگ بھگ سات کروڑ روپیہ مہینہ ان آٹھ لاکھ سے زیادہ کسانوں کی کل انکم بنتی ہے۔ لگ بھگ 675 لاکھ کروڑ روپیہ یہ انکم ٹیکس سے فری تھی ‘کیوں کہ اسے کاشت کی انکم بتائی گئی تھی۔ 2012ء میں گھریلو انکم (جی ڈی پی)تقریباً سولاکھ کروڑ روپیہ تھی ۔یعنی ان 'بڑے کسانوں‘نے جی ڈی پی سے پونے سات گنا کالادھن پیدا کیا ۔اگر تازہ آنکڑہ سرکار بتائے تو یہ کالا دھن اب اور بھی زیادہ ہوگا۔یہ قانوناًٹیکس فری ہے ۔یہ کھلی لوٹ پاٹ نہیں تو کیا ہے ؟اس میں کئی انڈسٹریل‘دولتمند ‘لیڈر اور نوکر شاہ شامل ہیں ۔انہوں نے جگہ جگہ اپنے چھوٹے موٹے فارم ہائوس بنا رکھے ہیں ۔یہ عیش وآرام کے اڈے ہوتے ہیں ۔وہاں کچھ کھیتی اور باغبانی کا ناٹک بھی رچ لیا جاتا ہے ۔ اگر کمیشن ان کسانوں کا چولا پہنے ہوئے پنکھڑیوں پر ٹیکس لگوا دے تو آپ ذرا اندازہ لگائیے کہ سچ مچ کے کسانوں کو سرکار کتنا فائدہ پہنچا سکتی ہے ۔ آج بھارت کے کسانوں کی اوسط آمدنی سوکروڑ روپیہ روزبھی نہیں ۔ سرکار نہ صرف ان کے قرض معاف کر سکتی ہے بلکہ ان کے لیے آبپاشی ‘بیج اور کھاد بھی مناسب دام پر مہیا کرواسکتی ہے ۔اضافی فصل کے جمع کرنے کا انتظام بھی آسانی سے ہو سکتا ہے لیکن یہ سب تبھی ہو سکتا ہے جب سرکار کی سوچ طاقتور ہو اور سرکاری کچھ کرنے پر آمادہ بھی ہو۔ خالی باتوں سے کام چلنے والا نہیں۔ جنتا بہت سمجھدار ہے اور سرکاری کی ایسی بھول بھلیوں سے خوب واقف ہو چکی۔اب لوگوں کو بے وقوف بنانا اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونکنا آسان نہیں رہا۔ سب سمجھدار ہو گئے ہیں۔
مودی ٹرمپ کیمسٹری جم جائے تو بہتر 
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی اب پہلی بار سرکاری دورہ کریں گے۔اوباما کے زمانے میں وہ تین بار امریکہ ہو آئے ہیں اوربارک اوباما سے آٹھ بار مل چکے ہیں نریندر مودی اور بارک اوباما کے درمیان کیمسٹری اتنی زبردست ہو گئی تھی کہ مودی انہیں ان کے پہلے نام' بارک ‘سے بلاتے تھے لیکن ہمیں شک ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ بھی ان کا تال میل اسی مقام کا ہو جائے گا ‘حالانکہ اپنے چناوی مشن کے دوران ٹرمپ نے بھارتی نژاد امریکیوں کے ایک جلسہ میں بھارت اور مودی کی تعریف کے پل باندھ دیے تھے ۔لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کا کچھ بھروسہ نہیں ہے۔ انہوں نے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور پاکستانی عوام کے لیے اس سے بھی زوردار جذباتی الفاظ کا استعمال کیا تھا ۔ٹرمپ کی پالیسی کس معاملے میں کیا ہے ‘ ٹھیک ٹھاک بتانا مشکل ہے ۔وہ کب کون سا پلٹا کھا جائیں گے‘کچھ پتا نہیں چلتا۔ ان کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کب کیا کر جائیں۔ان کے بارے میں یہی پکا ہے کہ کچھ بھی پکا نہیں ہے ۔
اس لیے مودی کا یہ دورئہ واشنگٹن کتنا کامیاب ہوگا ‘اس کے بارے میں کچھ اندازہ ہی لگا سکتے ہیں۔یہ مان کر چلا جا سکتا ہے کہ گزشتہ آٹھ دس سال میں بھارت اور امریکہ کے بیچ یا یوں کہیں کہ دو دنیا کے دو سب سے بڑی جمہوریت والے ملکوں کے بیچ دوستی بڑھتی رہی ہے ‘اس کے بڑھتے رہنے کے آثار کم ہی ہیں‘ کیونکہ ٹرمپ ایک ایسے صدر ہیں ‘ جو امریکہ کو اندر تک ہی محدودو کرنے میں تلے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے امریکہ کے پڑوسی ملکوں کینیڈا اور میکسیکو کو دھمکا دیا ہے ‘امریکہ کے فوجی اتحادملک نیٹو کے کان کھڑے کر دیے ہیں اور عالمی دہشت گردی کے سوال پر بھی وہ غیر متحرک ہیں وہ صرف ان دہشت گردوں کو ہڑکا رہے ہیں ‘جن سے امریکہ کو خطرہ ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ انہوں نے اپنے دؤرہ سعودی عرب میں دہشت گردی سے متاثر بھارت کا نام ضرور لیا ۔لیکن اس دہشت گردی سے نجات دلانے کے بارے میں وہ کچھ نہیں بولے ۔
بلکہ مجھے تو الٹا ہی لگتا ہے ۔انہوں نے ابھی سعودی عرب‘ مصر‘ متحدہ عرب امارات اور بحرین وغیرہ جیسے ملکوں نے قطر پر جو پابندیاں لگائی ہیں ‘ان کی حمایت کر دی ہے ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ گھوما پھرا کر وہ کسی کے حمایتی بن گئے ہیں اور کسی کے مخالف۔وہ بھی اس لیے کہ ایران ‘قطر اور شام جیسے ملکوں کی سرکاروں سے ان کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہے ۔جبکہ سعودی عرب جیسے ملکوں سے سیکڑوں بلین ڈالر کے ادھر انہوں نے نئے سمجھوتے کر لئے ہیں ۔کیا دنیا کو یہ پتا نہیں ہے کہ شام میں دہشت گردی پھیلانے والی داعش کے پیچھے اصلی طاقتیں کون سی رہی ہیں ۔اوباما نے پیوٹن کے ساتھ ہاتھ ملا کر شام میں داعش کے خلاف فوجی مشن چلایا تھا ۔ لیکن جب سے ٹرمپ صدر بنے ہیں ‘وہ مشن ٹھنڈا پڑ گیا ہے ۔وہ ڈونلڈ ٹرمپ جس ملک کو عالمی دہشت گردی کا بابا کہتے تھے‘اسے نیویارک کے ٹریڈٹاور پر حملے کا ذمہ دار بتاتے تھے اور اسے سبق سکھانے کا دم بھرتے تھے ‘وہ اپنے پہلے دورہ پر گئے تو کہاں گئے ؟اوباما نے یورپی ملکوں کے ساتھ مل کر ایران کے ایٹمی مسئلہ کو حل کیا تھا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے پھر سے ایران کے خلاف کمر کسنی شروع کر دی ہے ۔ ان حقیقتو ں کو دیکھ کر مجھے نہیں لگتا کہ اس دورہ کے دوران مودی کوئی ٹھوس تسلی لے کر امریکہ سے لوٹیں گے ‘ جو جنوب ایشیا کو دہشت گردی سے نجات دلوا سکیں ۔ان کی یہ کوششیں دہشت گردی کی کمر نہیں توڑ سکیں گی کیونکہ یہ کوششیں کمزور پڑ رہی ہیں۔
اس واشنگٹن دورہ کے دوران مودی کی کوشش یہی ہونی چاہیے کہ بھارت امریکہ کے دونوں طرف کے تعلقات میں کوئی تنازع پیدا نہ ہو۔ امریکہ میں مقیم بھارتی شہریوں کے ایچ ون بی ویزاکے سوال پر مودی کو کافی مشقت کرنی پڑے گی ۔وہ 37 فیصد کم کر دیے گئے ہیں ۔اب لگتا ہے کہ لگ بھگ پانچ لاکھ بھارت شہری امریکہ چھوڑنے کے لیے مجبور ہوجائیں گے ۔اسی طرح بھارت اور امریکہ ایٹمی سمجھوتہ پر ابھی تک کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا ہے ‘جبکہ من موہن نے یہ سمجھوتہ کرتے وقت پارلیمنٹ میںطوفانی مخالفت کا سامنا کیا تھا ۔ہتھیاروں کے بھی کئی معاملے بیچ میں لٹکے ہوئے ہیں ۔امریکہ سے 6500 کروڑ کا ہیلی کاپٹر خرید کا سودا بھارت نے ابھی ابھی رد کیا ہے۔ بھارت امریکہ تجارت ابھی تھم سی گئی ہے ۔اگر اسے ہی تیز رفتاری مل سکے تو یہ دورہ کامیاب مانا جائے گا ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں