"DVP" (space) message & send to 7575

پرنب دا کو مودی کا تحفہ

بھارت کے صدر اور وزیر اعظم کے باہمی تعلقات اتنے اچھے رہے ہوں‘ جتنے پرنب مکھرجی اور نریندر مودی کے رہے ہیں‘ ایسا نہ تو میں نے کبھی پڑھا‘ نہ سنا اور نہ ہی جانا۔ پرنب دا پر شائع ہوئی ایک تصویری کتاب کا افتتاح کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہا کہ ان کے اور پرنب دا کے تعلقات باپ بیٹے کی طرح رہے ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں صدر اور وزیر اعظم کے بیچ کوئی ایسی بحث نہیں ہوئی‘ جیسی ڈاکٹر راجندر پرشاد اور نہرو‘ ڈاکٹر رادھا کرشنن اور نہرو کے درمیان ہوا کرتی تھی۔ گیانی ذیل سنگھ اور راجیو گاندھی کے بیچ تو لمبی تنا تنی چلتی رہی۔ پرنب دا اور مودی کے بارے میں یہی سمجھا جا رہا تھا کہ دونوں کی کیسے پٹے گی؟ زندگی بھر ایک کانگریس کے لیڈر رہے ہیں اور دوسرے بھاجپا کے! ایک شمالی ہے تو دوسرا جنوبی! دونوں عادات کے ضدی ہیں اور دونوں کے بارے میں ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ دونوں مغرور اور اکڑ باز ہیں لیکن اس کتاب کی افتتاحی تقریب میں دونوں کی تقریر سے یہ غلط فہمی ایک دم دور ہو گئی ہے۔ پرنب دا نے کہا کہ مودی سرکار سے میری رائے کچھ مدعوں پر ضرور مختلف ہوئی لیکن گاڑی کبھی اٹکی نہیں۔ میں نے اپنی رائے صاف صاف ظاہر کی تو وزیر اعظم اور ان کے وزرا نے مجھے بھی مکمل مطمئن کرنے کی کوشش کی۔ جیسے نوٹ بندی اور بار بار بل جاری کرنے پر میں نے خبردار کیا۔ مودی نے کہا کہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ پرنب دا کی انگلی پکڑ کر وہ دلی کی زندگی میں جمے۔ مودی جیسے آدمی کی یہ بات ان کی شخصیت کے بے حد انجان اور خوبصورت پہلو کو اجاگر کرتی ہے۔ اگر ایسے ہی تعلقات وہ اپنے پارٹی بزرگوں اور ساتھی وزرا سے رکھیں تو وہ ایک کامیاب وزیر اعظم بن سکتے ہیں اور لمبے وقت تک اپنے عہدہ پر ٹک سکتے ہیں۔ پرنب دا اور مودی نے ایک دوسرے کے بارے میں جو کہا ہے‘ صدر اور وزیر اعظم کے بیچ اگر اسی طرح کے تعلقات بنے رہیں تو بھارتی آئین اور جمہوریت کو کوئی بڑا خطرہ ہونے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ کسی صدر کی رخصتی پر کسی وزیر اعظم کی طرف سے اس سے بہتر تحفہ کیا دیا جا سکتا ہے؟
ممتا بینرجی کرے خود کا نقصان 
گزشتہ دنوں میںکولکتہ میں تھا۔ یہاں کے اخبار اور ٹی وی چینل بس ایک ہی خبر سے بھرے دکھائی پڑ رہے ہیں وہ ہے گورنر اور وزیر اعلیٰ کی مٹھ بھیڑ۔ گورنر کیسری ناتھ ترپاٹھی اور وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی کے بیچ کھلے عام جو دنگل چل پڑا ہے‘ وہ کئی صوبوں میں پہلے چلے دنگلوں کی یاد دلا رہا ہے۔ ممتا نے ایک تقریر میں الزام لگایا ہے کہ ترپاٹھی نے فون کر کے انہیں ڈانٹا اور انہیں دھمکی دی۔ انہوں نے اتنے برے ڈھنگ سے بات کی کہ ممتا کا دل استعفیٰ دینے کو ہونے لگا۔ ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میں نے تو ان سے صرف یہ کہا تھا کہ چوبیس پرگنہ کے بدریا گائوں میں فرقہ واریت تنائو کو قابو کریں۔ وہاں سے بہت شکایات آرہی ہیں۔ وہ ذات‘ مذہب‘ فرقہ کا خیال کیے بنا مجرموں کے خلاف کارروائی کریں۔ گورنر کے ردعمل سے ناراض ہو کر ترن مول کانگریس کے لیڈر ان پر الزام لگا رہے ہیں کہ انہوں نے گورنر ہائوس کو بھاجپا اور سنگھ کا دفتر بنا دیا ہے۔ کسی نامزد گورنر کو‘ عوام کے ذریعے چنے ہوئے وزیر اعلیٰ کو ہڑکانے کا کیا حق ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ اس گورنر کو برخاست کرو۔ وہ پانڈی چری کی نائب گورنر کرن بیدی کو بھی برخاست کرنے کی مانگ کر رہی ہے‘ کیوں کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ کو بتائے بنا ہی بھاجپا کے تین لوگوں کو نامزد کر کے ایم ایل ایز کا حلف دلوا دیا۔ مارکس وادی پارٹی مغربی بنگال کے گورنر اور وزیر اعلیٰ دونوں کو برخاست کرنے اور صدارتی نظام کی مانگ کر رہی ہے۔ یہ سب مانگیں ہماری جمہوریت کو کمزور کرنے والی ہیں۔ اس معاملے میں سب سے بہتر کردار وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نبھا رہے ہیں۔ انہوں نے گورنر اور وزیر اعلیٰ‘ دونوں کو صبر کی تلقین کی ہے۔ بہار میں رام ناتھ کووند نتیش کے جیسے میٹھے تعلقات رہے ہیں‘ ویسے سبھی صوبوں میں کیوں نہیں رہ سکتے؟ اگر ترپاٹھی جی نے کچھ سخت الفاظ کا استعمال کر دیا ہو تو بھی ممتا کو انہیں سر عام لانے کی کیا ضرورت تھی؟ ایسا کرکے انہوں نے اپنا نقصان خود کیا ہے۔ ووٹوں کی تبدیلی اب تیزی سے ہو گی۔ پورے صوبہ میں ہندو زیادہ ہیں یا مسلم؟ اکیلے چوبیس پرگنہ میں ہندو ایک کروڑ ہیں۔ اور مسلم صرف پچیس لاکھ! اس میں شک نہیں کہ اس حالت کو قابو کرنے میں ممتاجی پوری مستعدی دکھا رہی ہیں۔ لیکن وہ اس جھگڑے کا فائدہ نہ چاہتے ہوئے بھی بھاجپا کو دے رہی ہیں۔ 
مودی کا دورہ اسرائیل 
وزیر اعظم نریندر مودی کا حالیہ دورہِ اسرائیل تاریخی ہے۔ تاریخی اس لیے ہے کہ جس ملک کے ساتھ گزشتہ 70 برسوں سے ہمارے کھلے اور خفیہ تعلقات رہے ہیں‘ وہاں جانے کی ہمت اگر پہلی بار کسی وزیر اعظم نے کی تو وہ ہے نریندر مودی! مودی سے پہلے نرسمہا رائو نے بھی دورہِ اسرائیل کا منصوبہ بنایا تھا لیکن پچیس برس پہلے کے بھارت اور جنوب ایشیائی سیاست کی شکل کچھ ایسی تھی کہ وہ نہ جا سکے تاہم انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کرکے بھارتی خارجہ پالیسی میں نیا باب لکھا۔ مودی کے اس جذبہ کی تعریف کرنی ہو گی کہ انہوں نے ساری جھجک چھوڑ کر دورہِ اسرائیل کا فیصلہ کیا۔ مودی کا یہ قدم نرسمہا رائو کی پالیسیوں کا نقطہ عروج ہے‘ ساتھ ساتھ سنگھ اور جن سنگھ کی اسرائیلی پالیسی کو بھی عملی جامہ پہنایا گیا ہے۔ اسرائیل نہ جانے کے پیچھے دو دلائل تھے‘ ایک تو بھارت کے مسلمانوں کا ناراض ہونا اور دوسرا عرب ممالک سے ہمارے تعلقات میں تنائو پیدا ہونا! وہ معاملہ علاقے کا ہے‘ زمین کا ہے۔ فلسطینی لوگ کٹر فرقہ پرست نہیں ہیں‘ جبکہ اسرائیل قائم کرنے والے کچھ بڑے لیڈر کمیونسٹ تھے۔ بھارت کے مسلمان کشمیری مسلمانوں کی حمایت نہیں کرتے تو وہ فلسطینیوں کے لیے کیوں پریشان ہوں گے؟ اسی طرح عرب ممالک کے اپنے مقاصد ہیں۔ اگر وہ اسرائیل سے اچھے تعلقات بنانے والے ملکوں سے دشمنی کرنے لگیں تو ان کا جینا حرام ہو جائے گا۔ امریکہ تو اسرائیل کا سب سے بڑا محافظ ہے۔ پھر بھی سعودی عرب‘ اُردن‘ کویت‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات وغیرہ نے امریکہ کے ساتھ گہری دوستی کیوں بڑھا رکھی ہے؟ اس لیے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کا بھارت کا ڈر بے بنیاد تھا۔
اسرائیل نے مودی کا شاندار استقبال پوپ کی طرح کیوں کیا؟ ظاہر ہے کہ اسرائیل کے 41 فیصد ہتھیاروں کی خریداری بھارت کرتا ہے۔ بھارت اس کا ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اب دونوں کے بیچ 17 ہزار کروڑ روپے کے سودے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ بھی مودی سے تین بار گلے ملے اور بینجمن نیتن یاہو بھی! مودی ان لیڈروں سے گلے نہ ملتے تو بھی ٹرمپ اور نیتن خود بڑھ کر مودی کے گلے لگ جاتے۔ اسرائیل اپنا مفاد دیکھ ہی رہا ہے لیکن بھارت کا فائدہ بھی کم نہیں ہے۔ اسرائیل سے بھارت کو جدید ہتھیار تو ملیں گے ہی‘ دہشت گردوں کی کمر توڑنے کی پلاننگ بھی ملے گی۔ کاشت‘سینچائی‘ پانی کی بچت وغیرہ شعبوں میں انمول تکنیک بھی بھارت کو آسانی سے مہیا ہو جائے گی۔ اسرائیل سے بھارت کی نزدیکی کا یہ مطلب نہیں کہ فلسطینیوں کی جانب بھارتی پالیسی میں کوئی بنیادی تبدیلی ہو گی۔ حقیقت میں بھارت اسرائیل کی دوستی مسئلہ فلسطین کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں