گزشتہ روز میں کانپور کے تلسی باغ میں تھا۔ اس باغ کو تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ اب سے چھتیس برس پہلے اس باغ کو پنڈت بدری نارائن تیواری نے لگایا تھا۔ مہان شاعر سنت تلسی داس کے تیواری جی اتنے دیوانے ہیں‘ ان کی عقیدت سے اتنے لبریز ہیں‘ ان کی محبت میں اتنے گم ہیں کہ اگر وہ شاہ جہاں ہوتے تو تلسی کی یاد میں ایک نیا تاج محل کھڑا کر دیتے لیکن یہ تلسی باغ ایک معنی میں ہندی زبان بولنے اور اس سے محبت رکھنے والوں کا تاج محل ہی ہے۔ جہاں تک میرا دھیان جاتا ہے اور جو میرا اس باغ کے بارے میں تجزیہ اور رائے ہے‘ ہندی کا ایسا عجب دیدار دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ ایسا نمونہ اور کوئی نہیں۔ کنول کے پھول پر تلسی داس جی کی مورت ہے۔ اس بڑے اور پُرکشش باغ میں تلسی کی مورت کے ساتھ ساتھ ہندی کے مشہور اطالوی عالم پیو تیسی توری‘ روسی عالم وارنی کوف اور بیلجیم کے فادر کامل بُلکے کے سٹیچو بھی لگے ہوئے ہیں۔ ان تینوں بیرونی ملکوں کے عالموں نے رامائن پر زبردست کام کیا ہے۔ بھارت میں ان کے کام کی بڑی قدر کی جاتی ہے۔ اپنی اپنی زبانوں میں انہوں نے رام کہانی کا ترجمہ تو کیا ہی ہے۔ ہندی کے ان خدمت گاروں اور ہندی کو فروغ دینے والوں کو آج کون یاد کر رہا ہے؟ ڈاکٹر بلکے کے ساتھ کئی پروگراموں میں ایک ساتھ بولنے کا مجھے موقع بھی ملا ہے۔ ان پروگراموں کی یادیں اب بھی ذہن کے نہاں خانوں سے جھلک رہی ہیں۔ مجھے وہ لمحے آج بھی پوری طرح یاد ہیں۔ ڈاکٹر بلکے کی موت دلی میں ہی ہوئی تھی۔ ان کی آخری رسومات ہم نے خان مارکیٹ والے قبرستان میں ہی کی تھیں۔ میں ان کی آخری رسومات میں بھی شریک رہا۔ ہم سبھی بھارتی زبانوں کی قدر کریں تو ہندی اپنے آپ آئے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ محض بھارت میں بولی جانے والی زبانوں کی ہی نہیں بلکہ دوسرے علاقوں میں بولی جانے والی زبانوں کی بھی۔ انگریزی زبان سے ہمیں کوئی دشمنی نہیں ہے لیکن اس کے اتنے بڑے اثر کو مٹانے کے لیے سارے ملک کو کمر کسنا ہو گی۔ سبھی ملک جو عظیم قوتیں بنی ہیں‘ اپنا کام اپنی زبان میں کرتے ہیں۔ چین اور جاپان کی مثالیں اس حوالے سے پوری دنیا میں دی جاتی ہیں۔ اور بھی ملک ایسے ہیں‘ جہاں مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں اور انگریزی سکیھنے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ آج ملک میں انگریزی مٹائو نہیں‘ انگریزی ہٹائو تحریک کی زبردست ضرورت ہے۔ پروگرام میں موجود سبھی، سینکڑوں لوگوں نے اپنے دستخط سدا ہندی میں کرنے کا عزم کیا۔ یہ ایک اچھا عزم ہے لیکن اس کو آگے بڑھاتے ہوئے ہمیںدوسری زبانوں کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔
دوکلام کا کیا ہوا؟
بھارت چین سرحد پر چل رہے تکرار پر ہمارے قومی دفاعی صلاح کار اجیت ڈوبھال کو کتنی کامیابی ملی‘ اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس حوالے سے بھارت سرکار بھی چپ ہے اور چین سرکار بھی۔ تین دن پہلے ڈوبھال جب چین جا رہے تھے تو کہا جا رہا تھا کہ وہ دوکلام پر چینی لیڈروں سے بات کریں گے۔ یہ خبر نشر کی گئی کہ چین کے صدر شی چن پنگ سے بھی ملیں گے۔ اسی وقت میں نے لکھا تھا کہ ڈوبھال دوکلام کے لیے چین نہیں جا رہے ہیں بلکہ وہ برکس کی بیٹھک کے لیے جا رہے ہیں۔ اب پتا نہیں اصل معاملہ کیا ہے۔ پانچ ملکوں کے اس اتحاد کا سالانہ اجلاس چین میں ستمبر میں ہونے والا ہے۔ اسی کی تیاری بیٹھک سے چینی صدر نے خطاب کیا۔ اسی دوران وہ پانچوں ملکوں کے دفاعی مشیروں سے ملے۔ کیا اس وقت ڈوبھال نے ان سے دوکلام کی بات چھیڑی ہو گی؟ یہ
ٹھیک ہے کہ ڈوبھال سفارتی ماہر نہیں ہیں لیکن وہ تجربہ کار اور عقل مند آدمی ہیں۔ وہ ایسی غلطی کبھی نہیں کر سکتے۔ اکیلے میں شی چن پنگ سے ان کی ملاقات ہوئی ہی نہیں۔ ہاں‘ ان کی اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات ضرور ہوئی۔ یانگ بھارت چین سرحدی تنازع پر پہلے سے ڈوبھال سے بات کرتے رہے ہیں۔ یانگ سبھی پانچوں مشیروں سے ملے ہیں۔ پتا نہیں کہ ڈوبھال سے انہوں نے دوکلام پر بات کی یا نہیں؟ اب بھی چین کی ضد یہ ہے کہ وہ بھارت سے بات تبھی کرے گا‘ جبکہ دوکلام پٹھار سے وہ اپنی فوج ہٹائے۔ یعنی ڈوبھال کے اس دورہِ چین کے باوجود دوکلام مسئلہ وہیں کا وہیں ہے۔ چین کے ایک سرکاری اخبار نے ڈوبھال کو دوکلام کا ذمہ دار بتایا تھا۔ ڈوبھال نے دہشت گردوں کے خلاف برکس ممالک سے ایک ہونے کی زوردار اپیل ضرور کی لیکن وہ اگر آپسی تکرار ی مدعوں کا امن سے حل نکالنے کی بات بھی کر دیتے تو اچھا رہتا۔ جیسے میں نے گزشتہ ہفتے مشورہ دیا تھا‘ یہ صحیح وقت ہے جبکہ ہمارے خارجہ سیکرٹری ڈاکٹر جے شنکر کو دوکلام کے لیے چین جانے کی چوپڑ بچھانی چاہیے‘ ورنہ ستمبر میں ہونے والے برکس اجلاس میں نریندر مودی کا چین جانا کافی مشکلات کھڑی کر سکتا ہے اور اگر اس سلسلے میں اقدامات نہ کئے گئے تو بھارت اور چین کے مابین جو جنگی صورتحال بنی ہوئی ہے اس حوالے سے معاملات مزید کشیدگی کی طرف جانے کا احتمال رہے گا۔
نواز کی تیسری بے دخلی
پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو پہلے مشرف نے بے دخل کر دیا اور اب عدالت نے انہیں اپنے اثاثے چھپانے کے جرم میں نااہل قرار دے دیا ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ کے پانچوں ججوں نے متفقہ رائے سے نواز شریف کو مجرم ٹھہرایا ہے۔ ان پر یہ مقدمہ 'پناما پیپرز‘ کو لے کر چلا تھا۔ اپنے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز اور بیٹی مریم کی بیرونی ممالک میں بے شمار دولت کا ٹھیک ٹھیک حساب وہ نہیں دے سکے تھے۔ پاکستان کی عدالت کی تعریف کرنی ہو گی کہ وہ پرویز مشرف جیسے جنرل اور نواز شریف جیسے ہر دلعزیز لیڈر کے بھی دبائو میں نہیں آئی۔ مشرف کے خلاف ججوں اور وکلا نے زبردست تحریک چلائی تھی۔ نواز شریف تو پاکستان میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے لیڈر رہے ہیں۔ 2013 میں ہونے والی الیکشن میں بھی ان کی جماعت نے بھاری کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کے خوبی یہ بھی ہے کہ اپنے پہلے ''تختہ پلٹ‘‘ کے کئی برس بعد جب وہ پاکستان لوٹے تو پھر چنائو جیت گئے‘ حالانکہ انہوں نے اس دوران کم و بیش سات برس سعودی عرب اور لندن میں گزارے تھے اور ملک میں ان کی جماعت کی سیاسی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان میں بدعنوانی کوئی بڑا مدعا ہے۔ بھارت میں بھی بوفورس کے باوجود کانگریس پھر لوٹ آئی تھی۔ لالو پرساد یادیو جیل کی ہوا کھانے کے بعد اپنے پارٹی کو بہار میں جتوا لائے۔ اب نواز شریف اگر زندگی بھر کے لیے الیکشن لڑنے سے محروم کر دیے گئے ہیں تو بھی وہ پاکستان کے سب سے طاقتور لیڈر بنے رہ سکتے ہیں۔ اب جو بھی وزیر اعظم کی کرسی میں بیٹھے گا‘ وہ ان کی مرضی سے ہی بیٹھے گا۔ اس میں شک نہیں کہ نواز شریف اور سرتاج عزیز بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہش رکھتے تھے لیکن اب پاکستان کی سرکار کا باقی وقت اندرونی مسائل کو سلجھانے میں ہی خرچ ہو گا۔ عمران خان اور بلاول بھٹو کی کوشش ہوگی کہ وہ مسلم لیگ نواز کے خیمہ کو اکھاڑ دیں لیکن پنجاب کے لوگ ان سے کتنے متاثر ہوتے ہیں‘ یہ ابھی دیکھنا ہے۔ نواز اب وزیر اعظم نہیں ہوں گے لیکن ان کی مرضی کے بنا بھی آج کون وزیر اعظم ہو گا۔