بھارت میں ساری پارٹیاں بدعنوانی کو ختم کرنے کا وعدہ کرتی ہیں لیکن بدعنوانی کی سب سے گہری جڑ انہی سیاسی پارٹیوں میں رہتی ہے۔ ان سیاسی پارٹیوں کا چندا ہی سب سے بڑا دھندہ ہے۔ ساری پارٹیاں بڑی بے شرمی سے چندا حاصل کرتی ہیں۔ زیادہ تر چندے کا کوئی حساب نہیں ہوتا۔ وہ لیڈروں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ اسے میں نمبر تین کا پیسہ کہتا ہوں۔ نمبر ایک تو وہ ہے‘ جس کے لینے دینے کا پتا رہتا ہے۔ نمبر دو کا پیسہ وہ جو سرکار سے چھپا کر لیا اور دیا جاتا ہے‘ نمبر تین کا پیسہ وہ ہوتا ہے جو اپنے لیڈروں اور پارٹی سے چھپا کر ہضم کیا جاتا ہے۔ ابھی صرف ہم نمبر ایک پیسہ کی بات کر رہے ہیں۔ اب ذرا دیکھیں کہ تازہ آنکڑے کیا کہتے ہیں۔ گزشتہ چار برس (2012ء تا 2016ئ) میں ہماری سیاسی پارٹیوں کو جو ایک نمبر کا چندہ ملا‘ وہ 956.77 کروڑ روپیہ تھا جبکہ اس کے پہلے کے سات برسوں (2005ء تا 2012ئ) میں انہیں صرف 378.89 کروڑ روپے ملے۔ اس کا مطلب کیا ہوا؟ بھاجپا کو 768 کروڑ ملے یعنی بھاجپا نے چندہ داتائوں کا گلا جم کر دبایا۔ اس کا ایک دوسرا مطلب بھی ہے۔ بھاجپا نے زیادہ ایمانداری دکھائی۔ اپنے نمبر دو اور نمبر تین میں سے کٹوتی کر کے نمبر ایک میں زیادہ دکھایا لیکن سب سے ایماندار اور صاف پارٹی تو بہوجن سماج پارٹی نکلی‘ جس نے ایک پیسہ بھی دکھانے لائق پیش نہیںکیا۔ اس نے اپنا سارا چندہ بیس بیس ہزار میں بانٹ دیا یعنی بیس ہزار روپیہ تک کا چندہ دینے والے کا نام پتا بتانا ضروری نہیں ہے۔ جو نام پتے بتائے گئے ہیں ان میں سے کئی لوگوں کے فرضی ہیں یا غائب ہیں یا ادھورے ہیں۔ ان کے پین کارڈ یا آدھار کارڈ کے نمبر بھی نہیں ہیں۔ اب ذرا سوچیں کہ ہماری یہ پارٹیاں بدعنوانی کی اماں ہیں یا نہیں؟ ان پارٹیوں کے کرتا دھرتا اربوں روپیہ جن دھنا سیٹھوں سے کھاتے ہیں‘ ان کو اہمیت دیں گے یا غریب ووٹروں کو؟ جب تک ان پارٹیوں کے خرچے پر روک نہیں لگتی‘ چناوی جنگ سستی نہیں ہوتی اور عوام کے خادموں کے عیاشیاں نہیں گھٹائی جاتیں‘ بھارت میں بدعنوانی دندناتی رہے گی۔
علاج کے دام باندھو
گورکھپور میں ہوئے بچوں کے قتل عام پر سرکار کی کتنی ہی کرکری ہوئی ہو لیکن مرکزی سرکار نے گھٹنوں کے علاج میں چل رہی لوٹ پاٹ (لوٹ مار) کو بند کرنے کا جو فیصلہ لیا ہے‘ وہ لائق تعریف ہے۔ بھارت میں لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ لوگ ایسے ہیں‘ جنہیں اپنے گھٹنے بدلوانے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن مشکل سے ایک ڈیڑھ لاکھ بدلوا پاتے ہیں‘ کیونکہ یہ علاج ضرورت سے زیادہ مہنگا ہے۔ اس پر ہزاروں نہیں‘ لاکھوں خرچ ہوتے ہیں۔ اب سرکار نے ایسا فیصلہ کیا ہے کہ جس کی وجہ سے لوٹ پاٹ ختم ہونے کی پوری امید ہے۔ پہلے اگر گھٹنا بدلوانے میں سو خرچ ہوتے تھے تو اب یہ کام پچیس سے تیس روپیہ میںہی ہو جائے گا۔ جو آلات گھٹنا بازار میں اب تک ڈیڑھ لاکھ روپیہ کا ملتے تھے‘ وہ اب صرف 55 ہزار میں ملے گا۔ ٹائی ٹینیم کا جو گھٹنا ڈھائی لاکھ تک میں ملتا تھا‘ وہ اب 67 ہزار میں ملے گا۔ کینسر کے مریضوں کو لگنے والے سامان کی قیمت پانچ لاکھ روپے تھی۔ وہ اب ایک لاکھ چودہ ہزار میں ملے گا۔ جو بھی ڈاکٹر‘ ہسپتال یا دوا فروش اس سے زیادہ قیمت وصول کرے گا‘ سرکار اسے سخت سزا دے گی۔ ظاہر ہے کہ اس نئے انتظام سے ملک کے لاکھوں غریب اور درمیانی طبقے کے لوگوں کو خاص راحت ملے گی۔ گھٹنے کا آپریشن زیادہ تر بزرگ لوگ ہی کرواتے ہیں۔ وہ مودی سرکار اور وزیر صحت جگت پرکاش نڈھا کو تہہ دل سے دعا دیں گے۔ اس سے پہلے والی سرکار نے فروری 2017ء میں امراضِ قلب میں لگنے والے سٹنٹ کی لوٹ پاٹ میں زبردست کٹوتی کی تھی۔ علاج کے کئی اور ریسورس بھی ہیں‘ جن پر سرکار کی طرف سے سخت کاروائی کی ضرورت ہے۔ تقریباً سبھی ادویات پر سرکار کو دام باندھو پالیسی نافذ کرنی چاہیے۔ کسی بھی دوائی کے دام اس کی لاگت سے دوگنے سے زیادہ نہیں ہونے چاہئیں۔ دوائی بنانے والے اور فروش کرنے والے اگر اس سے زیادہ منافع کمانے کی کوشش کریں تو انہیں جیل بھیجا جانا چاہیے۔ آج تو کئی دوائیاں محض دو روپیہ کی ہیں لیکن وہ بکتی ہیں دو سوروپے میں! صرف ادویات اور آلات میں چلنے والی لوٹ پر پابندی کافی نہیں ہے۔ ہسپتالوں کی پانچ ستارہ تہذیب بھی ختم ہونی چاہیے اور دوا اور میڈیکل سامان سستے کر دیجئے‘ وہ پلنگ‘ ڈاکٹروں کی فیس‘ غیر ضروری ٹیسٹوں کے چارج اتنا بڑھا دیں گے کہ گاڑی مڑ کر پھر وہیں کھڑی ہو جائے گی‘ جہاں سے چلی تھی یعنی مہنگا علاج۔ سرکار نے اتنی ہمت کی ہے تو اسے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کی فیس پر دام باندھو پالیسی بھی نافذ کرنی چاہئے تاکہ بھارت کے عوام میڈیکل کے شعبے میں ہونے والی لوٹ مار سے بچے رہ سکیں۔
معاملہ کچھ اور ہی ہے!
دوکلام تنازع پر بھارت کے تمام نرم طرز عمل کے باوجود چین کا بار بار اتنا بوکھلانا حیرت انگیز ہے۔ اب تو اس نے حد ہی کر دی ہے۔ بھارت کے صدر رام ناتھ کووند اور فوجی سربراہ بپن راوت ایک فوجی پروگرام کے لیے لداخ جا رہے ہیں۔ بعد ازاں کچھ سرحدی چیک پوسٹوں پر بھی جائیں گے۔ چین اس بات سے خفا ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ اس سے دونوں کے درمیان تنائو بڑھے گا۔ یعنی چین چاہتا کیا ہے؟ بھارت کے صدر اور چیف آف آرمی ان سے پوچھ کر ہی ملک میں کہیں آئیں جائیں؟ کیا تبت کی طرح وہ بھارت کو بھی اپنا کوئی صوبہ سمجھ بیٹھا ہے؟ اس نے دلائی لاما کے دورہِ اروناچل کی بھی مخالفت کی تھی۔ یہ بھارت کے اندرونی معاملات میں چین کی دخل اندازی ہے۔ اگر بھارت یہ کہے کہ تبت اور سنکیانگ میں چینی لیڈر قدم نہ رکھیں‘ کیونکہ ایک بودھ اور دوسرا اسلامی علاقہ ہے تو چین کا ردعمل کیا ہو گا؟ دوکلام کا معاملہ اتنا سنجیدہ ہے کہ چین کو اس طرح کا طرز عمل اختیار نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن لگتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ اس وقت چین اس بات سے بوکھلایا ہوا ہے کہ بھارت نے جنوبی چینی سمندری تنازع میں چین کی نہیں ویتنام کی حمایت کی ہے۔ دوسرا‘ وہ سبھی آسیان ممالک کو بھارت میں بلا رہا ہے۔ تیسرا‘ بھارت نے امریکہ‘ جاپان‘ آسٹریلیا اور جنوبی کوریا کے ساتھ مل کر اس علاقے کے مجموعی تحفظ کی بات کی ہے۔ چوتھا‘ بھارت‘ امریکہ اور جاپان نے حال ہی میں متحدہ فوجی مشقیں کی ہیں۔ پانچواں‘ نئی دلی میںجاپانی قونصلیٹ نے دوکلام تنائو پر بیان دیا تھا۔ لیکن اسے یعنی اس بیان کو چین مخالف مان کر چینی سرکار ناراض ہے۔ چین بھارت کے صبر اور ردعمل سے اتنا مایوس ہے کہ وہ اپنے افسر اور ماہروں سے روز ہی بھارت کے خلاف کچھ نہ کچھ اوٹ پٹانگ بیان جاری کرواتا رہتا ہے۔ اب اس نے برہم پتر ندی کا پانی کھلا چھوڑ دیا ہے‘ جس کی وجہ سے بہار اور اتر پردیش کے کئی گائوں ڈوب گئے ہیں۔ ایسا کرکے چین نے 2016ء میں ہوئے اس سمجھوتے کی خلاف ورزی کی ہے‘ جس کے مطابق برہم پتر ندی کے پانی کے لیول اور اس دریا میں پانی چھوڑنے کی اطلاع بھارت کو دینی چاہیے تھی۔ کیا چین اپنے ان سبھی حربوں کو اس لیے اپنا رہا ہے کہ ستمبر میں ہونے والی برکس کے بیٹھک میں نریندر مودی نہ جا سکے؟ کیا چین بھارت کو اپنا پڑوسی سمجھنے کی بجائے دشمن سمجھنے لگا ہے؟