وزیرِ سیاحت الفونس نے پھر ایک عجیب وغریب سا بیان دے دیا ہے ۔ انہوں نے پٹرول کے بڑھے ہوئے نرخ کو ٹھیک بتاتے ہوئے کہا ہے کہ کار اور موٹر سائیکل والے بھوکے تھوڑے ہی مرر ہے ہیں ‘جو پٹرول پر چار پانچ روپے زیادہ نہیں خرچ کر سکتے ۔اسی طرح کا بیان انہوںنے گائے کے گوشت پر دیا تھا لیکن میں انہیں خوب جانتا ہوں ۔وہ چاپلوسی کے ماہر ہیں ۔ ان بحث والے بیانات کے ساتھ ساتھ وہ نریندرمودی کی خوشامد میں مکھن کا ہمالہ پگھلا دیتے ہیں تاکہ وہ ملازمت سے برخاست نہ کر دیے جائیں ۔ الفونس ایک لائق افسر رہے ہیں ۔وہ بطور وزیر بہتر کام کر کے دکھا سکتے ہیں ‘بشرطیکہ وہ اپنی زبان کو لگام دیے رکھیں ۔
جہاں تک پٹرول کی قیمت کا سوال ہے ‘سرکار کی پالیسی اس حوالے سے بالکل غلط ہے۔روز روز اس کے نرخ بڑھانا یا کم کرناسیدھی سیدھی بے ایمانی ہے۔ٹھگی ہے ۔جب بھاجپا سرکار بنی تھی تو تیل کی قیمت عالمی مارکیٹ میں 6000 ہزار روپیہ فی بیرل تھی ‘اب یہ 3000 ہزار روپیہ فی بیرل ہو گئی ہے ۔اس حساب سے آج بھارت میں پیٹرول 30 یا35 روپیہ لٹربکنا چاہیے لیکن اسے 80 روپے فی لٹر کر دیا گیا ہے ۔ پیٹرول پر سواسوفیصد اور ڈیزل پر پونے چار سوفیصدٹیکس ٹھوک دیا گیا ہے ۔یہ سراسر لوٹ پار نہیں ہے تو کیا ہے ؟اس پیسے کا سرکار کیا کرتی ہے ؟بھارت ایسا ملک ہے ‘جو دنیا میں سب سے زیادہ تیل خریدتا ہے ۔اربوں روپے کی تیل کی یہ کمائی کہاں جاتی ہے ؟تین سال ہو گئے ‘اس سرکار کو لیکن اس کے پاس یہ بتانے کے لیے کوئی'' کرشما تی کام ‘‘ نہیںہے کہ دیکھو ‘عوام سے وصولے گئے پیسے کاہم نے یہ اہم استعمال کیا ہے ۔لیڈروں اور نوکرشاہی کی فضول خرچی اورٹھاٹھ باٹ میں کوئی کمی نہیں آئی ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ ٹرک ‘کار اور سکوٹر والے بھوکے نہیں مر رہے اور وہ سب اتنے بزدل ہیں کہ 100 روپیہ فی لٹر کی قیمت بھی برداشت کر لیں گے لیکن بھائی الفونس ‘تم یاد رکھو کہ پٹرول اور ڈیزل کے بڑھتے ہوئے نرخوں کا اثر دال روٹی ‘ سبزی ‘کپڑے وغیرہ یہاں تک کہ ہر چیز پر پڑے گا‘کیونکہ اتنے لمبے چوڑے ملک میں جو چیزیں کیرالہ میں پیدا ہوتی ہیں، وہ کشمیر میں بھی کھائی جاتی ہیں ۔وہ آسام اور بنگال میں پیدا ہوتی ہیں اور گجرات و مہاراشٹر میں خریدی جاتی ہیں ۔ہزاروں کلومیٹر کی یہ ٹرانسپورٹ آمدورفت کیا بغیر پیٹرول اور ڈیزل کے ہو سکتی ہے ؟کیا اس کااثر کسانوں ‘مزدوروں ‘غریبوں اور محنت کشوں پر نہیں پڑے گا؟ ہماری سرکار صرف تیل ہی نہیں نچوڑ رہی ہے ‘وہ بینکوں کے ذریعے بھی بڑی ٹھگی کر رہی ہے ۔ہر لین دین پر وہ بتائے بنا ہی کچھ روپیہ کاٹ لیتی ہے ۔ ایک سرکاری بینک نے اس کٹوتی پر کچھ ماہ میں ہی قریب قریب اڑھائی سو کروڑروپے کما لیے ۔یہی حال جی ایس ٹی کا ہے ۔ ڈیجیٹل پیمنٹ نے سہولت تو دی ہے لیکن صارفین کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑرہی ہے۔اس میں شک نہیں کہ سرکار مڈل کلاس سے پیسہ کھینچ رہی ہے لیکن آخر کا رمحروم طبقے کا خون چوسا جا ہے اور خون چوسنے کے اس عمل پر پیسے کی کھنچائی کا پردہ ڈلا ہوا ہے ۔اگر 2019ء میں یہ پردا اٹھ گیا تو کیا ہوگا ؟خدا ہی جانے !
بھارت جاپان تعلقات گہرائے لیکن...
بھارت جاپان دوستی کی بنیاد آج مضبوط ہوگئی ہے ۔جاپان کے وزیراعظم شنزوآبے کے اس دورہ ِ بھارت کے دوران یہ صاف ہوگیا ہے کہ دونوں ملک آپسی معاملات میں تو ایک دوسرے کو کافی فائدہ پہنچا سکتے ہیں ‘اس کے علاوہ لگ بھگ آدھ درجن خاص بین الالقوامی معاملات میں ان کی ایک جیسی نظر ہے ۔چین ‘شمالی کوریا ‘پاکستان ‘افغانستان ‘سمندر ‘دہشت گردی، ایشیائی روڈ ،بھارت ‘امریکہ اور جاپان ثالثی تعاون ان سب معاملات میں بھارت اور جاپان کا نظریہ تقریباًایک جیسا ہی ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر یکسانیت کے ہوتے ہوئے بھی گزشتہ ستر برس میں بھارت اور جاپان کے تعلقات گہرے کیوں نہ ہوپائے ؟ کوٹلیہ کا یہ قول بھارت جاپان تعلقات پر نافذ کیوں نہیں ہو پایا کہ پڑوسی کا پڑوسی ہمارا دوست ہوگا ؟ جاپان کا امریکی دھڑے میں ہونا ۔بھارت کا ایٹمی طاقت ہونا اور جاپان کا اس کا مخالف ہونا ،بھارت کا انگریزی زبان کی غلامی کرنا ۔اب یہ تینوں رکاوٹیں نہیں رہیں ۔اب بھارت ‘امریکہ اور جاپان مل کر متحد فوجی مشقیں کر رہے ہیں ۔جاپان اب بھارت کو ایٹمی تکنیک دینے کے لیے تیار ہے اور اب بھارت اور جاپان دونوں انگریزی کی بیساکھی چھوڑ کر جاپانی اور ہندی کو اپنی تجارت ‘سفارتی تعلقات اور لین دین کا ذریعہ بنانے کے لیے تیار ہو گئے ہیں ۔اس وقت بھارت جاپان تجارت بہت ہی کم ہے ۔صرف پندرہ بلین ڈالر ۔جبکہ چین کے ساتھ اس کی تین سو بلین ڈالر کی تجارت ہے ،اسے بڑھانا ضروری ہے ۔بھارت میں جاپان کی تیرہ سو کمپنیاں کام کر رہی ہیں لیکن ان کی صرف پانچ چھ بلین ڈالر کی ملکیت یہاں لگی ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ بھارت اب ایک لاکھ کروڑ روپے کی بلٹ ٹرین لگائے گا ۔لیکن جاپان سے ملا یہ سستے بیاج کا پیسہ دوگنا ہوکر کیا واپس جاپان نہیں لوٹ جائے گا؟اور پھر یہ بلٹ ٹرین کس کے کام آئے گی ؟یہ کام آئے گی 'انڈیا‘کے 'بھارت‘کے نہیں ۔بھارت میں رہنے والا غریب ‘دیہاتی ‘محروم اس میں سفر کرنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا ۔اس ایک لاکھ کروڑ روپے سے بھارت کی ساری ریل گاڑیوں کو یورپی ریل گاڑیوں کی طرح محفوظ اور صاف بنایا جا سکتا تھا ۔لیکن ہمارے نوٹنکی پیارے لیڈر باہری چمک دمک پر فدا ہیں تو رہیں ۔انہیں کون روک سکتا ہے ؟اگر بھارت اور جاپان مل کر اپنا پیسہ ایشااور افریقہ کے آبی ‘زمینی اور ہوائی راستوںکے لیے لگائیں تو بہتر ہوگا ۔اگر یہ دونوں ملک افغانستان میں مل کر کام کریں تو دہشت گردی کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی ۔
جنوب ایشیامیںنئی سرد جنگ
بھارت جاپان متحدہ اعلان پر چینی ترجمان نے جو ردعمل دیا ہے ‘اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جنوب ایشیا میں اب ایک نئی سرد جنگ شروع ہو گئی ہے ۔اس سرد جنگ کے ایک خیمے میں امریکہ ‘بھارت اور جاپان ہیں اور دوسرے خیمے میں چین اور پاکستان ہیں جہاں تک روس کا سوال ہے ‘وہ ابھی بیچ میں ہے لیکن عین موقعے پر وہ بھی دوسرے خیمے کے ساتھ جانا پسند کرے گا ۔اگر پوری طرح نہیں تو بھی کئی معاملات میں وہ چین اور پاکستان کا ساتھ دے گا ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جنوب ایشیا میں ایک غیر اعلانیہ سرد جنگ شروع ہوچکی ہے ۔شنزوآبے کا دورہ بھارت کے دوران ایسے کئی معاہدے ہوئے ‘جو چین کا نام لیے بنا ‘اس کی پالیسیوں کو للکار رہے ہیں ۔اس دورہ کے پہلے ہی دوکلام تنازع میں جاپان نے بھارت کی حمایت کر دی تھی ۔جاپان اور بھارت نے چین کا نام نہیں لیا لیکن ان دونوں نے چین کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی ۔جنوب چینی سمندر اور باقی سمندر میں دونوں ملکوں نے سبھی ملکوں کی خودمختاری کا احترام ‘آزاد تجارتی سفر اور عالمی قانون کو ماننے کا اعلان کیا ۔عالمی عدالت اس معاملے میں چین کے خلاف فیصلہ دے چکی ہے ۔اسی طرح 'اوبور ‘شمالی کوریا ‘جنگی تعاون ‘بلٹ ٹرین ‘ایٹمی تعاون ‘دہشت گردی ‘ایشیا و افریقہ میں راستوں کی تعمیر کاکام وغیرہ۔ ان معاملات پر بھارت اور جاپان کی رضامندی چین کو سیدھی للکار ہے ۔چین کو چبھنے والی سب سے نوکیلی بات یہ ہے کہ جاپان اب بھارت چین حد پر قائم اروناچل اور لداخ میں بھی تعمیرات شروع کرے گا ۔اسی بات پر چین برھم ہو گیا ہے ۔ چینی ترجمان نے اپنا اعتراض ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت چین تنازع میں کسی تیسرے ملک کا ٹانگ اڑانا ٹھیک نہیں ہے ۔جاپان اور بھارت کس خفیہ مشن پر تو کام نہیں کر رہے ؟چین کے ان شک وشبہات کو پاکستان میں بھی کافی ہوا دی جا رہی ہے ۔وہاں یہ مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ پاکستان اب ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ کا بائیکاٹ کرے اور مکمل طور پر چین کے ساتھ حلیفانہ تعلقات قائم کرے ۔ ایسی مانگ کرنے والے یہ کیوں نہیں سمجھ رہے کہ پاکستان کی امداد چین اس پیمانے پر کرنے کی قوت نہیں رکھتا ‘ جس پیمانے پر امریکہ کرتا رہا ہے ۔جو بھی ہو‘یہ سرد جنگ تو شروع ہو گئی ہے ۔ہم امید کریںگے کہ یہ سرد جنگ گرم جنگ میںکبھی نہیں بدلے گی ۔