امریکہ کے مشہور شہر لاس ویگاس میں ایک ہی جھٹکے میںساٹھ لوگ مارے گئے اور سیکڑوں زخمی ہو گئے۔ایسے واقعات کم و بیش امریکہ میں اکثر ہوتے رہتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ یہ مذہبی دہشت گردی کا واقعہ نہیں تھا تو پھر کیا تھا ؟یہ ایسا سوال ہے ‘جو امریکی تہذیب کو بے نقاب کر دیتا ہے ۔سٹیفن پیڈک کے گورے اس آدمی نے ایک ہوٹل کے کمرہ سے اتنی گولیاں چلائیں کہ سیکڑوں لوگ زخمی ہو گئے ۔اس کے کمرہ میں دس بندوقیں پائی گئیںاور اس کی اپنی نعش بھی !اگر وہ زندہ پکڑا جاتا تو شاید اس قتل عام کے صحیح جواز کا پتا معلوم ہوجاتا لیکن ہم تو صرف اندازہ ہی لگا سکتے ہیں ۔پیڈاک کوئی غریب آدمی نہیں تھا ۔اس کا اپنا ہوائی جہاز ہے ‘اپنا بنگلہ ہے ‘اچھی خاصی نوکری بھی رہی ہے ۔تو کیا وجہ ہو سکتی ہے ۔اس کی اس حیوانیت کی ؟مجھے اس کے دوسبب دکھائی پڑتے ہیں ۔پہلا تو یہ ہے کہ امریکہ میںخاندان نام کے ایک ادارے میں بہت گراوٹ آگئی ہے ۔بچوں کو والدین ٹھیک سے اخلاق اور سماج میں تال میل نہیں سکھا پاتے ۔آزاد بچے آزاد خیال ہو جاتے ہیں ۔ انہیں اخلاق ‘بھائی چارہ‘ خلوص ‘تمیز‘ لحاظ داری اور تعلقات وغیرہ کی درست تربیت کا کوئی خاص خیال نہیں رہتا ۔جسمانی سہولیات ہی ان کا آخری ہدف رہ جاتا ہے۔ امریکی باشندوں میں گہری ناامیدی ‘غصہ اور نفسیاتی مرض میں مبتلا ہونے کے سبب تنائو میں رہتے ہیں ۔اس طرح کے قتل عام کرنے لگتے ہیں۔امریکہ کے ہتھیار رکھنے کی پالیسی‘صوبے میں آدمی جتنے چاہے ہتھیار رکھ سکتے ہیں ۔لاس ویگاس کے نیوادا صوبہ میں تو لائسنس رکھنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔امریکہ میں بہت کم گھر ایسے ہیں جن میں بندوق یا پستول نہ ہو ۔امریکہ کی یہ ہتھیار والی تہذیب پیدائش کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔دوسوڈھائی سو برس یورپی لوگ وہاں سے آکر امریکہ پر قابض ہوگئے تو انہیں قدم قدم پر ہتھیار استعمال کرنے پڑے تھے اصلی باشندوں کو دبانے کے لیے۔تشدد کی ریت آج بھی وہاں زندہ ہے۔امریکہ کی کئی اچھائیاں ہیں لیکن دنیا میں وہ جرم کا سب سے بڑااڈہ ہے ۔امریکہ کی جیلوں میں آج جتنے قیدی ہیں ‘دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ہیں ۔امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور اور محفوظ ملک ہے ۔لیکن امریکی باشندے سب سے زیادہ غیر محفوظ اور خوفزدہ باشندے ہیں ۔
اب بینکوں میں چلے گی ہندی
وزارت داخلہ کے شعبہ قومی زبان نے ملک کے سبھی بینکوں کو ہدایت بھیجی ہے کہ وہ اپنی چیک بکس اور پاس بکس ہندی میں بھی تیار کریں ۔اس حکم کا میں دل سے خیر مقدم کرتا ہوں ۔مجھے تعجب یہی ہے کہ ہمارے وطن پرستوں کی سرکار کی نیند اس مدعہ پرتین برس بعد کھلی ہے ۔ہمارے وزیرپرچار نے جب غریبوں اور دیہاتیوں کے کروڑوں نئے بینک کھاتے کھلوائے تو انہیں یہ دھیان کیوں نہیں آیا کہ انگریزی میں چلنے والے بینکوں کا کام کاج جن کروڑوں لوگوں کے لیے پہیلی بن کر رہ جائے گا ۔بینک کے کروڑوں کھاتے صرف ایک خبر بن کر رہ جائیں گے ۔ وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ کومبار ک کہ اس کمی کو دور کرنے کے لیے انہوں نے کمر کس لی ہے ۔لیکن یہ دھیان رہے کہ بینکوں کا سارا کام کاج ہر صوبے کی لوکل زبان اور ہندی میں ہونا چاہیے۔انگریزی میں بھی تھوڑا کام کاج چلے گا ‘انگریزی میں چیک یا دستخط کرنے میں بھی فی الحال کوئی برائی نہیں ہے ،بینک اس سرکاری حکم نامہ کوتو مانے گی ہی لیکن جب تک عوام خود اپنا حساب کتاب اپنی زبان میں نہیں کریںگے تو بینک کیا کر لیں گے ؟بھارت کے کروڑوں لوگوں سے میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے دستخط ہندی یا اپنی مادری زبان میں کریں۔کل ہی وہ اپنی بینک میں جائیں اور اپنے دستخط انگریزی سے بدل کر ہندی میں کروائیں ۔یہ شروعات ہے۔پھر چیک بھی اپنی زبان میں لکھیں اور پاس بک بھی اپنی زبان میں بنوائیں ۔اسی طرح کے پوسٹر اور اطلاع ہر بینک میں لگوائے جائیں ۔ جس بینک برانچ میں سب سے زیادہ ہندی زبان میں کام ہو ں‘دستخط ہوں اسے انعام دیا جائے ۔میرا ہدف ہے کہ کم ازکم دس کروڑ لوگوں کے دستخط بدلوائے جائیں ۔میں سب لیڈروں سے عرض کرتا ہوںاپنے جلسوں میں ہاتھ اٹھواکر لوگوں سے یہ عزم کروائیں ۔
بھا رتی افوج کابل نہیں جائیں گی
امریکہ کے وزیردفاع جیمس میٹس بھارت کیوں آئے ؟اسی لیے کہ افغانستان سے امریکی افواج ہٹا لی جائیں اور ان کی جگہ بھارتی افوج اڑا دی جائیں ۔1981 ء کے ماہ جنوری میں میں اپنے پرانے دوست ببرک کارمل سے کابل میں ملا تو انہوں نے ڈھائی تین گھنٹے کی پہلی ملاقات میں جو بات مجھے سب سے پہلے کہی ‘وہ یہی تھی کہ روسی فوجوں کے بدلے اگر آپ کی افواج افغانستان آجائیں تو بڑی مہربانی ہوگی ۔ببرک کارمل افغانستان کے وزیراعظم بنے تھے ۔ حفیظ اللہ امین کے قتل کے بعد روسی افواج افغانستان میں گھس گئی تھیں اور انہوں نے کارمل کے ہاتھوں اقتدار حوالے کیا تھا ۔ ببرک کارمل بھارت کے پرانے دوست تھے ۔ وہ تھے تو کمیونسٹ ( پرچم پارٹی ) لیکن جواہر لعل نہرو اور اندرا گاندھی کے بڑے مداح تھے ۔ انہوں نے جوں ہی بھارتی فوج کابل بھیجنے کی بات اٹھائی ‘ میں نے ان کو کئی اسباب بتائے‘ جن کی وجہ سے ہم وہاں فوج نہیں بھیج سکتے تھے۔بعد میں ہماری وزیراعظم اندراجی کو جب یہ معلوم پڑا تو انہوں نے راحت کی سانس لی ۔اب افغانوں نے امریکہ اور نیٹوکی افواج کو گزشتہ پندرہ برس میں اتنی مار لگا دی ہے کہ وہ ابھی روسیوں کی طرح اپنی بلا بھارت کے ماتھے ٹالنا چاہتے ہیں ۔لیکن مجھے خوشی ہے کہ ہماری نئی وزیر دفاع نرملا سیتا رمن نے امریکی وزیردفاع کو دوٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ بھارتی افواج
کابل نہیں جائیں گی لیکن ہم فوجیوں کی تربیت ‘ہتھیار اور آلات مہیا کروائیں گے ۔ بھارت ابھی تک پانچ ہزار افغان فوجیوں کو تربیت دے چکا ہے ۔اس نے چار ایم آئی پچیس ہیلی کاپٹر بھی دئیے ہیں۔بھارت کی لگ بھگ تین بلین ڈالر کی امداد سے گزشتہ پچاس برس میں کئی ہسپتال ‘ سکول ‘ڈیم ‘بجلی گھر ‘ سڑکیں اور پل بن چکے ہیں ۔بھارت نے افغان پارلیمنٹ اور جرنج دلآرام سڑک بنا کر تاریخی کام کیے ہیں ۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بھارت افغان تجار تی مظاہرے کا افتتاح بھی کریں گے ۔وہ بھارت پریمی لیڈر ہیں ۔لگ بھگ ڈھائی سو افغان تاجر دلی آگئے ہیں۔بھارت افغان تجارت آج کل جتنی ہے‘ اس سے دس گنا بڑھ سکتی ہے ‘بشرطیکہ کہ پاکستان بھارتی مال کو اپنی حد سے جانے دے لیکن ایران کے ذریعے جرنج دلآ رام سڑک کا استعمال تجارت میں اضافہ کرنے کے لیے اب زوروں سے ہوگا۔
امریکہ میں بہت کم گھر ایسے ہیں جن میں بندوق یا پستول نہ ہو ۔امریکہ کی یہ ہتھیار والی تہذیب پیدائش کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔دوسوڈھائی سو برس یورپی لوگ وہاں سے آکر امریکہ پر قابض ہوگئے تو انہیں قدم قدم پر ہتھیار استعمال کرنے پڑے تھے اصلی باشندوں کو دبانے کے لیے ۔تشدد کی ریت آج بھی وہاں زندہ ہے ۔امریکہ کی کئی اچھائیاں ہیں لیکن دنیا میں وہ جرم کا سب سے بڑااڈہ ہے ۔امریکہ کی جیلوں میں آج جتنے قیدی ہیں ‘دنیا کے کسی بھی ملک میں نہیں ہیں ۔امریکہ دنیا کا سب سے طاقتور اور محفوظ ملک ہے ۔لیکن امریکی باشندے سب سے زیادہ غیر محفوظ اور خوفزدہ باشندے ہیں۔