گرداس پور کے ایم پی چنائو میں بی جے پی کو زبردست شکست ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مہاراشٹرکے بلدیاتی چنائو میں اور الٰہ آباد ‘ گوہاٹی‘دلی و جے این یو نیورسٹی کے چنائوں میںملی شکست نے مودی سرکار کے منہ پر فکر کی لکیریں کھینچ دی ہیں۔ حالانکہ یہ سرکار گزشتہ تیس برسوں میں بنی سرکاروں میں سب سے زیادہ مضبوط سرکار ہے ۔یہ اپنے پائوں پر کھڑ ی ہے لیکن راجیو گاندھی کی سرکار تو اس سے بھی زیادہ مضبوط تھی۔اس کے پاس 410 ایم پی تھے ۔اس کے پاس تو 300 نشستیں بھی نہیں ہیں ۔لیکن دوڈھائی برس گزرے نہیں کہ بوفورس کا معاملہ پھوٹ پڑااور راجیو سرکار کا پانی اترنے لگا۔جو چنائو راجیو نے اپنے دم خم پر لڑا‘1989 ء کا‘اس میں ان کی نشستیں آدھی رہ گئیں ۔
کیا نریندر مودی کو بھی 2019 ء میں ایسی ہی حالت کا سامنا کرنا پڑے گا ؟اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے ۔اس کے کئی سبب ہیں ۔پہلا تو یہی ہے کہ مودی سرکار کے خلاف بدعنوانی کا اتنا بڑا معاملہ ابھی تک سامنے نہیں آیاہے۔راجیو گاندھی کو بھی مودی کی طرح صاف سیاست دان مانا جاتا تھا ۔بوفورس کی توپ نے اس صاف کردار کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے ۔ مودی کی یہ ذاتی شان بے داغ ہے اور لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ اس سرکار کے وزرا بھی خبردار ہیں ۔اسی لیے اس سرکار سے جو لوگ مطمئن نہیں ہیں ‘وہ بھی امید کر رہے ہیں کہ اگلے ڈیڑھ برس میں شاید کچھ ٹھوس انجام سامنے آئیں گے ۔
دوسرا‘راجیو گاندھی اچانک لیڈر بنے تھے ۔ وزیراعظم کا عہدہ ہی ان کا پہلا عہدہ تھا جبکہ مودی چھوٹی عمر سے آرایس ایس کے سوئم سیوک ہونے کے ناتے زندگی میں متحرک رہے ‘بھاجپا کے عہدیدار اور گجرات کے وزیراعلیٰ رہے ۔راجیو جیتے‘ شہید اندرا گاندھی کے ملے ووٹوں سے جبکہ مودی کو ملے ووٹ ان کے اپنے تھے‘ حالانکہ وہ ٹوٹل ووٹوں کے صر ف31 فیصد ہی تھے ۔وزیراعظم بننے کے بعد بھاجپا نے ملک کے کئی صوبوں میں اپنی سرکاریں بنا لی۔بھاجپا کے صدر امیت شاہ نے دعویٰ کیا کہ بھاجپا کی ممبر شپ اتنی تیزی سے بڑھی ہے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے ۔اس سے بھاجپا پر مودی کی پکڑ بڑھی ہے ۔
تیسرا‘اس وقت بھاجپا پر مودی کی پکڑ بے حد مضبوط ہے ۔کوئی وزیر یا پارٹی عہدیدار اتنی ہمت نہیں کر سکتاکہ وہ نااتفاقی کی آواز اٹھا سکے یا کاناپھوسی بھی کر سکے ۔بھاجپا میں آج کسی وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے کھڑے ہوجانے کے امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتے ۔مودی کی پکڑ اٹل جی کی پکڑ سے بھی زیادہ مضبوط ہے ۔آرایس ایس کے احترام میں کوئی کمی دکھائی نہیں پڑتی لیکن اس کو بھی محدود کردیا گیا ہے ۔وہ دبی زبان سے ہکلاتے ہوئے راستہ دکھاتے رہتے ہیں ‘ایڈوانی اور جوشی والا مارگ درشن منڈل ‘راستے کا دیدار کرنے کے لیے ہی بنا ہے۔بھاجپا پر آج مودی کی پکڑ ویسی ہی ہے ‘جیسی 1975 ء میں کانگریس پر اندرا کی تھی ۔
چوتھا ‘اندرا گاندھی 1966 ء میں جب اقتدار میں آئیں ‘تب سے لے کر ان کے آخری وقت تک انہیں مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا ۔پہلے ڈاکٹر رام منوہر لوہیا ‘ پھر ان کے اپنے بزرگ کانگریسی لیڈراور پھر جے پرکاش نارائن سے انہیں مڈھ بھیڑ کرنی پڑی لیکن مودی کے سامنے کون ہے ؟کوئی نہیں ۔نتیش ہو سکتے تھے لیکن وہ ڈھیر ہو چکے ہیں ۔اکھلیش یادیو اپنے بزرگوں سے غدر کے شعلوں میں جھلس گئے ۔ممتا بینرجی ‘اکلا چلو‘کاہی نغمہ گا رہی ہیں ۔کمیونسٹ پارٹی کے لیڈروں کو اپنی اندرونی پارٹی سے ہی فرصت نہیں ہے۔مایاوتی کی کوئی گنتی ہی نہیں ۔اب رہ گئی کانگریس!ملک کی سب بڑی اپوزیشن پارٹی ‘جو اب اتنی چھوٹی ہو گئی ہے کہ ایسی وہ کبھی نہیں رہی ۔ اسے پارلیمنٹ میں قانوناًحزب اختلاف کا درجہ بھی حاصل نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کوجیسی طاقتور اپوزیشن ملی تھی ‘ اس کی تلنا میں مودی کی اپوزیشن چھن بھن ہے اس لیے مودی 2019ء کی تو بات ہی نہیں کرتے ۔وہ 2024 ء کی بات کرتے ہیں ۔
پانچواں‘ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی سے ٹکر لینے کے لیے 1977-1967ء اور 1989ء میںاپوزیشن کے متحد ہونے سے فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا لیکن آج سارا حزب اختلاف ایک ہونے کے لیے تیار ہی نہیں ہے ۔اگر وہ ایک ہو بھی جائے تو اس کے پاس لوہیا یا جے پرکاش یا وشوناتھ پرتاپ سنگھ جیسا کوئی لیڈر ہے ؟آج تو کوئی نہیں ہے ۔ایسے میں ملک کے لوگ ‘چاہے جتنے غیرمطمئن ہوں ‘وہ مودی کے برعکس کس کو بنائیں گے ؟
ایسا نہیں ہے کہ مودی کا کوئی برعکس ہوہی نہیں سکتا۔ بھاجپا میں ہی ایڈوانی‘ جوشی ‘گڈکری‘راج ناتھ سنگھ‘سشما سوراج ‘شوراج چوہان جیسے کئی لوگ ہیں ‘ جو بہتر آپشن ہو سکتے ہیں لیکن ان کے ناموں پر غور ہونا تبھی شروع ہو گا‘جبکہ گجرات جیسے صوبہ میں بھاجپا کی سرکار لڑھک جائے ‘ جس کے امکانات کم ہی ہیں ۔لیکن اس میں شک نہیں کہ گجرات کے انتخاب نے بھاجپا کا سانس پھلا دیا ہے۔ راہول گاندھی کے جلسوں میں آنے والی بھیڑ اور اس کے جوش نے بھاجپا کے کان کھڑے کر دئیے ہیں۔ جی ایس ٹی میں 27 چیزوں میں رعایت دی گئی ہے ‘ان میں گجراتی کھانکھرو کا بھی خاص ذکر ہے۔گجرات چنائو کی تاریخ کے اعلان میںدیر کرکے چنائو کمیشن نے بھاجپا کی راہ آسان کر دی ہے۔ گجراتی ووٹروں کو اربوں روپیہ کے لولی پوپ تھمائے جا رہے ہیں ۔گجرات کے چنائو مشن نے راہول کی شان کو تھوڑا بہت سنواردیا ہے۔گجرات میں پیدا ہوئے گاندھی ‘سردار پٹیل ‘مرار جی ‘مادھو سنگھ سولنکی جیسے لیڈروں کے ساتھ کی گئی کانگریسی ناانصافیاں کے معاملے کو طول دینا کافی کارگر ہو سکتا ہے ۔
مان لیا جائے کہ بھاجپا گجرات کو جیت لے گی ‘پھر بھی اگلا ڈیڑھ برس مودی سرکار کے امتحان کا وقت رہے گا۔ لگ بھگ آدھے درجن صوبوں کے چنائو اگلے سال ہونے والے ہیں ۔ان سب میں ایک اکیلے خاص پرچارک نریندر مودی ہی ہوں گے ‘جیسے کہ وہ بہار ‘آسام ‘اتر پردیش وغیرہ میں بھی رہے ہیں ۔ایسے میں سرکار چلانے کے لیے وہ کتنا وقت دے پائیں گے ‘ یہ دیکھنا ہے ۔گزشتہ تین برس میں اس سرکار نے جو بھی نہایت ہی دم دار قدم اٹھائے ہیں ‘ان کا ہدف تو عوام کی بھلائی ہی تھا لیکن ان کے نتائج الٹے ہی آئے ہیں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے سرکار کی جیب تو موٹی ہو رہی ہے لیکن لاکھوں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں ‘سینکڑوں لوگ موت کے شکار ہوئے ہیں اور کئی کام دھندے ٹھپ ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ ملک کے سماجی اور تہذیبی ڈھانچے میں جو بنیادی بدلائو کی امیدیں پیدا ہوئی تھیں ‘ وہ خواب بن چکی ہیں ۔ملک کے سیاسی ڈھانچے ‘چنائو ی ایکشن ‘ جمہوری نظام میں سدھار ہونے تھے ‘اب ان کا کوئی نام تک نہیں لیتا۔تہذیب‘ وطن پرستی پر عمل ہونا تو دور‘ملک میں فرقہ واریت ‘نفرت ‘ذات پات تنائو ‘مغرب کی نقل‘انگریزی کا دب دبا اور نچلی لیول پر بدعنوانی جوں کا توں بنی ہوئی ہے ۔ خارجہ پالیسی کے میدان میں بھی بہتر ماحول نہیں ہے۔ پڑوسی ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ٹھیک ہی ہیں ‘انہیں گہرا کیسے کہا جائے ؟چین نے غچہ دے دیا اور امریکہ کے ٹرمپ کا کوئی بھروسہ نہیں ۔ایسے میں 2019 ء تک پتا نہیں ‘ملک کی حالت کیا ہوگی ؟تب آپشن کا سوال اٹھے تو اٹھے ۔
مان لیا جائے کہ بھاجپا گجرات کو جیت لے گی ‘پھر بھی اگلا ڈیڑھ برس مودی سرکار کے امتحان کا وقت رہے گا۔ لگ بھگ آدھے درجن صوبوں کے چنائو اگلے سال ہونے والے ہیں ۔ان سب میں ایک اکیلے خاص پرچارک نریندر مودی ہی ہوں گے ‘جیسے کہ وہ بہار ‘آسام ‘اتر پردیش وغیرہ میں بھی رہے ہیں ۔