"DVP" (space) message & send to 7575

چین میں دوسرے ماؤ کا جنم

چین میں اس برس نئے مائوتسے تنگ کی پیدائش ہوئی ہے۔ مائوجتناطاقتور لیڈرچین میںاب تک کوئی اورنہیں ہوا ہے۔ مائو کے رہتے لیو شائو چی اور چائو این لائی مشہور ضرور ہوئے لیکن وہ مائوکے ہاتھ کے کھلونے ہی بنے رہے۔ مائوکے بعد چین میں ایک بڑے لیڈراور ہوئے۔ تنگ شیائو فنگ‘جن کی یہ بات بہت مشہور ہوئی تھی کہ مجھے اس سے مطلب نہیں کہ بلی کالی ہے یا گوری ہے‘مجھے یہ دیکھنا ہے کہ وہ چوہا مارتی ہے یا نہیں۔ تنگ شیائو نے چینی اکانومی کو دولتمندو ںکی سڑک پر چلانے کی کوشش کی تھی اور مائو کے کمیونسٹ جیسے سخت انتظام کو لبرل بنایا تھا۔ لیکن اب تنگ سے بھی بڑے لیڈرکی پگڑی شی جن فنگ کے سر پر رکھ دی گئی ہے۔ شی چین کے صدر ہیں۔ بھارت آچکے ہیں۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے 2336 لیڈروں نے اپنی انیسویںتقریب میں انہیں اگلے پانچ برس کے لیے پھر اپنا صدر منتخب کر لیا ہے۔ وہ اقتدار ی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری اور فوجی کمیشن کے سربراہ ہیں۔ ان تینوں طاقتور عہدوں پر تو وہ بیٹھے ہی ہیں لیکن پارٹی آئین میں ان کے خیالات کو مائوکے خیالات کامقام دیا گیا ہے۔ اس میں ان کے چینی کوریڈورکی تجویز کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ دوسابق صدور زیانگ زیمن اور ہو چنتائو پارٹی کانگریس میں موجود ضرور تھے لیکن پارٹی آئین میں ان کا کہیں ذکر تک نہیں ہے۔ شی کے جانشین کے بارے میں بھی کوئی اشارہ نہیں دیا گیا ہے۔ یعنی شی اب دوسرے مائو ہیں۔ 
ظاہر ہے کہ مائو کی طرح شی اب نہ تو غصہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی تانا شاہی رویہ اپنا سکتے ہیں۔ اب دنیا کافی بدل چکی ہے۔ اس وقت چین کمیونسٹ کم‘عوامی زیادہ ہوگیا ہے۔ وہ پیسا پیدا کرنے میں لگا ہوا ہے۔ وہ اگلے دس پندرہ سال میں دنیا کا سب سے زیادہ خوشحال ملک بننا چاہتا ہے۔ اس دھن میںمست ہوئے چین اپنے باشندوں کے ساتھ کتنا انصاف کر پائے گا‘یہ دیکھنا ہے۔ چین میں غیر برابری کی خندق بہت گہری ہوتی جا رہی ہے اور اسی پیمانے پر بدعنوانی بھی بڑھ رہی ہے۔ شی کو اس بات کا کریڈٹ ہے کہ وہ بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ چین کااصلی مسئلہ مارکس کا بغیر طبقہ کا سماج بنانا نہیں ہے‘بلکہ بدعنوانی سے آزاد سماج بنانا ہے۔ خارجہ پالیسی میں بھی چین کتنا ہی زیادہ بولتا رہے لیکن اب وہ جنگ سے بچتا رہے گا۔ بھارت کی ٹینشن یہی ہے کہ چین کی بڑھتی ہوئی قوت اس کے لیے خطرناک ثابت نہ ہو۔ 
راج نارائن ایک عارف فقیرلیڈر 
2017ء راج نارائن جی کی پیدائش کی صدی کا بر س ہے۔ آج وہ زندہ ہوتے توان کا سوواں برس شروع ہوتا۔ ان کو گئے 31 برس ہونے کو آرہے ہیں لیکن ہماری جوان نسل کے کتنے لوگ ان کو جانتے ہیں ؟ان کی یاد میں کل وٹھل بھائی ہائوس میں جو تقریب منعقد ہوئی‘ اس میں کوئی بھی سماج وادی کہے جانے والا لیڈر دکھائی نہیں پڑا لیکن مجھے خوشی ہے کہ انتظامیہ میں کچھ ایسے پر جوش نوجوان بھی تھے‘جنہوں نے نارائن جی کو دیکھا تک نہیں تھا۔ راج نارائن ساری دنیا میں کیوں مشہور ہوئے تھے ؟اس لیے کہ انہوں نے اس وقت کی دنیا کی سب سے طاقتور وزیراعظم اندرا گاندھی کو پہلے ہی مقدمہ میں شکست دی اور پھر چنائو میں شکست دی۔ وزیراعظم اندرا گاندھی سے چنائو ہارنے پرانہوں نے ان پر مقدمہ چلایا‘چنائو میں غیر قانونی ہتھ کنڈے اپنانے کے الزام پر۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اندرا جی کے خلاف جوں ہی 12 جون 1975ء کو فیصلہ دیا‘ انہوں نے 26 جون کو ایمرجنسی نافذ کر دی۔ سارے لیڈروں کو جیل ہو گئی، سارے ملک کو سانپ سونگھ گیا لیکن مارچ 1977ء میں جب انہوں نے پھر چنائو کروایا تووہ راج نارائن جی سے تو ہار ہی گئیں‘سارے شمالی بھارت سے کانگریس کا صفایا ہوگیا۔ اس وقت مانا جا رہا تھا کہ ملک میں بنی پہلی غیرکانگریسی سرکار کے بنیادی آدمی راج نارائن جی ہی ہیں‘حالانکہ لیڈر شپ کی پہلی قطار میںجے پرکاش نارائن‘مرار جی ڈیسائی‘چوہدری چرن سنگھ اور جگ جیون رام جیسے لوگ تھے۔ 
راج نارائن جی اور میری گہری دوستی تقریباًبیس برس ان کے آخری وقت تک بنی رہی۔ لوہیا ہسپتال میں راج نارائن جی سے ملنے والا میں آخری آدمی تھا۔ مدھیم رات کو باہر ملک سے لوٹتے ہی سیدھے ایئرپورٹ سے میں ان کے پاس پہنچا۔ وہ بول نہیں پا رہے تھے۔ میں نے جیسے ہی ان کا ہاتھ پکڑا‘ان کی آنکھوں سے اشک بہنے لگے۔ وہاں سے جیسے ہی میں اپنے پی ٹی آئی دفتر پہنچا‘راج نارائن جی کے سیکرٹری مہیشور سنگھ نے ان کی وفات کی خبر دی۔ راج نارائن جی کی اتنی کار آمد باتوں کو لکھوں تو ایک کتاب ہی بن جائے گی لیکن یہاں یہ کہنا کافی ہوگا کہ ڈاکٹر لوہیا کے شاگردوں میں وہ کمال تھے۔ وہ بال بچے دار ہوتے ہوئے بھی کسی بھی عارف فقیر سے بڑے فقیر صفت انسان تھے۔ ان کے جیسے سیاسی لیڈر آج ملنا مشکل ہیں۔ عہدہ اور پیسے کی طرف ان کی دلچسپی بالکل ہی نہیں تھی اسی سبب مجھے ان کی شخصیت پسند تھی۔ ان کے آخری دوبرس بہت ہی مشکل گزرے لیکن کاشی میں ان کے جنازے (1986ئ)میں جتنے لوگ ان کے پیچھے چلے‘اس واقعہ نے بھی اس بات کی تاریخ بنائی ہے۔ راج نارائن جی کی جنم صدی منانے کا سب سے اچھا طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ لوہیا کے فولادی انقلاب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سارے سماج وادی متحد ہو کر کام کریں۔ 
جس کی لاٹھی اس کی بھینس 
لیڈروں پر چل رہے مجرمانہ مقدمے کے بارے میں سپریم کورٹ نے اب نئے سرے سے سخت رویہ اپنایا ہے ۔انہوں نے وفاق اور صوبائی سرکاروں سے مانگ کی ہے کہ وہ ان لیڈروں کے مقدمے نمٹانے کے لیے خاص عدالتوں کا انتظام کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ ایک برس میں ان کو نمٹایا جا سکے۔ اس نے پوچھا ہے کہ 1581 ایم ایل ایز اور ایم پیز کے مقدموں کو کتنا نمٹایا گیا ہے ‘ جنہوں نے 2014ء میں چنائو لڑا تھا ۔نئے مقدمے کتنے دائر ہوئے ہیں ؟عدالت نے سرکار سے کہا ہے کہ وہ چھ ہفتوں میں ان سوالات کے جواب دے ۔
سرکار کیا جواب دے گی؟اپنے ملک میں سرکاریں بنانے اور چلانے کی ذمہ داری کس کی ہے ؟ پارلیمنٹ اور ودھان سبھائوں کی !جب ان کے لگ بھگ ایک چوتھائی ممبروں کے ہاتھ کالے کارناموں سے رنگے ہوئے ہیں تو یہ سرکاریں کیا کریں گی ؟ایک چوتھائی ممبر تو وہ ہیں ‘ جو عدالتوں کی گرفت میں ہیں‘ جو گرفت سے باہرآزادگھوم رہے ہیں ان کی تعداد ان سبھی سے زیادہ ہو گی ۔بھلا کس سرکار کی ہمت ہوگی کہ وہ اُن پر ہاتھ ڈالے ؟اگر وہ پکڑے بھی جاتے ہیں تو ضمانت پر چھوٹ جاتے ہیں ۔وہ ایک کے بعد دوسری اونچی عدالت میں چلے جاتے ہیں اور ان کے مرنے تک مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوتا ۔ دنیا ان بدعنوانوں کو مزے کرتے دیکھتی رہتی ہے ۔سماج میں پیغام یہ جاتا ہے' جس کی لاٹھی اس کی بھینس !‘یہی وجہ ہے کہ ساڑھے تین برس ہونے کو آ رہے ہیں لیکن ابھی تک یہی پتا نہیں ہے کہ کتنے لیڈروں کو سزا ملی ہے ۔عام مجرموں کے مقابلے میں ان لیڈروں کی سزا کئی گنا سخت ہونی چاہیے اور بہت جلدی ہونی چاہیے ۔کیوں ہونی چاہیے ؟کیوں کہ عام لوگوں کے مقابلے میں ان کی عزت ‘شہرت اور قیمت ہر جگہ بہت زیادہ ہوتی ہے ۔اگر وہ سزاپاتے ہیں تو جرم کرنے والے عام لوگوں کے دلوں میں زیادہ ڈر پیدا ہوگا ۔جیسے ہی ان کا گناہ ثابت ہو ‘انہیں اپنے عہدے سے فی الفور برخاست کیا جانا چاہیے (جولائی 2013 کا فیصلہ )‘وہ اپیل ضمانت کی کوشش کریں تو کرتے رہیں ۔چنائو کمیشن اور سپریم کورٹ دونوں ہی چاہتے ہیں کہ جو بھی ایم پی یا ایم ایل اے مجرم ثابت ہو جائیں‘ ان کے چنائو لڑنے پر زندگی بھر کی پابندی لگنی چاہیے ۔یہ اصول مجھے ذرا زیادہ سخت معلوم پڑتا ہے۔انہیں سدھار کا موقع ضرور ملنا چاہیے ۔جرم جتنا سنگین ہو ‘سزا بھی اتنی ہی سخت ہونی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں