روس میں ہوئے کمیونسٹ سوویت انقلاب کو پورے سو برس ہو گئے۔ اسے 7 نومبر کو منایا جاتا ہے لیکن روسی زبان میں اسے 'اکتابرسکایا رولوتسی‘ یعنی اکتوبر انقلاب کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب کو گزشتہ سو برس کا سب سے بڑا انقلاب کہا جا سکتا ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں میں انقلابات آئے‘ روس سے بڑے چین میں بھی آئے لیکن سوویت انقلاب دنیا کی تاریخ کا ایک بے جوڑ واقعہ تھا۔ یہ واقعہ 1917ء میں رونما ہوا تھا‘ جبکہ پورا یورپ پہلی جنگ عظیم میں الجھا ہوا تھا۔ یورپ کے پانچوں ملک زار شاہی‘ آسٹرو‘ ہنگیریائی‘ جرمن‘ ترک اور برٹش سامراجیہ اندر سے ہل رہے تھے۔ ایسے میں ولادیمر الچ لینن کی قیادت میں روس میں جو خونیں انقلاب برپا ہوا‘ وہ ویسا نہیں تھا‘ جیسے فوجی تختہ پلٹ دوسرے ممالک میں ہوتے رہتے ہیں۔ وہ تصور پر مرکوز انقلاب تھا۔ وہ کارل مارکس اور فریڈرک اینجلس کے کمیونسٹ خیالات پر مبنی تھا۔ اس معنی میں وہ فرانس کے انقلاب 1989ء سے بھی الگ تھا۔
مارکس پرست کی تشریح کرنا یہاں ممکن نہیں ہے لیکن جیسا کہ مارکس نے اپنے 'کمیونسٹ منشور‘ (1848ئ) میں کہا تھا‘ کمیونسٹ انقلاب کا ہدف پیداوار کے ذرائع پر دنیا کے مزدوروں کو مالک بنانا تھا‘ اور دولت مند کی قبر کھود دینا تھا۔ ایک نئی برابر کی بنیاد پر تہذیب کو جنم دینا تھا۔ سماج کو بغیر طبقے کے اعلیٰ بنانا تھا۔ ان اہداف کی حاصلات کے لیے مارکس نے لڑائیاں لڑیں۔
مارکس کے جیتے جی تو کچھ نہ ہوا‘ لیکن ان کے جانے -30 35 برس بعد روز الکسمبرگ‘ لیون تروسکی اور لینن جیسے لیڈروں نے ان کی سوچ کو آگے بڑھایا اور روس میں انقلاب برپا کر دیا۔
اس انقلاب کا اثر پوری دنیا مرتب ہوا۔ مشرقی یورپ کے کئی ملک جیسے یوگوسلاویا‘ چیکوسلوواکیا‘ ہنگری‘ پولینڈ‘ مشرقی جرمنی وغیرہ کمیونسٹ ہو گئے۔ مغرب میں کیوبا اور مشرق میں چین تک لال ہو گئے۔ بھارت‘ فرانس‘ انڈونیشیا‘ برٹین ویت نام‘ افغانستان اور عراق جیسے کئی ممالک کے لیڈروں پر لال نہیں تو گلابی رنگ تو چڑھ ہی گیا تھا۔ دولت مندوں کی ٹکر میں سماج پرست لہر ساری دنیا میں چمکنے لگی۔ کمیونسٹ انقلاب کے نام پر خون کی ندیاں بہیں۔ لگ بھگ دس کروڑ لوگ مارے گئے۔ کئی ممالک کے روایتی‘ سماجی‘ اقتصادی اور سیاسی ڈھانچے چکنا چور ہو گئے۔ لگ بھگ پچاس برس تک ساری دنیا سرد جنگ کی لپیٹے میں رہی۔ لیکن کمیونسٹ پرست انقلاب کی اس صدی میں ہمیں یہ سوچنے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے کہ یہ انقلاب صرف 80-70 سال میں مرحوم کیوں ہو گیا؟ چین اپنے آپ کو آج بھی کمیونسٹ کہتا ہے لیکن صرف کہنے کے لیے! چین کی دکان پر بورڈ کمیونسٹ کا لگا ہے لیکن مال اب وہاں دولت مندوں کا بکتا ہے۔ مائو کے بعد تنگ شائو پنگ اور شی چن پنگ نے چین کی شکل ہی بدل دی۔ انہوں نے کمیونسٹ کے منہ میں دولت مندوں کے ڈینچر لگا دیے ہیں۔
مارکس اور لینن کا انقلاب کچھ ہی ملکوں میں سمٹ کر کیا رہ گیا؟ یہ عالمی انقلاب کیوں نہیں بن پایا؟ جن ملکوں میں بھی یہ ہوا‘ وہاں سے بھی اسے رخصت کیوں نہیں ہونا پڑا؟ اس کا پہلا سبب‘ جو مجھے معلوم پڑتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ یہ انقلاب انسانی فطرت کے خلاف تھا۔ تشدد سے زار یا شیانگ کائی شیک کا تختہ پلٹ دیا گیا‘ یہ تو ٹھیک ہے لیکن عوام پر بھی اسی تشدد کو تھوپے رکھنا
بالکل غلط برتائو ثابت ہوا۔ لاکھوں کروڑوں لوگ تانا شاہی فرمانوں کے آگے مجبوری میں سر جھکاتے رہے لیکن انہوں نے کمیونسٹ نظام کو دل سے قبول نہیں کیا۔ اس نظام میں انسانی زندگی میں سرکار کا کردار کافی کم اور فیملی و سماج کا کردار کافی زیادہ ہوتا ہے۔
دوسرا سبب کمیونسٹ پارٹی کا سب کچھ بن جانا رہا۔ سوویت اور چینی کمیونسٹ نظام میں صدر اور وزیر اعظم کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ سارے تالوں کی چابی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کی جیب میں رہتی ہے۔ اس کی انگلیوں پر سب کو ناچنا پڑتا ہے۔ پارٹی کے عہدے داران کو میں نے روس میں بڑے دھنا سیٹھوں کی طرح ٹھاٹ باٹ سے رہتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان کے بنگلوں‘ اور ان کی کاروں کو میں نے سونے سے مڑھے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ مغروری میں ڈوبے ہوئے اور عام عوام کے دکھ سکھ سے کٹے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی بدعنوانی پر کوئی لگام نہیں ہوتی۔ ان ملکوں کی پارلیمنٹ اور ودھان سبھائیں ربڑ کے ٹھپے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتیں۔ دس دن کے سیشن میں سیکڑوں قوانین کے لیے یہ لوگ ہاتھ اٹھا اٹھا کر رضا مندی دیتے جاتے ہیں۔ اپوزیشن کے نام پر زیرو ہوتا ہے۔ لینن اور سٹالن کے پولٹ بیورو کے زیادہ تر ممبروں کا قتل ہو گیا یا وہ جیلوں میں سڑتے رہے۔ مصنفوں‘ فنکاروں‘ صحافیوں‘ عالموں کو پارٹی لیڈروں کی تعریف میں قصیدے گڑھنے کے علاوہ کیا کام رہتا ہے۔ اس لیے جب سوویت نظام کے خلاف بغاوت ہوئی تو روسی لوگوں نے راحت کی سانس لی۔ خرشچیف اور گوربا چوف دونوں کا روس میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کے کمزور ہوتے ہی روس بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
اس میں شک نہیں کہ روس میں زار شاہی‘ چین میں شیانگ کائی شیک اور کیوبا میں بتستا کے خاتمے کے بعد دبے پسے‘ محروم‘ مظلوم اور دکھی لوگوں نے راحت کی سانس لی تھی اور ان کی اکانومی کی حالت سدھری تھی لیکن اس کی برابری میں دولت مند ملکوں کے انہی طبقوں کی حالت بہتر ہو گئی تھی۔
کمیونسٹ انقلاب پروان نہ چڑھنے کا چوتھا سبب یہ بھی تھا کہ دنیا میں خیمہ بازی شروع ہو گئی تھی۔ سرد جنگ چھڑ گئی۔ ایک نیٹو اتحاد بن گیا اور دوسرا وارسا اتحاد۔ ایک کا لیڈر امریکہ اور دوسرے کا روس! روس نے سرد جنگ میں اپنی طاقت کا بڑا حصہ گنوا دیا اور پھر چین نے اپنی الگ راہ پکڑ لی۔ یوگوسلاویا اورچیکوسلواکیا میں بھی بغاوت ہو گئی۔ جن ملکوں کو اس سارے عمل سے کوئی غرض نہ تھی‘ انہوں نے اپنا الگ راستہ پکڑ لیا۔ کمیونسٹ خواب لُٹ پِٹ کر رہ گیا۔ روس‘ چین اور کیوبا کی اپنی مجبوریوں کے سبب وہاں کے انقلاب ناکام ہوئے‘ لیکن بھارت‘ نیپال‘ افغانستان جیسے ملکوں میں کمیونسٹوں کا کیا حال ہے؟ ان ملکوں میں کچھ وقت پہلے تک کمیونسٹوں نے اپنی کچھ سرکاریں بنائیں‘ جمہوری اور تختہ پلٹ طریقوں سے لیکن اب تو حال یہ ہے کہ وہ آخری سانسیں گن رہی ہیں۔ وہ سچے کمیونسٹ معنوں میں کمیونسٹ کبھی رہی ہی نہیں۔ وہ اپنے ملک کے مقامی حالات کے مطابق ڈھل ہی نہیں سکیں۔ نہ وہ ادھر کی رہیں اور نہ ہی ادھر کی! جو بھی ہو‘ ناکام ہونے کا باوجود تاریخ میں مارکس پرست اور روسی انقلاب کا مقام بے مثال رہے گا‘ کیوں کہ انہوں نے انسانی ذات کو کئی نئے خواب اور روشن امکانات سے واقف کروایا ہے۔
مارکس اور لینن کا انقلاب کچھ ہی ملکوں میں سمٹ کر کیا رہ گیا؟ یہ عالمی انقلاب کیوں نہیں بن پایا؟ جن ملکوں میں بھی یہ ہوا‘ وہاں سے بھی اسے رخصت کیوں نہیں ہونا پڑا؟ اس کا پہلا سبب‘ جو مجھے معلوم پڑتا ہے‘ وہ یہ ہے کہ یہ انقلاب انسانی فطرت کے خلاف تھا۔ تشدد سے زار یا شیانگ کائی شیک کا تختہ پلٹ دیا گیا‘ یہ تو ٹھیک ہے لیکن عوام پر بھی اسی تشدد کو تھوپے رکھنا بالکل غلط برتائو ثابت ہوا۔ لاکھوں کروڑوں لوگ تانا شاہی فرمانوں کے آگے مجبوری میں سر جھکاتے رہے لیکن انہوں نے کمیونسٹ نظام کو دل سے قبول نہیں کیا۔ اس نظام میں انسانی زندگی میں سرکار کا کردار کافی کم اور فیملی و سماج کا کردار کافی زیادہ ہوتا ہے۔