فلم پدماوتی کو لے کر جیسا ہنگامہ مچ رہا ہے ‘افواہوں کا بازار جیسے گرم ہوا ہے ‘ویسا پہلے کسی بھی فلم کے بارے میں سننے میں نہیں آیا ۔شور مچنے کا سبب بھی ہے ۔پدماوتی یا پدمنی صرف راجستھان ہی نہیں ‘سارے بھارت میں عظیم بہادر خاتون کے طور پر جانی جاتی ہیں ۔درمیانی دور کے مشہور شاعر ملک محمود جائسی نے اپنی کتاب 'پدماوت ‘میں چتوڑ کی اس مہارانی کا ایساحسن اور دلکش کردار پیش کیا ہے کہ وہ بھارتی ناری کا آدرش بن گئی ہیں۔ اگر ایسی عظیم دیوی کوکوئی فلم یا نظم یا کہانی کی بے حرمتی کرے تو اس کی مخالفت کیوں نہیں ہونی چاہیے اور ڈٹ کر ہونی چاہیے ‘ لیکن یہ ضروری ہے کہ مخالفت کرنے سے پہلے اس فن یا فلم کو دیکھا جائے ‘پڑھا جائے ‘اس کا جائزہ لیا جائے ۔مجھے پتا نہیں جو لوگ اس فلم کی مخالفت کر رہے ہیں ‘ان کے لیڈروں نے یہ فلم دیکھی ہے کہ نہیں ؟میں نے یہ سوال گزشتہ ہفتہ اپنی تحریر میں بھی اٹھایا تھا۔مجھے راج پریواروں سے متعلق میرے کچھ دوستوں نے آمادہ کیا کہ میں خود بھی اس فلم کو دیکھوں اور اپنی رائے دوں ۔
میں نے یہ فلم دیکھی ۔فلم جوں ہی شروع ہوئی ‘ میں خبردار ہوکر بیٹھ گیا ‘کیوں کہ میں یہ فلم انٹرٹینمنٹ کے لیے نہیں دیکھ رہا تھا ۔مجھے اس میں یہ دیکھنا تھا کہ اس میں کوئی بات ‘کوئی منظر‘ کوئی گانا ایسا تو نہیں ہے ‘جو بھارت کی تاریخ پر داغ لگاتا ہو‘ کسی ظالم حکمران کواونچا اٹھاتا ہو اور پدماوتی جیسی عظیم عورت کونیچا دکھاتا ہو ؟ مجھے یہ بھی دیکھنا تھا کہ مہاراجا رتن سنگھ جیسے بہادر اور بھولے اور فراخ دل آدمی کا کردار اس فلم میں کیساہوا ہے ؟میری فکر یہ بھی تھی کہ فلم کو رسیلا بنانے کے لیے کہیں اس میں ایسے مناظر تو نہیں جوڑ دیے گئے ‘جو بھارتی روایات کی بے حرمتی کرتے ہوں ؟
مجھے لگتا ہے کہ بنادیکھے ہی اس فلم پر جتنا بوال اور بیان بازی ہوئی ہے ‘اس کا فائدہ فلم کے ڈائریکٹر نے ضرور اٹھایا ہوگا ۔اس نے ایسی بحث ایسے مناظر اور ایسے حوالوں کو اڑادیا ہوگا ‘جن پر کوئی اعتراض ہوسکتا تھا ۔فلم کے کہانی رائیٹر ‘تاریخ دان اور ڈائریکٹر مکمل علم کے جانکار نہیں ہوتے ہیں ۔وہ غلطیاں کرتے ہیں اور کئی بار ان کے کارنامے عام ناظرین کو گہری چوٹ بھی پہنچاتے ہیں ۔ لیکن اس فلم کو وہ سب فائدے پہلے سے ہی مل گئے ‘جو سینسر بورڈیا عوام کے سامنے جانے سے ملتے ہیں ۔اس فلم کوسب سے بڑا فائدہ یہ ملا ہے کہ اس کا زبردست پرچار ہوگیا ہے۔ اگر اس کے پرچار پر کروڑوں روپیہ بھی خرچ ہوتے تو بھی اس کا نام ہر زبان پر پہنچنا مشکل تھا۔ اس فلم کو اب بھارت کے غیر ہندی صوبوں میں جم کر دیکھا جائے گا اور بیرونی ممالک میں بھی اس کی مانگ بڑھ جائے گی ۔
اس فلم کا سب سے بڑا کردار سلطان علا ئوالدین خلجی ہے ۔یہ جو خلجی لفظ ہے ‘ اس کا صحیح پشتو اچارن غلزئی ہے ۔افغانستان میں ایک 'جہاں سوزعلائوالدین ‘ بھی ہوا تھا ۔یعنی ساری دنیا کا بھسمی بھوت کرنے والا ۔علائوالدین کے اس بھسما اسر صورت کو اس فلم میں نئی جنگی تکنیک دکھا کر بتایا گیا ہے ۔خلجی نے توپ جیسے ایک آلہ سے چتوڑ کے قلعہ پر ایسا حملہ کیا کہ اس کے آتشی تیروں سے راجپوت فوج کا بچنا مشکل ہوگیا ۔اس فلم میں خلجی ‘ایک مغرور ‘دھوکہ باز ‘ ظالم کرداراور خون کا پیاساکے طور پر دکھایاگیا ہے ۔وہ اپنے چاچاشہنشاہ جلال الدین کا قتل کرتا ہے ‘ان کی بیٹی سے زبردستی نکاح کرتا ہے ‘وہ اس راگھو چیتن کا بھی قتل کردیتا ہے ‘جو اسے پدماوتی کے بے مثال حسن کی بات بتا کر چتوڑ پر حملے کے لیے متاثر کرتا ہے ۔وہ ہر قیمت پر پدماوتی کواپنی رانی بنانا چاہتا ہے ۔خلجی دھوکہ سے مہاراج رتن سنگھ کو دلی بلا کر گرفتار کر لیالیکن بہادر پدماوتی کیسے نہلے پردہلا لگاتی ہے ‘خود دلی جاکر خلجی کو چکمہ دیتی ہیں‘اسے بے وقوف ثابت کرتی ہیں اور رتن سنگھ کو چھڑا لاتی ہیں۔ خلجی اور رتن سنگھ کی مڈ بھیڑ میں مذہب کہیں بیچ میں نہیں آتا۔وہ معاملہ خالص ملکی اور غیر ملکی کا دکھائی پڑتا ہے ۔
جہاں تک پدماوتی کا سوال ہے ‘سری لنکا کی شہزادی اور ملکہ حسن کو رتن سنگھ ایک شکار کے دوران دیکھتے ہیں اور اس کی محبت میں قید ہوجاتے ہیں ۔فلم کے شروع سے آخرتک پدماوتی کا لباس وزیورات تو نہایت ہی خوبصورت ہیں ۔وہ چتوڑ کی مہارانی کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتے ہیں ۔رتن سنگھ اور پدماوتی کی محبت کو چوری چوری دیکھنے والے گروراگھو چیتن کو ملک بدر کیا جاتا ہے ۔پدماوتی اسے سزائے موت دینے کی بجائے ملک بدر کامشورہ دیتی ہیں ۔ایسی فراخ دل پدماوتی کا یہاں وہ دُرگاصورت دیکھنے کو ملتی ہے ‘جب اسے خلجی کی خواہش بتائی جاتی ہے۔پوری فلم میں کہیں بھی ایسی بات نہیں ہے ‘ جس سے دور دور تک یہ اندیشہ ہو کہ پدماوتی کو خلجی کی جانب ذرا سی بھی کشش رہی ہو ۔بلکہ پدماتی اور رتن سنگھ کی گفتگو سن کر سینہ چوڑا ہو جاتاہے کہ واہ !کیا بات ہے ؟ایک غیر ملکی حملہ آ ور سے لڑ کر اپنی جان قربان کرنے والے یہ راجپوت بھارت کی شان ہیں ۔ اس فلم میں پدماوتی عجیب خوبصورتی کی ملکہ ہی نہیں بلکہ ہمت اور قابلیت کی مثال ہیں ۔وہ کیسے اپنے800 فوجیوں کو اپنی نوکرانی کی شکل دے کر دلی لے گئی اور اس نے کس ترکیب سے اپنی شوہر کو جیل سے چھڑایا‘یہ منظر بھی بہت ہی اثردار ہے ۔دوسری جنگ میں بہادر رتن سنگھ کیسے دھوکہ سے مارے گئے ‘کیسے انہوں نے خلجی کے چھکے چھڑائے اور کیسے پدماوتی نے ہزاروں راجپوت خواتین کے ساتھ جوہر کیا ‘یہ بھی بہت ہی جذباتی منظر ہے ۔جہاں تک گھومر ڈانس کا سوال ہے ‘اس کے بارے میں بھی طرح طرح کے اعتراض کیے گئے تھے۔لیکن وہ ڈانس کسی محل کا بالکل نجی اور اندرونی معاملہ ہے ۔وہ کسی شہنشاہ کی خوشامد میں نہیں کیا گیا ہے ۔اس ڈانس کے وقت مہاراجا رتن سنگھ کے علاوہ کوئی بھی مرد وہاں موجود نہیں تھا ۔اس ڈانس میں کہیں بھی کچھ غلط نہیں ہے ۔
یہ فلم میں نے اس لیے بھی دیکھی کہ ہمارے ایک صحافی دوست کی بیوی نے ‘ جو میری مسز کی کلاس فیلو رہی ہے ‘مجھے ممبئی سے ایک پیغام بھیجا اور کہا کہ آپ کوشاید پتا نہیں کہ میں معتبر راجپوت خاندان کی بیٹی ہوں اور اس فلم میں‘ میں نے ایک چھوٹا سا رول بھی کیا ہے ۔یہ فلم راجپوتوں کی شان اور غیرت کی علامت ہے ۔اس فلم کو بازار میں اتارنے سے پہلے راجپوت سربراہوں کو بھی ضرور دکھائی جانی چاہیے ۔مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے سبھی لیڈر اتنے عجیب اور ڈر پوک کیوں ہیں ؟فلم کو دیکھے بناوہ ایسے فتوے جاری کیوں کر رہے ہیں ؟وہ اتنے ڈر گئے ہیں کہ سینسر بورڈ کو بھی پرہیز کی ہدایت دے رہے ہیں ۔عدالت نے فلم پر روک لگانے سے منع کردیا ہے ۔اسے بھی اس فلم کو دیکھنا چاہیے تھا ۔اگر اس میں کوئی سنجیدہ اعتراض والی بات ہو تو سینسر بورڈ اور عدالت دونوں کو مناسب کارروائی کرنی چاہیے لیکن افواہوں کے دم پرملک اور سرکار چلانا تو جمہوریت کا مذاق ہے ۔ سچائی جانے بنا اس پر پابندی لگانا ٹھیک نہیں لگتا۔ میرا سبھی کومشورہ ہے جو اس میں سے کیڑے نکال رہے ہیں کہ پہلے وہ فلم دیکھیں اور اس کے بعد فیصلہ کریں کہ انہوں نے تنقید کرنی ہے یا تعریف!
مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے سبھی لیڈر اتنے عجیب اور ڈر پوک کیوں ہیں ؟فلم کو دیکھے بناوہ ایسے فتوے جاری کیوں کر رہے ہیں ؟وہ اتنے ڈر گئے ہیں کہ سینسر بورڈ کو بھی پرہیز کی ہدایت دے رہے ہیں ۔عدالت نے فلم پر روک لگانے سے منع کردیا ہے ۔اسے بھی اس فلم کو دیکھنا چاہیے تھا ۔اگر اس میں کوئی سنجیدہ اعتراض والی بات ہو تو سینسر بورڈ اور عدالت دونوں کو مناسب کارروائی کرنی چاہیے لیکن افواہوں کے دم پرملک اور سرکار چلانا تو جمہوریت کا مذاق ہے ۔