"DVP" (space) message & send to 7575

کم جونگ نے ٹرمپ کے جوڑ ڈھیلے کر دیے!

شمالی کوریا کے حکمران کم جونگ اُن نے امریکی صدر ٹرمپ کے سارے آنٹے (جوڑ) ڈھیلے کر دیے ہیں۔ گزشتہ روز اس نے ایک ایسا میزائل ٹیسٹ کیا‘ جس کی پہنچ واشنگٹن اور نیویارک تک ہے۔ 13 ہزار کلومیٹر تک مار کرنے والے اس میزائل کا نام وہاسونگ ہے۔ یہ چار ہزار پانچ سو میٹر اوپر تک اڑ سکتا ہے۔ اپنے ڈھنگ کا یہ ایسا پہلا میزائل ہے۔ یہ بات امریکی ماہر بھی کہہ رہے ہیں۔ کم جونگ اب چاہے تو دنیا کے کسی بھی ملک کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ کل تک ٹرمپ‘ جس کم کو دہشت گرد کہتے تھے‘ اور اس کو سبق سکھانے کی بات کرتے تھے‘ اس کا رد عمل اتنا صبر والا آیا ہے کہ اس پر اعتبار کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ اس حالت میں ہم نمٹ لیں گے۔ ٹرمپ نے چین اور جاپان کے لیڈروں سے بھی فوراً بات کی‘ اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ کم پر تھوڑی اور پابندیاں لگائیں۔ ٹرمپ کے وزیر خارجہ ٹلرسن نے شمالی کوریا کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ لیکن کہا ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لیے سفارتی تعلقات کا آپشن موجود ہے۔ اگر امریکہ ان سیاسی طریقوں کو اپناتا رہتا اور فضول کی دادا گیری نہ دکھاتا تو شمالی کوریا جیسے چھوٹے ملک کو ایٹمی ٹیکنالوجی نہ اپنانا پڑتی۔ بھارت سرکار میں پہل کی ذرا بھی ہمت ہو تو یہی موقع ہے کہ وہ بیچ میں پڑے۔ اسے امریکہ کے دبائو میں آکر شمالی کوریا سے اپنے تعلقات خراب کرنے کی بات پر بالکل دھیان نہیں دینا چاہیے۔ امریکہ نے جنوبی کوریا کو اپنا بنا رکھا ہے۔ بھارت امریکہ کی اس پالیسی کی حمایت کیوں کرے؟ بھارت کو چاہیے کہ وہ سلامتی کونسل کو بھی زیادتی والا رویہ اختیار کرنے سے روکے اور اس مسئلے کا پرامن حل نکالے۔ اگر بھارت اور چین مل کر پہل کریں تو اس کا اچھا انجام جلد ہی سامنے آ سکتا ہے۔ جنوبی کوریا کا الزام ہے کہ جب بھی اس ملک میں کوئی بڑا پروگرام ہوتا ہے‘ شمالی کوریا دودھ میں مکھی ڈال دیتا ہے۔ 1988ء میں اولمپک کھیل ہونے تھے تو اس نے ایک ہوائی جہاز گرا دیا تھا۔ 2002 ء میں عالمی فٹ بال ٹورنامنٹ ہونا تھا تو اس نے ایک جہاز کو ڈبو دیا تھا‘ اور اب فروری 2018ء میں ونٹر اولمپکس ہونے والے ہیں تو اس نے ایک میزائل چھوڑ دیا ہے۔ جنوبی کوریا کی یہ بات درست ہو سکتی ہے لیکن اصلی دقت امریکہ نے پیدا کر ر کھی ہے۔ امریکہ اب پھونک پھونک کر قدم آگے بڑھائے گا۔
رسی جل گئی بل نہیں گئے!
ہندوستان ٹائمز کے ایک پروگرام میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک کمال کا بیان دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں ملک کے انتظام میں بنیادی سدھار کر رہا ہوں اور ان سدھاروں کی مجھے جو بھی قیمت چکانی پڑے گی‘ میں چکائوں گا۔ میرے جو فیصلے ہیں‘ وہ مضبوط ہیں۔ وہ واپس نہیں لیے جائیں گے۔ قیمت چکانے کی بات مودی نے کیوں کی؟ ایسا انہوں نے کیا کر دیا کہ انہیں قیمت چکانے کی بات کہنی پڑی؟ گجرات میں خون پسینہ بہاتے وقت انہیں عوام سے جو رد عمل ملا‘ اسی نے انہیں یہ کہنے پر مجبور کیا ہے۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے بھاجپا کے ریڑھ کی ہڈی رہے تاجروں اور کسانوں میں اتنی بے چینی پھیلا دی ہے کہ اس کی قیمت چکانی ہی پڑے گی۔ وہ اس کے لیے تیار ہیں‘ یہ اچھی بات ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان کے دماغ کی کھڑکیاں کھلی ہوئی ہیں‘ اور وہ باہر چلنے والی ہوائوں سے بھی متعارف ہیں۔ کسی بھی حکمران کے لیے ایسی بیداری فائدہ مند ہے لیکن ان کا یہ کہنا ہے کہ ان کے فیصلے واپس نہیں لیے جائیں گے۔ یہ مزاحیہ ہے۔ یہ لگ بھگ تانا شاہی
طریقہ اور اکھڑ پن کی علامت ہے۔ مزاحیہ اس لیے ہے کہ نوٹ بندی کو واپس لینا چاہیں تو بھی نہیں لے سکتے۔ وہ دوہری بے وقوفی ہو گی۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کو نافذکرنے کے بعد اتنی بار ان کے کان مروڑے گئے ہیں اور ان کی ٹانگ کھینچی گئی ہے کہ وہ انہیں واپس لینے سے کم نہیں۔ جمہوری سیاست کو سدا جھکنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ وہ عوام کی مالک نہیں‘ اس کی نوکر ہوتی ہے۔ یہ بھی عجیب ناٹک ہے آپ روز جھکتے بھی جاتے ہیں اور اکڑتے بھی رہتے ہیں۔ یعنی رس جل گئی لیکن اس کے بل نہیں گئے۔ اوپر سے اب آپ نیوز چینل پر بھی تقریر جھاڑ رہے ہیں۔ مودی جی اور ان کے جی حضور نوکر شاہ آج تک یہ نہیں بتا سکے کہ کالے دھن کا کیا ہوا؟ اس نے نوٹ بندی کو کیسے کچا چبا ڈالا۔ بہتر ہو گا کہ اب باقی ڈیڑھ برس میں دل کی باتین یا من مانی کرنے کے بجائے کام کی بات کریں۔
ششی بالا جی! آپ ہماری نصیحت ہیں!!
میری توجہ جن دو خبروں نے اپنی طرف کھینچی ہے۔ وہ انسان کے فرشتہ یا شیطان (ڈیول) ہونے سے تعلق رکھتی ہے۔ فرشتہ ہونے کا تعلق دبئی کے ایک خاندان سے ہے اور ڈیول خبر کا تعلق دلی کے ایک ہسپتال سے۔ دبئی میں ایک خاتون کا نام ششی بالا گپتا ہے۔ یہ عورت 76 برس کی تھیں اور کسی زمانے میں نرس رہ چکی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کی موت ہونے پر ان کے جسم کے زیادہ سے زیادہ عضو بطور عطیہ دیے جائیں۔ دبئی میں دل بند ہونے کے بعد ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تو ان کے بیٹے نوین گپتا نے کیا کیا؟ دبئی میں معلوم کیا کہ ان کی والدہ کے جسم کے عضو نکال کر کسی کو بطور عطیہ دیے جا سکتے ہیں؟ انہیں بتایا گیا کہ وہاں ایسی سہولت نہیں ہے۔ وہ اپنی بے ہوش ماں کو اپنے خرچ سے دلی لائے اور میکس ہسپتال میں داخل کروا دیا۔ وہاں اس کی موت ہو گئی۔ ششی بالا جی جب صفدر گنج ہسپتال میں نرس تھیں‘ تب انہیں معلوم پڑا کہ جلے ہوئے نئی مریضوں کو نئی چمڑی دی جا سکتی ہے۔ نوین نے پہلے فون کرکے میکس سے پتا کیا کہ ان کی ماں اپنی چمڑی بھی بطور عطیہ دینا چاہتی تھیں‘ کیا ان کے پاس سہولت ہے؟ میکس سے ہاں کا جواب ملنے پر وہ آئے اور ان کی والدہ کی مہربانی سے ایک مریض کو لیور عطیے میں ملا اور وہ بچ گیا۔ انہوں نے اپنے نرسنگ کے زمانے میں اپنے ایک ڈاکٹر کے لیے بہت پہلے اپنا ایک گردہ بھی بطور عطیہ دیا تھا۔ ملک میں لاکھوں بیمار لیور اور کڈنی کی کمی سے دم توڑ دیتے ہیں‘ لیکن ہم یہاں بھارت میں نعشوں کو جلا یا دفنا دیتے ہیں۔ مرحوم ششی بالا جی کی یہ قربانی دیکھ کر آج میں نے اور میری بیوی نے بھی یہ نصیحت پائی اور وہی عزم ہم نے اپنے بیٹے پر واضح کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ششی بالا جی کو مرنے کے بعد بڑا اعزاز دیا جانا چاہیے۔ ملک کے کروڑوں لوگوں کے لیے وہ نصیحت کا ذریعہ ہیں۔ دوسری خبر ایسی کہ اس نے دل دہلا دیا۔ آدیا سنگھ نام کی ایک سات برس کی بچی ڈینگو کی بیماری کی وجہ سے گروگرام کے فورٹس ہسپتال میں داخل کی گئی۔ 15 دن میں سولہ لاکھ کا بل دیا گیا۔ دوسرے دن سے ہی اسے 'لائف سپورٹ سسٹم‘ پر لگا دیا گیا تھا۔ پندرہویں دن وہ چل بسی۔ ہسپتال نے بیس صفحات کا بل بنایا۔ ہسپتال پر جانچ بیٹھ گئی ہے۔ گزشتہ دو ماہ میں میرے دو رشتہ داروں کی موت ہوئی۔ دلی اور مدراس کے ہسپتالوں نے ایک سے پچاس لاکھ روپے ٹھگے‘ اور دوسرے سے پندرہ لاکھ۔ ان سب نجی ہسپتالوں پر دائمی سرکاری نگرانی کا انتظام ہونا چاہیے۔ علاج کی قیمتیں باندھی جانی چاہئیں اور ڈاکٹروں اور لیب کی سانٹھ گانٹھ کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں