ان دنوں بھارت میں کانگریس کے صدر کے طور پر راہول گاندھی کی تاج پوشی کے معاملے پر بیان بازی زوروں پر ہے۔ کوئی اسے مغلیہ تاج پوشی کہہ رہا ہے تو کوئی خاندان کی سیاست۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ راہول گاندھی پارٹی کے اندر سے بنا کسی مخالفت کے ہی کانگریس پارٹی کے صدر بننے جا رہے ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ کسی ایک بھی کانگریسی نے راہول کے خلاف بطور امیدوار کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کی۔ انہیں پارٹی کے اندر جمہوریت کے نظام کا کم از کم ڈھونگ تو کر لینا چاہئے تھا۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ کچھ سال پہلے جب سونیا گاندھی کانگریس میں صدارتی امیدوار کا چنائو لڑ رہی تھیں‘ تو جتیندر پرساد ان کے مقابلے میں کھڑے ہوئے تھے۔ اس دن وہ انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں میرے ساتھ لنچ کر رہے تھے۔ کانگریس پارٹی میں جمہوریت ہے‘ اُس وقت کم از کم یہ تو ثابت ہو رہا تھا لیکن اب تو اس کی بھی کوئی ضرورت نہیں سمجھی جا رہی ہے۔ ہو سکتا ہے‘ اصل معاملہ یہ ہو کہ ڈوبتے ہوئے سورج کو کوئی سلام کرنے والا بھی نہیں مل رہا ہے۔ لیکن یہ سچائی نہیں ہے۔ اصل صورتحال اس کے برعکس محسوس ہوتی ہے۔ گزشتہ دو تین ماہ میں یہ سورج غروب ہونے کی بجائے‘ طلوع ہوتے ہوئے دکھائی پڑنے لگا ہے۔ راہول نے اپنے دورۂ امریکہ کے دوران جو تقاریر کیںاور بیان دیے تھے یا گجرات میں وہ جو چناوی مشن چلا رہے ہیں‘ اس نے ادھ مرے کانگریسیوں میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں کہ کانگریس جیسی عظیم پارٹی اگر ختم ہو گئی تو یہ بھارت کی جمہوریت کے لیے افسوسناک ہو گا۔ اس سے ایک المناک صورتحال جنم لے سکتی ہے۔ یہ پارٹی ختم ہو گئی تو ملک میں کوئی مضبوط اپوزیشن نہیں رہے گی۔ جو بھی سرکاریں بنیں گی‘ وہ بے لگام ہوتی چلی جائیں گی۔ انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں رہے گا۔ یہ اچھا ہے کہ بھاجپا اب کانگریس کی طرح بھارت کی بڑی اور اکیلی پارٹی بنتی جا رہی ہے‘ لیکن وہ بے لگام نہ ہو جائے‘ اس کے لیے کانگریس کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں ملک کی سبھی پارٹیاں کانگریس کی کاربن کاپی بنتی جا رہی ہیں۔ کانگریس ماں بیٹا پارٹی بن گئی ہے۔ ایک کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ بھارت میں کون سی ایسی پارٹی ہے‘ جو دعویٰ کر سکے کہ وہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی نہیں ہے؟ ساری صوبائی پارٹیاں خاندان پرستی کے آنگن میں جھولا جھول رہی ہیں۔ ملکی سطح پر کیا ہو رہا ہے اس سے انہیں جیسے کوئی غرض ہی نہیں۔ ہر کوئی اپنی غرض کا بندہ بنتا جا رہا ہے۔ کوئی باپ بیٹا پارٹی ہے‘ کوئی چاچا بھتیجا پارٹی ہے اور اب تو بھاجپا بھی بھائی بھائی پارٹی بنتی جا رہی ہے۔ ذرا غور کیجئے اس کے صدارتی انتخاب میں کسی نے چنائوتی دی تھی کیا؟ سارا معاملہ اس کی مرضی کے مطابق ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی پسند اور مرضی کا صدر منتخب کیا۔ ساری پارٹیاں ایک یا دو لیڈروں کی کٹھ پتلی بنتی جا رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ان کے بغیر ان پارٹیوں کا گزارہ ہی نہیں ہے۔ لیکن یہ بات سب کو اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اگر ہماری پارٹیوں میں اندرونی جمہوریت ختم ہو گئی تو وہ بھارتی سیاست کی دائمی ایمرجنسی بن سکتی ہے۔
مالدیپ اور چین کے مابین فری ٹریڈ کا معاہدہ
مالدیپ بھارت کا پڑوسی ملک ہے اور سارک کا ممبر بھی‘ لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ وہ چین کا صوبہ بنتا جا رہا ہے۔ چینی صدر وہاں جا چکے ہیں۔ ان کے علاوہ کئی اور چینی لیڈر اور افسر بھی وہاں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم مودی باقی سبھی پڑوسی ممالک میں ہو آئے‘ پاکستان بھی گئے‘ لیکن ابھی تک مالدیپ نہیں جا سکے‘ حالانکہ مالدیپ بھارت سے اتنا ہی دور ہے جیسے بھارت کے اندر کا کوئی شہر کسی دوسرے شہر سے۔ دیکھا جائے تو ایک لحاظ سے مالدیپ بھارت کی خارجہ پالیسی کے لیے بڑی للکار بن گیا ہے۔ مالدیپ نے حال ہی میں چین کے ساتھ فری ٹریڈ کا معاہدہ کیا ہے‘ لیکن بھارت کے ساتھ اس کا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے‘ صرف سارک کے 'سافتہ‘ کے تحت بھارت مالدیپ تجارت چلتی ہے۔ جنوبی ایشیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ چین کا فری ٹریڈ معاہدہ نہیں ہے‘ لیکن اب اس نے مالدیپ کے ساتھ یہ معاہدہ کر لیا ہے۔ یعنی مالدیپ کے ساتھ چین ویسے ہی فری ٹریڈ کرے گا‘ جیسے وہ اپنے صوبوں کے ساتھ کرتا ہے۔ اس سمجھوتے پر دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت چار برس سے چل رہی تھی لیکن مالدیپ کی پارلیمنٹ نے اسے جس تیزی سے اور جس طرح جلدی میں پاس کیا ہے‘ وہ حیران کر دینے والا ہے۔ 777 صفحات کے اس معاہدے کو مالدیپ کی پارلیمنٹ نے صرف دس منٹ میں ہری جھنڈی دکھا دی‘ یعنی منظور کر لیا۔ اس پر کوئی بحث نہیں ہوئی۔ مالدیپ کی اپوزیشن نے بائیکاٹ کر دیا تھا‘ لیکن اس سے کیا ہوتا ہے؟ 85 ممبروں کی پارلیمنٹ میں صرف تیس ممبر کے ووٹوں سے ہی اسے پاس کر لیا گیا۔ اتنے ہی درکار تھے۔ چینی سرکار کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے لئے مالدیپ کے ساتھ آزادانہ تجارت کے راستے کھل جائیں؟ بالکل اسی طرح جولائی 2015ء میں بھی پارلیمنٹ نے ایک ایسا قانون آناً فاناً میں بنا دیا تھا‘ جس کے تحت کوئی بھی غیر ملکی سرکار یا فرد مالدیپ کے جزیروں کو خرید سکتا تھا۔ یہ دونوں سہولیات چین کے لیے فراہم کی گئی ہیں تاکہ وہ وہاں زمین خرید کر اپنا فوجی اڈہ بنا سکے۔ چینی صدر کے دورہِ مالدیپ کے دوران طرفین میں آٹھ معاہدے ہوئے تھے۔
سب سے بڑا معاہدہ ابراہیم بین الاقوامی ہوائی اڈہ بنانے کا تھا۔ اس ہوائی اڈے کو پہلے ایک بھارتی کمپنی بنا رہی تھی۔ اسے مسترد کر کے اس کی تعمیر کا ٹھیکہ چین کو دے دیا گیا۔ مالے (مالدیپ کا دارالحکومت) اور اس سے دس کلومیٹر دور سمندر میں قائم جزیرہ ہلہل کے بیچ چین اب ایک پل بنائے گا۔ مالدیپ چین کے شاہراہ ریشم منصوبے میں بھی حصہ لے گا۔ اس کے علاوہ چین نے وہاں سڑکیں اور مکان بنانے کے تجاویز پیش کرنا بھی شروع کر دی ہیں۔ گزشتہ برسوں میں مالدیپ پہنچنے والے سیاحوں میں 90 فیصد چینی تھے۔ میرے خیال میں بھارتی وزارت خارجہ کو خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر چینی مدد سے ہمارے پڑوسی ملکوں کی اکانومی حالت سدھرتی ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن ان منصوبوں کا اگر کوئی مقصد ہے تو بھارت کو اس کا ادراک کرنا چاہئے اور اس کے بارے میں سوچنا چاہئے۔ مالدیپ ہی نہیں‘ لگ بھگ سبھی پڑوسی ملکوں میں چین کی موومنٹ بڑھی ہے جبکہ چین کے پڑوسی ملکوں میں بھارت کی موجودگی نام بھر کی ہے۔ اسے بھارت کی نااہلی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
سچائی تو یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں ملک کی سبھی پارٹیاں کانگریس کی کاربن کاپی بنتی جا رہی ہیں۔ کانگریس ماں بیٹا پارٹی بن گئی ہے۔ ایک کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ بھارت میں کون سی ایسی پارٹی ہے‘ جو دعویٰ کر سکے کہ وہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی نہیں ہے؟ ساری صوبائی پارٹیاں خاندان پرستی کے آنگن میں جھولا جھول رہی ہیں۔ ملکی سطح پر کیا ہو رہا ہے اس سے انہیں جیسے کوئی غرض ہی نہیں۔ ہر کوئی اپنی غرض کا بندہ بنتا جا رہا ہے۔ کوئی باپ بیٹا پارٹی ہے‘ کوئی چاچا بھتیجا پارٹی ہے اور اب تو بھاجپا بھی بھائی بھائی پارٹی بنتی جا رہی ہے۔