کانگریسی لیڈر منی شنکر ایّر کو ان کی بد زبانی کی سزا مل چکی ہے۔ کانگریس نے ان کی مذمت کی ہے اور انہیں معطل کر دیا ہے۔ یہ معاملہ یہیں ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ اس کا جتنا فائدہ نریندر مودی اٹھا سکتے تھے‘ وہ انہوں نے اٹھا لیا ہے‘ لیکن یہ ہماری بھارت کی سیاست کی عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کو عوام اپنا لیڈر مانتے ہیں‘ وہ سب بے لگام ہوتے جا رہے ہیں۔ نریندر مودی نے منی شنکر ایّرکو مغلیہ کہہ دیا۔ یہاں تک تو ان کا الزام برداشت کیا جا سکتا تھا‘ لیکن انہوں نے یہ کہہ کر اپنے آپ کو کس سطح پر نیچے گرا لیا ہے کہ تین برس پہلے منی شنکر ایّرنے پاکستان میں بیٹھ کر مودی کو ہٹانے کی بات کیوں کی؟ انہوں نے کہیں (مودی کو ہٹانے کی) سپاری تو نہیں دی؟ کیا وہ یہ سپاری دینے پاکستان گئے تھے؟ مودی کو سوچنا چاہیے کہ کیا منی شنکر ایّر کبھی ایسی بات سوچ بھی سکتے ہیں؟ منی شنکر ایّر اپنی زبان پھسل جانے کے لیے مشہور ہو چکے ہیں‘ لیکن ان کی وطن پرستی پر سوالیہ نشان لگانا کہاں کی عقل مندی ہے؟ منی شنکر ایّر کافی پڑھے لکھے ہیں‘ اور سیاست میں آنے سے پہلے وہ ہماری وزارت خارجہ کے آئی ایف ایس افسر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ ایک عقیدت مند ہندو فیملی کے بیٹے ہیں۔ ان کی ماں بھگوا دھاری فقیر تھیں۔ ایسے منی شنکر ایّر پر بھارت کے کسی وزیر اعظم کا قتل کروانے کا شک کرنا بھی کوری بے و قوفی نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ اگر مودی کو ایسا شک تھا تو انہوں نے منی شنکر ایّر کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی؟ ان پر لگائے گئے اس الزام نے منی شنکر ایّر کے 'نیچ قسم کے آدمی‘ جیسے الفاظ کے اثر کو پتلا کر دیا ہے۔ جہاں تک پاکستان میں بیٹھ کر مودی پر تنقید کا سوال ہے‘ تو آپ ایک عام مخالف لیڈر سے اور کیا امید کر سکتے ہیں؟ جس وفد میں سلمان خورشید‘ منی شنکر ایّر اور سدھیندر کلکرنی پاکستان گئے تھے‘ اس کے ہر سیشن میں میری تقریر بھی ہوئی اور قریب قریب دو ہفتے کے قیام میں میرے درجنوں ٹی وی اور اخبارات کے انٹرویوز بھی ہوئے‘ لیکن مجھے اس وقت مودی پر تنقید کا کوئی سبب نہیں دکھا۔ بلکہ میں نے مودی کی اس وقت بھرپور تعریف کی‘ اس بات کے لیے کہ انہوں نے اپنی حلف برداری تقریب میں پاکستان سمیت سبھی سارک ممالک کو بلایا۔ وہ بنیادی طور پر میری ہی رائے تھی۔ میں نے پاکستان کے وزیر اعظم اور حزب اختلاف کے لیڈروں کو آمادہ کیا کہ وہ مودی سے بات چلائیں۔ آج ساڑھے تین سال بعد میری رائے وہ نہیں ہے‘ جو تب تھی لیکن پھر بھی کسی بیرونی ملک میں بیٹھ کر آپ اگر اپنے وزیر اعظم کے خلاف بولتے ہیں تو برائے مہربانی بتائیں کہ اس سے اپنی خارجہ پالیسی کو کیا فائدہ ہو گا؟
جملے بازی میں پھنس گئے ٹرمپ
امریکی صدر ٹرمپ نے اب ایک ایسا قدم اٹھا لیا ہے‘ جیسا ان سے پہلے تک کوئی صدر نہیں اٹھا سکا۔ انہوں نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ خود اسرائیل نے 1980ء میں اسے اپنا دارالحکومت قرار دے دیا تھا۔ درجنوں ممالک نے اپنے سفارتخانے تل ابیب میں کھول رکھے ہیں۔ یروشلم کوئی نہیں گیا۔ یہ ٹھیک ہے کہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی‘ مغربی سرحد اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا‘ لیکن ان مقامات پر پہلے سے رہنے والے فلسطینی لوگوں نے کبھی اپنا دعویٰ نہیں چھوڑا۔ وہ اس علاقہ کی آزادی کے لیے مسلسل تحریک چلاتے رہے ہیں۔ 1980ء میں سلامتی کونسل نے بل پاس کرکے یروشلم پر اسرائیلی قبضے کو ناجائز قرار دیا تھا۔ یروشلم میں دنیا کے تین بڑے مذاہب کے مذہبی مقامات ہیں۔ یہودی‘ عیسائی اور مسلم‘تینوں یہ قرار دیتے ہیں کہ یہ شہر ان کا ہے۔ اگر اس پر اکیلے اسرائیل کے قبضے کو قانونی مان لیا جائے تو دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں اور کروڑوں عیسائیوں کو سخت اعتراض ہو گا۔ اسرائیلی قبضے سے پہلے اس کے مغربی حصہ پر جارڈن (اردن) اور فلسطینیوں کا قبضہ تھا۔ 1948ء میں اقوام متحدہ نے جو تجویز پیش کی تھی‘ اس کے مطابق انگریزوں کے ذریعے خالی کرائی گئی اس جگہ پر اسرائیل اور فلسطین نام کے دو ریاستیں بنائی جانی تھیں‘ اور یروشلم کو ایک بین الاقوامی ضابطے میں رہنا تھا‘ لیکن اب ٹرمپ کے اس اعلان سے اسرائیل فلسطین تنازع نے ایک نیا موڑ لے لیا ہے۔ لگ بھگ دنیا کے سبھی ممالک نے ٹرمپ کی مذمت کی ہے اور اس کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ ابھی تک ایک بھی ملک نے ٹرمپ کی حمایت نہیں کی ہے ۔تو پھر ٹرمپ نے ایسا اعلان کیوں کیا؟ کیونکہ اسے اپنا چناوی (انتخابی) وعدہ پورا کرنا تھا۔ جو مسلم ملک امریکہ کے دوست ہیں انہوں نے بھی ٹرمپ کی مذمت کی ہے۔ ٹرمپ کو چاہیے تھا کہ وہ ہمارے نریندر مودی کو اپنا گرو بنا لیتے‘ جو اپنی چناوی وعدوں کو جملہ بازی کہہ کر ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ ٹرمپ نے فضول ہی ایک نئی مصیبت اپنے سر لے لی ہے۔
تبدیلی
سعودی عرب کچھ معاشرتی تبدیلیاں لانے کو تیار ہو گیا ہے۔ 32 سالہ شہزادہ محمد بن سلمان نے اس انقلابی بدلائو کا بیڑا اٹھایا ہے۔ وہ اپنی فطرت میں ہی انقلابی ہیں۔ انہوں نے کچھ ہفتے پہلے شاہی خاندان کے کئی رئیسوں کو پکڑ کر اندر کر دیا تھا‘ جو ان کے تئیں بدعنوان تھے۔ بعد میں ان میں سے کچھ کو رہا کر دیا گیا۔ انہوں نے عزم کیا ہے کہ وہ اسلام کی حقیقی روایات قائم کریں گے۔ نیویارک ٹائم نے ایسے دس اقدامات گنوائے ہیں‘ جو شہزادہ سلمان کر رہے ہیں۔ پہلا‘ پولیس کے اختیارات میں بڑی کٹوتی کی گئی ہے۔ پہلے پولیس خواتین کو اس لیے گرفتار کر لیتی تھی کہ انہوں نے دستانے کیوں نہیں پہن رکھے۔ اب ایسا نہیں ہو سکے گا۔ دوسرا‘ خواتین اب یعنی اگلے سال سے کار چلا سکیں گی۔ اس سے پہلے ان کا گاڑی چلانا منع تھا۔ تیسرا‘ فروری میں کامک کان فیسٹیول ہوا‘ جسے قبل ازیں برا سمجھا جاتا تھا۔ اس سے پہلے کوئی عورت تب تک کوئی سرکاری نوکری نہیں کر سکتی تھی‘ جب تک وہ اپنے گھر کے کسی فرد سے منظوری نہ لے لے۔ یہ قانون ختم کر دیا گیا ہے۔ پانچواں‘ سینما فیسٹیول بھی منایا گیا۔ اب کئی مالز میں سینما گھر بھی بنیں گے۔ یعنی لوگ وہاں اب سینما جا سکیں گے۔ چھٹا‘ مدینہ میں ایک احاطہ ایسا بنے گا‘ جہاں بیٹھ کر لوگ غور کریں گے کہ مذہب کے نام پر کٹڑ پنتھی لوگوں نے کیا کیا غلط باتیں تھوپ رکھی ہیں۔ ساتواں‘ ریاض اور جدہ میں کامیڈی فیسٹیول ہوئے اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ آٹھواں‘ ستمبر 2017ء میں پہلی بار مسلم خواتین کو سٹیڈیم جانے کی اجازت ملی۔ نواں‘ سعودی عرب میں اب انٹرنیٹ کی اجازت دے دی گئی ہے۔ انٹرنیٹ چلانے پر لگ بھگ تین ارب ڈالر خرچ ہوں گے۔ دسواں‘ بیرونی ممالک کے سیاحوں کے لیے سرکار ایسی سیر گاہیں بنوا رہی ہے‘ جہاں وہ پوری آزادی سے رہ سکیں گے۔ یہ سب بدلائو کرتے ہوئے شہزادہ کا کہنا ہے کہ وہ پُرانے زمانے کا کھلا نظام قائم کریں گے۔ شہزادہ کے اس انقلابی ارادے کا میں تہہ دل سے احترام کرتا ہوں لیکن میں ان سے یہی کہوں گا کہ وہ مغرب کی اندھی نقل سے بچیں۔
لگ بھگ دنیا کے سبھی ممالک نے ٹرمپ کی مذمت کی ہے اور اس کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا۔ ابھی تک ایک بھی ملک نے ٹرمپ کی حمایت نہیں کی ہے ۔تو پھر ٹرمپ نے ایسا اعلان کیوں کیا؟ کیونکہ اسے اپنا چناوی (انتخابی) وعدہ پورا کرنا تھا۔ جو مسلم ملک امریکہ کے دوست ہیں انہوں نے بھی ٹرمپ کی مذمت کی ہے۔ ٹرمپ کو چاہیے تھا کہ وہ ہمارے نریندر مودی کو اپنا گرو بنا لیتے‘ جو اپنی چناوی وعدوں کو جملہ بازی کہہ کر ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ ٹرمپ نے فضول ہی ایک نئی مصیبت اپنے سر لے لی ہے۔