"DVP" (space) message & send to 7575

اور اب نیپال خود ایک للکار ہے!

نیپال میں لینن وادی پارٹی اور پرچنڈ کی مائو وادی نے مل کر چنائو میں مکمل فتح حاصل کر لی ہے۔ انہیں واضح اکثریت ہی نہیں‘ نہایت ہی مضبوط اکثریت بھی ملی ہے۔ نیپال میں کچھ اسباب کے باعث گزشتہ دس برسوں میں دس سرکاریں بدلی گئیں‘ یعنی ایک برس میں ایک سرکار۔ ایک برس میں کوئی سرکار آخر کیا کرشمہ کر سکتی ہے۔ اس دوران یہ بھی ہوا کہ خطرناک اور ہولناک زلزلے نے ہزاروں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا‘ اور لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا تھا۔ اور بھی کئی مسائل سر اٹھاتے رہے۔ نیپال کی اقتصادی قوت لڑکھڑا گئی اور معاشی مسائل گمبھیر ہو گئے۔ اب امید بنی ہے کہ یہ نئی سرکار اپنا پورا وقت نیپالی عوام کی خدمت میں گزارے گی۔ یہ دراصل دو کمیونسٹ پارٹیوں کے اتحاد کی سرکار ہے۔ اس میں اصولوں سے زیادہ ذاتی تکرار کے فرق کی گنجائش زیادہ ہے‘ لیکن نیپال کے مفاد کے لیے ان دونوں پارٹیوں کو باہم جوڑے بھی رکھے گی۔ اس طرح امید ہے کہ معاملہ چلتا رہے گا اور دس سالوں میں دس سرکاریں بدلنے والی صورتحال پیدا نہیں ہو گی۔ یہ نیپالی عوام کے لئے اچھا ہے۔ ان کو بھی کچھ ریلیف ملے گا اور ان کی معیشت بہتر ہو جائے گی۔ پڑوسیوں کے ساتھ معاملات اچھے ہونے کی امید بھی ہے؛ تاہم یہاں بھارت میں فکر کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے ساتھ اب نیپال کے تعلقات کیسے رہیں گے؟ ایمالے کے لیڈر کے پی اولی اور مائو وادی لیڈر پشپ کمل دہل (پرچنڈ)‘ دونوں کی سربراہی کے دوران نیپال چین تعلقات بہت اچھے اور گہرے تھے۔ نیپال میں وزیر اعظم بننے کے بعد بھارت نہ آ کر پہلے پہل کوئی چین چلا جائے‘ ایسا پہلی بار ہوا ہے۔ 2015ء میں نیپال میں آئے زلزلہ کے دوران بھارت نے نیپال کی فوری طور پر جو بے انتہا اور زبردست مدد کی تھی‘ اس کے سبب بھارت اور نیپال میں محبت کی جو دھارا بہی تھی‘ اسے ہماری سرکار نے نیپال کی ناکہ بندی کرکے چور چور کر دیا۔ نیپال اب پتا نہیں چین کے کتنے نزدیک چلا جائے۔ چین اب نیپال میں ریلوے کا جال بچھا رہا ہے اور اس نے اسے اپنی بندرگاہوںکی سہولیات بھی دے دی ہیں۔ اس طرح اس لینڈ لاک ریاست کو بندرگاہ کی سہولت بھی حاصل ہو گئی ہے۔ الگ الگ منصوبوں پر چین نیپال میں لاکھوں کروڑوں ڈالر بھی لگا رہا ہے۔ نیپال نے چین کے ایشیائی شاہراہ پروجیکٹ میں متحرک حصہ داری کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اس طرح نیپال اب ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے بھی جڑ جائے گا۔ ظاہری بات ہے‘ اس کے نتیجے میں نیپال چین تجارت میں بھی اضافہ ہو گا۔ اب تک نیپال پٹرول‘ ڈیزل وغیرہ کے لیے بھارت پر ہی انحصار کرتا رہا ہے۔ اب اسے چین سے بھی سپلائی آنے لگے گی۔ بھارت کے لیے اب ایک للکار یہ بھی ہو گی کہ مدھیسیوں اور دیگر ذات والوں کو انصاف ملے۔ مودی کی پڑوسی ممالک کے حوالے سے بنائی گئی پالیسی کو دیکھیں تو اب نیپال ہی ان کی حکومت کے لئے ایک للکار بن جائے گا۔ ایک امتحان بن جائے گا۔ اب تک نیپال بھارت کا مرہون منت رہا ہے‘ لیکن آئندہ نہیں رہے گا۔ اس للکار کا سامنا اکیلے مودی جی کیسے کریں گے‘ یہ دیکھنا ہے۔
بھارت کی خاموشی؟
روس‘ بھارت اور چین کے وزرائے خارجہ کی سالانہ بیٹھک آٹھ ماہ دیر سے ہوئی لیکن ہوئی اور دلی میں ہوئی۔ یہ اچھا رہا کیونکہ گزشتہ دنوں ٹرمپ کے ایشیا کے کچھ ممالک کے دورے کے دوران ساری دنیا میں پیغام یہ گیا کہ بھارت اب امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر ایشیا میں ایک نئی چوکھمبا سیاست کی شروعات کر رہا ہے۔ عالمی دنیا میں یہ تاثر پھیل گیا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے مودی کو اپنی کشش میں پھنسا لیا ہے۔ ویسے بھی اپنی اپنی اندرونی سیاست میں دونوں کی جگل بندی خوب جمتی ہے۔ اس تاثر کو ختم کرنے میں دلی کی یہ تین ملکوں کی بیٹھک کچھ حد تک ضرور مددگار ثابت ہو گی‘ لیکن سب سے زیادہ دھیان دینے لائق یہ بات ہے کہ تینوں ملکوں نے جو 46 پیرے کا مشترکہ بیان جاری کیا ہے‘ اس میں پورے تین پیرے دہشتگردوںکی مذمت پر لکھے گئے ہیں۔ دراصل ہمارے لیڈر بڑبولے ہیں‘ لیکن دبو ہیں۔ دوسروں سے فوراً مرعوب ہو جاتے ہیں۔ وزیرخارجہ سشما سوراج نے تو اپنے بیان میں دہشتگردی کے بارے میں بولتے ہوئے اپنا فرض نبھایا لیکن مشترکہ بیان میں بھارت کی خاموشی تعجب خیز ہے۔ چین اور روس ایسا کون سا بھارت کا بھلا کر رہے ہیں کہ انہیں خوش کرنے کے لیے بھارت نے دہشتگردی پر دبی زبان سے بات کی ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ دوکلام میں اب 1600 چینی فوجی جوان جم گئے ہیں۔ جب سمجھوتہ ہوا تھا تو اس وقت وہ 600 تھے۔ دوکلام میں ہوئی واپسی کے بعد چین نے وہاں تین سڑکیں بنا لی ہیں۔ چینی وزیر خارجہ نے بھارت سے جاتے جاتے کافی سخت بیان جاری کیا ہے۔ اس نے دوکلام سے سبق لینے کی رائے بھارت کو دی ہے۔ روس نے بھارت کو صلاح دی ہے کہ وہ چین کے ایشیائی شاہراہِ ریشم تجویز میں حصہ دار بنے۔ اسے بھارت کے اعتراض کی ذرا بھی پروا نہیں ہے۔ ایسی بیٹھک کے بعد 46 پیرے کی مشترکہ تحریر میں لکھی میٹھی میٹھی باتیں بے تکی سی لگتی ہیں۔
جتنی تعریف کریں‘ کم ہے!
یہاں بھارت میں دلی کی سرکار کی جتنی تعریف کی جائے‘ کم ہے۔ وزیر اعلیٰ اروند کجری وال نے دلی کی مریضوں کو جو راحت پہنچائی ہے‘ اس سے ہر صوبے کی سرکار اور وفاقی سرکار کو بھی نصیحت لینی چاہیے بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ پڑوسی ملکوں کی سرکاروں کو بھی کجری وال سرکار کے اس فیصلہ کے نقش قدم پر چلنا چاہیے۔ دلی سرکار نے اعلان کیا ہے کہ دلی میں ہونے والے روڈ ایکسیڈنٹ میں زخمی ہونے والوں کا علاج مفت میں ہو گا۔ وہ سرکاری ہسپتالوں میں جائیں یا غیر سرکاری میں‘ ان کا سارا خرچہ سرکار اٹھائے گی۔ یہی سروس انہیں بھی ملے گی‘ جو آگ زنی یا تیزابی حملوں کے شکار ہوں گے۔ دلی میں ہر برس لگ بھگ آٹھ ہزار سڑک حادثے ہوتے ہیں‘ جن میں بیس ہزار لوگ زخمی ہوتے ہیں اور ان میں قریب قریب 1600 لوگ مارے جاتے ہیں۔ بھارت میں ہر سال لگ بھگ پونے دو لاکھ لوگ سڑک حادثوں میں مر جاتے ہیں۔ اگر ایکسیڈنٹ ہوتے ہی زخمیوں کو ہسپتال پہنچایا جائے تو آدھے لوگوں کو مرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اب دلی سرکار زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے والوں کو دو ہزار روپے بھی دے گی۔ اس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ لوگ زخمیوں کو دیکھ کر منہ پھیر کر آگے بڑھ جاتے ہیں‘ کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ یہ سر درد کیوں مول لیں‘ لیکن اب لوگ آگے ہو کر اپنا انسانیت کا فرض نبھائیں گے۔ کئی زخمی اس لیے بھی دم توڑ دیتے ہیں کہ ان کے پاس علاج کے لیے پیسہ ہی نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے پرکھا جائے تو دلی سرکار کا یہ نہایت اعلیٰ قدم ہے‘ جس سے دوسروں کو بھی سبق حاصل کرنا چاہئے۔ میں نے کچھ برس پہلے مشورہ دیا تھا کہ اگر سرکاری ہسپتالوں کو سدھارنا ہے تو یہ لازمی کر دیا جائے کہ سبھی سرکاری ملازمین اور عوامی لیڈر اور ان کے رشتہ داروں کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں ہی ہو۔ اگر اروند یہ قدم اٹھا لیں تو وہ ابھی دلی کے لیڈر ہیں‘ پھر وہ ملک کے لیڈر بننے کے راستہ پر چل پڑیں گے۔ مجھے یہ خوشی بھی ہے کہ دلی کی سرکار میٹرو کے کرایہ کم کرنے پر بضد ہے۔ ایسا ہو جائے تو اس سے بھی لوگوں کو خاصا ریلیف ملے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں