وفاقی سرکار کے ایک اہم فیصلہ پر سپریم کورٹ نے اپنی مہر لگا دی ہے۔یہ فیصلہ ایسا ہے ‘جو بہت پہلے ہی ہو جانا چاہیے تھا لیکن سبھی سرکاریں اسے ٹالتی رہی ہیں ۔فیصلہ یہ ہے کہ جتنے بھی ایم پی ایز اور ایم ایل ایز پر مجرمانہ مقدمے چل رہے ہیں ‘انہیں جلد ازجلد نمٹایا جائے ۔موجودہ دور میں 1581 چنے ہوئے لیڈروں پر ایسے مقدمے چل رہے ہیں ۔پہلے چنے گئے اور اب ہارے ہوئے بھی سینکڑوں لیڈرایسے مقدموں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔اگر ملک کے ایک چوتھائی قانون ساز گناہوں میں پھنسے ہوئے ہیں تو آپ اندازہ کیجئے کہ ملک میں قانون کی حکومت کا دعویٰ کتنا دم دار ہو سکتا ہے ؟یہ ٹھیک ہے کہ لیڈروں پر چل رہے مقدمے جھوٹے بھی ہو سکتے ہیں ۔لیکن جوبھی ہو‘ان کا دامن صاف دکھائی پڑنا چاہیے ۔اگر لیڈر کا دامن داغ دار ہوتا ہے تو اس کے پیروکاروں کی ہمت کو ہوا ملتی رہتی ہے ۔گناہوں کا لمبا سلسلہ چل پڑتا ہے ۔سیاست گناہوں کی زرہ بکتر بن جاتی ہے ۔قتل ‘اٖغوا ‘رشوت ‘زبردستی ‘عیاشی‘دنگے وغیرہ سبھی جرم یہ لیڈر لوگ سینہ تان کر کرتے ہیں۔پہلے تو ان کے خلاف ایف آئی آرداخل ہونا بھی مشکل ہوتا ہے اور مقدمہ چلانا اور بھی مشکل ۔مقامی عدالتیں بھی ایسے معاملات کو کھونٹی پرلٹکا کر سو جاتی ہیں ۔اس بیماری کے خلاف سرکار کا یہ فیصلہ لائق تعریف ہے کہ یکم مارچ 2018 ء سے الگ الگ صوبوں میں 12 عدالتیں ان سیاسی مجرموں کے مقدموں کو برس بھر میں نمٹائیں گی۔ سال بھر وقت تو بہت خوب ہے لیکن انگریز دور کی ہماری عدالتیں انہیں ڈیڑھ برس میں ہی نمٹا دیں تو کم ازکم اگلے چنائو تک ملک کی سیاست کچھ حد تک ضرور صاف ہو جائے گی ۔ان عدالتوں کے لیے سرکار نے 7.8 کروڑ روپیہ کا بجٹ رکھا ہے ۔اگر لیڈر لوگ سزا پائیں گے تو اس کا اثر کافی ہوگا ۔عام زندگی میں بھی گناہ کم ہوں گے ۔میں سوچتا ہوں کہ لیڈروں کو جو سزا دی جائے وہ عام آدمیوں کے مقابلے دوگنی کیوں نہیں ہونی چاہیے ۔اگر سرکار پارلیمنٹ میں کوئی ایسا قانون بنا دے تو ہمارے ملک کی سیاست کے صاف ہونے میں اس کاتعاو ن ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔
علاج :ابھی بہت کام باقی ہے
یہ خوشی کی بات ہے کہ وفاقی سرکار اب ملک میں علاج کے انتظام میں بنیادی سدھار کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔کسی بھی ملک کے پیداوار کے دوپہلے بنیاد ہوتے ہیں ۔ایک تعلیم اور دوسرا علاج !تعلیم دل و دماغ کو پٹری پر رکھتی ہے اور علاج جسم کو تعلیم کے معاملے میں موجودہ سرکار بھی گزشتہ سرکاروں کی طرح بھیڑ چال چل رہی ہے لیکن اب پارلیمنٹ میں بل پیش کر کے وہ علاج کے شعبے میں انقلاب برپا کرنا چاہتی ہے ۔پہلے بھی اس نے ضروری ادویات کے دام باندھ کر کمپنیوں کی لوٹ پاٹ پر لگام لگائی تھی لیکن اب اس نے بہت بدنام ہوئی میڈیکل کونسل کو ختم کر کے نئے قومی میڈیکل کا بندوبست کیا ہے ۔اس کا انتظام کچھ ایسا ہوگا ‘ جس میں ڈاکٹری کی تجارت کے باہر کے لوگ بھی ہوں گے تاکہ عام عوام کے مفادات کی بھی حفاظت ہو سکے۔اسی طرح اس کے کام کا طریقہ بھی ایسا بنایا گیا ہے کہ میڈیکل کالجوں کو منظوری دینے میں اب تک جو بے لگام بدعنوانی ہوتی تھی ‘اس پرضابطہ رہے ۔ اس میں چار طرح کے بورڈ بنائے گئے ہیں ‘جو میڈیکل کالجوں کی منظوری ‘پڑھائی اور ڈاکٹروں کی پریکٹس پر کڑی نگرانی رکھیں گے ۔ان کالجوں کو ہر برس اپنی منظوری دہرانے میں آزادی ملے گی ۔ان سب کاموں کے لیے ان کالجوں کے مالکوں سے کونسل کے افسر کروڑوں روپیہ کی رشوت کھاتے تھے ۔بدلے میں یہ مالک لوگ ڈاکٹری کے سٹوڈنٹس سے لاکھوں روپیہ اینٹھ لیتے تھے۔ یہ کچے پکے ڈاکٹر پھر اپنے مریضوں سے وہ پیسہ وصولتے تھے ۔ہمارے نجی ہسپتال جس طرح کی ڈاکہ زنی کرتے ہیں ‘اس کے دل دہلانے والے آنکڑے روز سامنے آ رہے ہیں۔ سرکار کو اب چاہیے کہ ان ہسپتالوں میں ہونے والے ہر علاج ‘ہر دوا‘آلات اور خدمت کے بھی دام باندھے ۔اس کے علاوہ اس میں دم خم ہو تو وہ یہ بھی لازمی کر دے کہ ملک کے سبھی سیاست دان اور ان کے رشتے دار‘سرکاری ملازمین ان سب کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں ہی ہو تاکہ ان کی سطح سدھر سکے ۔میڈیکل کی پڑھائی جب تک بھارتی زبانوں میں نہیں ہوگی ‘ یہ علاج کا بندوبست بھارت کے 90 فیصد لوگوں کے لیے جادو ٹونا ہی بنا رہے گا ۔لیکن ان لیڈروں میں اتنی دور کی سوچ کیسے پیدا کریں ؟ 200 برس کی غلامی دور ہوتے ہوتے دور ہوگی ۔
گجرات :جان بچی تو لاکھوں پائے
گجرات میں بھاجپا جیت گئی اور کانگریس ہار گئی ۔جیت تو جیت ہے ‘پھر وہ کیسی بھی ہو !اگر بھاجپا کارکن جشن منا رہے ہیں تو اس میں غلط کیا ہے ؟لیکن گجرات کے جو نتائج آئے ہیں ‘انہیں باریکی سے دیکھا جائے تو پتا چلے گا کہ بھاجپا کی یہ جیت کتنی مہنگی ہے۔گجرات کا چنائو جیتنے کے لیے بھاجپا نے اپنی جان لگا دی تھی ۔کسی وزیراعظم نے کسی صوبہ کے چنائو میں اپنی عزت اس طرح دائو پر لگا دی ہو ‘مجھے یاد نہیں پڑتا ۔بھاجپا کی مرکزی وزرا‘وزرائے اعلیٰ اور ایم پی ایز نے خون پسینہ ایک کر دیا ۔ہندو ووٹوں کو حاصل کرنے کے لیے وہ پاکستان کی پناہ میں چلے گئے ۔ملک کے کئی لیڈروں کو بیرونی اشارے پر سازش کرتے ہوئے دکھایا گیا ۔منی شنکر ایّرکو بات کی ذات سے جوڑ دیا گیا اور اسے خوب بھنایا ۔راہول کی چمک بگاڑنے کے لیے اس کے دادا پردادا تک کو گھسیٹا گیا ۔گجرات کے شہری میئروں کو کئی کئی اربوں کی خیرات بانٹ دی گئی ۔اس کے باوجود بھاجپا کو صرف 99 نشستیں ملیں ۔یعنی سولہ سیٹوں سے پیچھے رہی ۔اسے کم ازکم پندرہ سیٹیں زیادہ ملنی چاہیے تھیں۔اسے 130 نشستیں ملتیں تو مجھے زیادہ خوشی ہوتی لیکن کوئی بات نہیں۔جان بچی تو لاکھوں پائے ۔
اس چنائو نے کانگریس کی سوکھی جڑوں کو ہرا کر دیاہے ۔2014 ء کے قومی چنائو میں وہ سبھی 26 سیٹیں ہار گئی تھیں ۔اس حساب سے اس کا سونپڑا صاف ہو جانا چاہیے تھا لیکن اس کی لگ بھگ بیس نشستیں بڑھ گئی ہیں۔ وہ80 کا آنکڑہ چھو رہی ہے ۔ظاہر ہے کہ اس اضافے کا کریڈٹ تینوں پاٹی دار ‘دلت اور محروم نوجوان لیڈروں کو ہے ۔لیکن مودی کے مقابلے میں راہول کی چمک بہتر ہوئی ہے ۔2019 ء کے قومی چنائو کے لیے گجرات نے ایک متحدہ مورچے کی بنیاد رکھ دی ہے ۔گجرات میں مودی کو صرف ایک بات نے بچایا (گجرات نو ڈکرو)گجرات کا بیٹا۔یہ حقیقت دوسرے صوبوں میں کام آ پائے گی ؟یہ حقیقت کانگریس کے ذات پات اور مودی کے ہندو پرست سے بھی زیادہ بھاری ثابت ہوئی۔مودی کی لہر بھی کام کی نہیں رہی ۔اگر بھاجپا کو 2019 ء میں جیتنا ہے تو اس کو اپنی قیادت اور اپنی سرکار کے کام پر دوبارہ غور کرنا ہوگا ۔
اس کے علاوہ اس میں دم خم ہو تو وہ یہ بھی لازمی کر دے کہ ملک کے سبھی سیاست دان اور ان کے رشتے دار‘ سرکاری ملازمین ان سب کا علاج سرکاری ہسپتالوں میں ہی ہو تاکہ ان کی سطح سدھر سکے ۔ میڈیکل کی پڑھائی جب تک بھارتی زبانوں میں نہیں ہوگی ‘ یہ علاج کا بندوبست بھارت کے 90 فیصد لوگوں کے لیے جادو ٹونا ہی بنا رہے گا ۔لیکن ان لیڈروں میں اتنی دور کی سوچ کیسے پیدا کریں؟ 200 برس کی غلامی دور ہوتے ہوتے دور ہوگی ۔