"DVP" (space) message & send to 7575

راہول بنائے مودی کو بہتر مودی!

گجرات میں کانگریس ہار گئی۔ یہ بہت ہی اچھا ہوا۔ اگر وہ جیت جاتی تو آپ ہی سوچئے کیا ہوتا؟ راہول گاندھی کے دماغ میں مودی کی طرح ہوا بھر جاتی۔ راتوں رات وہ اپنے آپ کو مودی کو شکست دینے والے مہا نایک سمجھنے لگتے اور ان کے تین نوجوان ساتھی ہاردک پٹیل‘ جگنیش میوانی‘ الپیش ٹھاکر کہتے کہ اصلی لیڈر تو ہم ہیں۔ جس جیت کے چار چار دعوے دار ہوں‘ اس کی حالت کیا ہوتی‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ پھر یہ بھی سوچئے کہ اگر گجرات میں مودی کی ہار ہو جاتی تو کیا ہوتا؟ مودی کے غرور کا غبارہ پچک جاتا۔ وہ سب کے باس نہ رہتے بلکہ پہلے کی طرح برابری میں کام کرنا شروع کر دیتے۔ دل کی بات کرنے کی بجائے کام کی بات کرنے لگتے۔ جنہیں برین ڈیڈ کہہ کر راستہ دکھانے والے منڈل کی طاق پر بٹھا دیا گیا‘ ان بزرگ لیڈروں کی وہ آرتی اتارتے۔ ان کی اہمت مودی کے لئے ایک دم بڑھ جاتی۔ وہ صحافیوں سے ڈرنے کی بجائے ان کی سنگت کے لیے بیتاب ہو جاتے۔ وہ باقی ماندہ ڈیڑھ برس میں کچھ ایسا کر دکھاتے جو نام نہاد سرجیکل سٹرائیک‘ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے بہتر ہوتا اور ان کے ہاتھوں ہونے والے ان تینوں کاموں سے جو نقصان ہوا ہے‘ اس کی بھرپائی ہو جاتی۔ 2019 ء کے الیکشن کی زبردست تیاری بھی اپنے آپ ہو جاتی۔ اب بھی وہ ضرور ہو گی‘ کیونکہ مودی اور امیت شاہ کو سب سے زیادہ پتا ہے کہ گجرات کی اس جیت کے معنے کیا ہیں۔ وہ حالات و واقعات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ اس کامیابی پر کارکن جشن منائیں‘ یہ فطری ہے لیکن دونوں بھائیوں کو اس معمولی جیت کے لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے ہیں‘ یہ وہی جانتے ہیں۔ اس چنائو نے دونوں بھائیوں کی چمک کو پھیکا کر دیا ہے اور راہول کی چمک کو نکھارا ہے۔ راہول کو پتا ہونا چاہیے کہ گجرات میں ان کو ملی بڑھت صرف ان کے سبب نہیں ہے۔ مطلب 2019ء کے الیکشن میں مودی کو ٹکر دینا ہے تو پورے بھارت کی سطح پر مورچہ بنانا ہو گا۔ اچھے اخلاق‘ کردار اور قربانی کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ امکانی مورچوں کے سبھی لیڈر (اکھلیش یادو) کے سوا راہول سے بڑے ہیں۔ راہول چاہیں تو ابھی سے کہہ دیں (بالکل اپنی ماں کی طرح) کہ وہ وزیر اعظم کے عہدے کے طلب گار نہیں ہیں۔ دیکھئے‘ پھر کیا ہوتا ہے؟ کیسے سارا ملک راہول کے آس پاس منڈلانے لگتا ہے۔ ساری پارٹیاں دوڑ دوڑ کر راہول کو گلے لگانے لگیں گی۔ مودی کی گاڑی اپنے آپ پٹڑی پر آ جائے گی۔ ملک کی جمہوریت مضبوط ہو گی۔ اس کے باوجود اگر 2019ء میں مودی جیت گئے تو وہ مودی ذرا بہتر مودی ہو گا۔ آج والا مودی نہیں ہو گا۔
ٹرمپ کا زلزلہ: بھارت خبردار رہے! 
امریکہ نے اپنی قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کرکے عالمی سیاست میں زلزلہ برپا کر دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی تقریر میں اپنی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے بھارت کو مستقبل کی ایک طاقت قرار دیا‘ اور اس کے سمندری علاقے کے اہم کردار کی تعریف کی۔ ایشیائی ممالک کی خود مختاری کا اسے نگہبان بھی کہا۔ 65 صفحات کی اس تاریخی دستاویز میں بھارت کا نام آٹھ بار لیا گیا۔ بھارت اور امریکہ کی جنگی حصہ داری پر بھی کافی زور دیا گیا۔ علاوہ ازیں بھارت‘ جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ مل کر امریکہ ایسا اتحاد بھی تیار کرنا چاہتا ہے‘ جو روس اور چین کی دادا گیری کا مقابلہ کر سکے۔ بھارت کی اہمیت کو یوں تو رچرڈ نکسن‘ پھر جارج بش‘ کلنٹن اور اوباما نے برابر قبول کیا تھا‘ لیکن ٹرمپ نے بھارت پر اپنے لفظوں کا خزانہ ہی لٹا دیا ہے۔ ٹرمپ کی اس ادا پر کون بھارتی فدا نہیں ہو جائے گا؟ اس طرح کی باتوں سے بھارت بہت خوش ہے‘ لیکن ٹرمپ کا کیا بھروسہ؟ وہ پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہو جاتے ہیں۔ مجھے شک یہ ہے کہ ٹرمپ نے یہ حربہ کہیں اس لیے تو نہیں اپنایا کہ وہ روس اور چین کے خلاف اپنے جنگی مورچے میں بھارت کو بھرتی کرنا چاہتے ہیں۔ اسی دستاویز پر بولتے ہوئے انہوں نے نئی سرد جنگ کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے بیس پچیس برس پہلے ختم ہوئی سرد جنگ کو دوبارہ آواز لگا دی ہے۔ وہ چین اور روس کے ذریعے امریکہ کی طاقت‘ خوشحالی اور تہذیب کو دی جا رہی للکار کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہتے ہیں۔ روس اور چین نے ان کی اس پالیسی کی مذمت کی ہے۔ بھارت سرکار اس کی تعریف کرے‘ یہ فطری ہے لیکن مجھے اعتماد ہے کہ تاریخ کے اس نازک مقام پر بھارت سرکار مضبوطی کا مظاہرہ کرے گی۔ وہ اس گروپ میں شامل ہونے یا اس گروپ کا مہرہ بننے کی بجائے بیچ کا راستہ چنے گی۔ وہ کسی ایک گروپ کا پچھ لگو بننے کی بجائے دونوں گروپوں سے بہتر تعلقات بنائے رکھے گی کہ درمیان کا راستہ اختیار کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ٹرمپ کے پیدا کردہ اس زلزلے میں مودی سرکار بھارت کو چوکنا رکھے گی اور کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرے گی جس سے بھارت کے اس خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہو جائیں۔ مطلب یہ کہ صدر ٹرمپ کی بھارت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی خواہش پوری نہیں ہو گی۔
قانون سے جادو ٹونا ختم کریں! 
ملک کو آزاد ہوئے ستر برس ہو گئے لیکن کئی معاملات میں ہم اب بھی جانے انجانے انگریزوں کی غلامی کرتے آ رہے ہیں تاہم یہاں بھارت میں بھاجپا سرکار کچھ شعبوں میں لائق تعریف پہل کر رہی ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی اگر ہماری صوبائی سرکاریں اپنا ڈھرا بدلیں تو پورے جنوبی ایشیا کا بھلا ہو گا۔ بھاجپا کی مرکزی سرکار نے گزشتہ تین برس میں 1800 ایسے قوانین کو ردی کی ٹوکری کے حوالے کر دیا‘ جو انگریز کے بنائے ہوئے تھے‘ لیکن جن کی میعاد اب ختم ہو چکی ہے۔ بھارت میں ڈیڑھ سو برس سے بھی زیادہ پرانے ایسے قانون چل رہے تھے‘ جو انگریزوں کے خلاف بغاوت کو روکنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ عورت مرد تعلقات کے حوالے سے ایسے قوانین تھے‘ جو وکٹوریہ کے زمانہ میں بریٹین (برطانیہ) میں نافذ تھے۔ ایسے قانون ہٹانے کے لیے ہمارے قانون کمیشن نے کئی لمبی چوڑی رپورٹیں پیش کی تھیں۔ گزشتہ سرکاروں نے ان پر زیادہ دھیان نہیں دیا لیکن موجودہ سرکار نے ابھی ابھی پارلیمنٹ میں بل پاس کر کے 235 پرانے قوانین اور انگریز کے زمانہ کے 9 آرڈیننسوں کو بھی رد کر دیا ہے۔ سب کو پتا تھا کہ انگریز کے بنائے یہ سینکڑوں قوانین اب بیکار ہو چکے ہیں‘ لیکن کئی بار عدالتی فیصلے انہی کی بنیاد پر ہوتے تھے۔ ایسے میں قانون کی رکھوالی تو ہو جاتی تھی‘ لیکن انصاف کی جگہ ناانصافی ہوتی تھی۔ سرکار کا یہ اقدام اچھا ہے‘ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ حقیقت میں بھارت کے عوام کو انصاف ملے‘ جلد ملے اور سستا ملے‘ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے سارے قانون مقامی زبان میں بنیں‘ بھارتی زبانوں میں ان کے ترجمے ہوں‘ عدالت میں بحث مقامی زبان میں ہو اور سارے فیصلے اسی زبان میں اور دیگر بھارتی زبانوں میں ہوں۔ عدالتوں سے انگریزی کو پوری طرح نکال باہر کیا جائے۔ بنیادی قانون کے انگریزی میں ہونے کے سبب عوام کے لیے وہ جادو ٹونا بن جاتے ہیں۔ کیس کرنے والے اور کیس جھیلنے والے کو ٹھگنے کا یہ سب سے بڑا سبب ہے۔ میری بات کو صدر رامناتھ کووند نے اثر دار ڈھنگ سے دہرایا ہے۔ کووند جی کو چاہیے کہ وہ بھارتی سرکار اور پارلیمنٹ میں اس معاملے میں جم کر مداخلت کریں تاکہ انگریزی کے نام پر بھارتی عوام کو ٹھگنے کا یہ سلسلہ ختم کیا جا سکے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں