بھارت سرکار نے گزشتہ سال وزرا اور افسروںکی کاروں سے لال بتیاں ہٹوائیں‘ اب اس نے کچھ اور بڑا کام کر دیا ہے۔ اب صدر‘ نائب صدر اور وزیر اعظم جیسے بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی کاروں سے بھی خاص نشان ہٹیں گے۔ انہیں اپنی کاروں کے لیے بھی ویسے ہی نمبر لینے ہوں گے‘ جیسے کہ آپ ہم لیتے ہیں۔ لال بتیاں ہٹنے اور ان کاروں کا خاص درجہ ہٹنے سے عوام کو کوئی ٹھوس فائدہ تو نہیں ہونے والا ہے لیکن اس پھیر بدل کے بہت سنجیدہ اور دور گامی مقاصد ہیں۔ یہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی جانب سفر کی پہلی سیڑھی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ پہلی سیڑھی ہی ٹوٹی پھوٹی ہوئی ہے۔ اس میں کئی دراڑیں ہیں۔ اگر ملک آزاد ہے اور سب باشندے برابر ہیں یعنی کوئی بادشاہ کوئی رعیت نہیں ہے‘ تو اس زمانۂ برٹش کی پاور کو بنائے رکھنے کا کوئی مطلب نہیں رہتا۔ کاروں کی نمبر پلیٹ بدلنا اور لال بتیاں ہٹانا تو شروعاتی کام ہیں‘ اور اچھے ہیں‘ لیکن ابھی ان سے بھی بڑے کئی کام باقی ہیں‘ جیسے صدر‘ وزیر اعظم‘ نائب صدر‘ گورنر‘ وزراء اور ممبر آف پارلیمنٹ سے ان کے بڑے بڑے بنگلے فوراً خالی کروائے جانے چاہئیں یا ان سے لاکھوں روپیہ مہینہ کرایہ وصول کیا جانا چاہیے۔ پریذیڈنٹ ہائوس اور گورنر ہائوسز کا کرایہ تو کروڑوں روپے مہینہ ہو جائے گا۔ ان سب چنے ہوئے عوامی خدمت گاروں کو عام فلیٹوں میں رکھا جانا چاہیے اور مناسب ہو گا کہ ان کی شاہی جگہوں کو سرکاری دفاتر میں تبدیل کیا جائے۔ میں نے کئی ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم کو چھوٹے چھوٹے درمیانی درجے کے مکانوں میں رہتے دیکھا ہے۔ ان کے ساتھ میں نے بسوں اور میٹرو ریلوں میں بھی سفر کیا ہے۔ بھارتی لیڈروں کے بھتوں اور سفری اخراجات پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔ خاص کر جہازوں اور ریلوں میں ان کو فراہم کی جانے والی خصوصی سہولیات ختم کی جانی چاہئیں۔ انہیں مجبور کیا جانا چاہیے کہ افسر ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے مالکان (عوام) جیسی زندگی گزاریں۔ ہمارا آج کا جمہوری انتظام ایسا ہے کہ نوکر کو مالک بنا دیتا ہے اور مالک کو نوکر! بلکہ نوکر سے بھی بدتر! حقیقت یہ ہے کہ اس نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے یا پھر اس میں مناسب ترامیم و تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے۔ کس میں جرأت ہے کہ اس سڑے گلے نظام کو بدل دے۔ اگر یہ کام نریندر مودی جیسا سنگھ کا سوئم سیوک نہیں کر سکے گا تو کون کر سکے گا؟ اس سوال کا جواب نریندر مودی کو خود سوچنا چاہیے۔ بہرحال یہ واضح ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے نمائندوں کو عوام کا ہمدرد بننا چاہیے اور انہیں خود کو اپنے ووٹروں سے ممتاز کرنے کی راہ نہیں اپنانی چاہیے۔
لالو تاحیات ہڑتال کیوں نہ کریں
جب میں اوم پرکاش چوٹالہ یا لالو پرساد یادو وغیرہ کے بارے میں یہ خبر پڑھتا ہوں کہ وہ لوگ بدعنوانی کے جرم میں جیل کاٹ رہے ہیں‘ تو مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے۔ افسوس اس لیے کہ وہ میرے دوست رہے ہیں‘ کئی تحریکوں میں مددگار رہے ہیں اور اس سے بھی زیادہ وہ ہردلعزیز لیڈر رہے ہیں۔ دیگر لیڈر حضرات‘ خوش قسمتی سے ابھی تک جیل نہیں گئے‘ وہ انہیں ملزم قرار دے رہے ہیں اور برسر اقتدار پارٹی پر بدلا لینے کا الزام لگا رہے ہیں۔ جو جیل کاٹ رہے ہیں‘ وہ اور ان کے خاندان والے وکیلوں کے چکر کاٹ رہے ہیں کہ کسی طرح ان کی ضمانت ہو جائے اور اونچی عدالتوں میں مقدمہ لمبا کھنچ جائے یا وہ لے دے کر بری ہو جائیں یا چنائو آ جائیں اور سرکاریں بدل جائیں۔ یہ سب تو ٹھیک ہے‘ خاص کر معمولی لوگوں کے لیے لیکن یہ لوگ معمولی لوگ تو نہیں ہیں۔ لیڈر
ہیں۔ ٹھیکے دار ہیں۔ انہوں نے تو جے پرکاش نارائن اور رام منوہر لوہیا کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔ اگر وہ لوگ بھارتی عدالت کے فیصلوں کو غلط مانتے ہیں‘ تو انہیں مانتے کیوں ہیں‘ تسلیم کیوں کرتے ہیں؟ وہ چپ چاپ ہتھکڑی کیوں پہن لیتے ہیں اور چپ چاپ جیل کیوں چلے جاتے ہیں؟ جیل پہنچ کر وہاں آرام سے رہنے کے لیے سہولیات کی بھیک کیوں مانگتے ہیں؟ وہ عدالت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کیوں نہیں کرتے؟ وہ جیل جانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ اگر انہیں زبردستی جیل میں گھسیٹا جائے تو وہاں جا کر وہ تاحیات ہڑتال کیوں نہیں کرتے؟ غلط فیصلہ کرنے والے ججوں کی برخاستگی کی مانگ کیوں نہیں کرتے؟ اگر حقیقت میں ان کی زندگی حقیقت اور عدم تشدد پر مدار رہی ہے‘ تو وہ ایسا ہی کریں گے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو پورا ملک ان کے ساتھ اٹھ کھڑا ہو گا لیکن وہ عدالت سے بری ہونے کو ہی بری ہونا مانتے ہیں۔ ان کے لیے اللہ کی عدالت اور خدا کا انصاف جیسے کوئی چیز ہی نہیں ہیں۔ وہ دوسروں کی نظر میں بے گناہ دِکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ اپنی نظر سے کیسے بچیں گے؟ اپنی نظر میں اونچا وہی اٹھتے ہیں جو اپنی نظروں کا سامنا کریں‘ اپنے ضمیر کو جواب دہ ہوں۔ کیا آج تک کسی لیڈر نے ایسا اپنے حوالے سے کیا ہے؟ اگر کرتے تو وہ مہرشی والمیک نہیں بن جاتے؟
بھارتی نژادوں کے لیے پروگرام
اٹل جی کی پہل پر شروع ہوا بھارتی نژاد لوگوں کے لیے پروگرام 2003ء سے اب تک ہر برس برابر ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اس برس نریندر مودی نے ایک نئی پہل کی ہے۔ انہوں نے ایسے بھارتی نژاد کے لوگوں کو مدعو کیا ہے‘ جو اپنے اپنے ملک میں چنے ہوئے عوامی لیڈر ہیں۔ یعنی اپنے حلقے کے عوام کے نمائندہ۔ وہ ایم پی ہیں‘ وزیر ہیں‘ وزیر اعظم ہیں‘ صدر ہیں‘ ایم ایل اے ہیں‘ میئر ہیں۔ ایسے لگ بھگ سوا سو عوامی لیڈر اس بار بھارت آئے ہیں۔ وہ پہلے بھی آتے رہے ہیں لیکن ان کا الگ سے پروگرام پہلی بار ہو رہا ہے۔ اس پروگرام کا مشورہ میرا‘ ڈاکٹر لکشمی کانت سنگھوی اور ہمارے سفیر شری جگدیش شرما کا تھا۔ دونوں نے مل کر جو پہلا پروگرام دلی میں کروایا تھا‘ اس کے ایک سیشن کی صدارت میں نے کی تھی۔ اس وقت ہمارا ہدف یہ تھا کہ ساری دنیا میں پھیلے بھارتی نژاد ڈھائی تین کروڑ لوگوں کے مفادات کی حفاظت کے لئے بھارت کی حکومت متحرک مدد ہو۔ انہیں اپنی بنیادوں‘ یعنی بھارتی تہذیب سے جوڑے رکھنے کی ٹھوس کوشش ہو اور بھارت کی خارجہ پالیسیوں کے اہداف کو حاصل کرنے میں وہ مددگار ہوں۔ اٹل جی کی اس پہل کا فائدہ انہیں بھی ہوا ہے‘ اور ہمیں بھی ہوا ہے۔ انہیں کئی طرح کی سہولیات ملی ہیں‘ وہ اپنے اپنے ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور انہوں نے ڈٹ کر بھارت کی حمایت بھی کی ہے۔ امریکہ کی ٹرمپ سرکار پر قائم بھارتیوں کا اثر صاف صاف دکھائی پڑ رہا ہے اور محسوس ہو رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے بیرونی دوروں کے دوران بھارتی نژاد لوگوں کو کافی متاثر کیا اور حوصلہ دیا ہے‘ لیکن اصلی اور حقیقی سوال یہ ہے کہ ان لوگوں کی بھارتی جڑیں کہیں سوکھ تو نہیں رہی ہیں؟ حقیقت میں فجی‘ ماریشئس‘ گھانا‘ سوری نام جیسے ممالک میں بھارتی نژاد افراد اکثریت میں ہیں‘ لیکن بھارتی لوگوں پر مغرب کی نقل کا اثر ہو رہا ہے۔ اس سے جڑیں اکھڑ رہی ہیں۔ وہ بھارت کے لیے اور بھارت ان کے لیے اجنبی ہوتا جا رہا ہے‘ اس طرف ہماری یعنی بھارت کی وزارت خارجہ کو خاص دھیان دینا ہو گا۔ ہماری سرکار اس معاملے میں ملک کے اندر ہی خراب حالت میں ہے تو بیرونی ممالک میں کیا کرکے دکھا سکتی ہے؟ عالمی ہندی اجلاس اس کی زندہ مثال ہے۔