"DVP" (space) message & send to 7575

قومی ترانہ: ڈنڈے سے نہیں محبت سے!

بھارت کے سینما گھروں میں بھارت کا قومی ترانہ چلانے کے سوال پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کو الٹ کر ہمت کا کام کیا ہے۔ اب بھارت کے سینما گھروں میں فلم شروع ہونے سے پہلے قومی ترانہ ضروری نہیں ہو گا۔ جب قومی ترانہ ہی لازمی نہیں ہو گا تو سارا مسئلہ ہی نمٹ جائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر بھی اگر کوئی سینما مالک قومی ترانہ بجائے یا بجانا چاہے تو کیا ہو گا‘ یہ ایشو ایک سرکار ی کمیشن طے کرے گا۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ بھارت کا قومی ترانہ چلائے جانے کے دوران کیا معذور، بیمار اور بزرگ آدمی کو بھی اٹینشن کی پوزیشن میں کھڑا ہونا ہو گا؟ ویسے یہ بھی ایک اہم سوال ہے کہ اگر سینما میں قومی ترانہ گایا جائے گا یعنی چلایا جائے گا تو پھر کھیل کود‘ شادی کی رسومات اور آخری رسومات کے وقت کیوں نہیں گایا جاتا؟ جو ٹوپی سر پر پہنتے ہیں‘ اسے پائوں میں کیوں نہ پہنا جائے؟ بھارتی عدالت نے قومی ترانہ کو سینما گھروں میں لازمی قرار دے کر اپنا مذاق بنوا لیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ (بھارتی عدالت) پوپ سے بھی زیادہ پاک بننے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ یعنی بھارتی عدالت وطن پرستی اور وطن سے محبت کے جذبے کا دکھاوا کر کے ہماری سرکار سے بھی زیادہ استاد دکھائی دینا چاہتی تھی‘ لیکن اس کے اس فیصلے کا مذاق اڑنے لگا تو سرکار نے بھی اس سے سبق لیا۔ اس نے اس طرح کے سبھی معاملات پر ایک کمیٹی بٹھا دی۔ اس سے پہلے کہ پارلیمنٹ‘ عدالت کے فیصلے کو الٹ دیتی‘ اس نے اسے خود الٹ لیا یعنی خود ہی تبدیل کر لیا‘ دوسرے لفظوں میں اپنا پہلا فیصلہ واپس لے لیا‘ اس پر نظر ثانی کر لی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھارتی اپنے قومی ترانہ‘ قومی زبان اور قومی پرچم کا مذاق اڑائیں یا ان کی توہین کریں۔ ان کے احترام کی حفاظت ہر روز ضرور ہونی چاہیے۔ قومی ترانہ اگر سکولوں میں روز گایا جائے گا تو بچوں پر اچھا ہونے کا اثر چھوڑے گا‘ لیکن وہاں بھی وہ لازمی کیوں ہو؟ اس کا نہ پڑھا جانا سزا کیوں ہو؟ والدین اور بزرگوں کے قدم چھونا بھارتی تہذیب کی عجیب دین ہے‘ لیکن اسے نہ کرنا جرم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ اچھی تہذیب کی تعمیر جتنی خود کی مرضی سے ہو‘ وہ اتنی ہی مستند اور مضبوط و دیرپا ہو گی۔
دہشت گردی اور سدھر میا
بھارتی علاقے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدھر میا نے کہہ دیا کہ آر ایس ایس اور وشوا ہندو پریشد کے کارکن دہشت گرد ہیں۔ ادھر ایک وقف بورڈ کے صدر نے بھارتی وزیر اعظم کو خط لکھ کر کہا ہے کہ کئی بھارتی اداروں میں دہشت گرد پیدا ہو رہے ہیں‘ لہٰذا انہیں صوبوں کے تعلیمی بورڈ سے جوڑا جائے۔ یہ دونوں بیان مجھے زیادتی والے لگ رہے ہیں۔ یہ بیان جاری کرتے ہوئے درمیانی راستہ اختیار نہیں کیا گیا۔ سدھر میا کو گھبراہٹ ہے کہ کرناٹک ودھان سبھا کے چنائو میں کہیں ان کی کرسی نہ کھسک جائے۔ بھاجپا کے صدر امیت شاہ کے دورہ سے ان کا غصہ میں آنا فطری ہے‘ لیکن سدھر میا نے اپنے اسی بیان میں یہ بھی کہہ دیا کہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے‘ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ سنگھی لوگ دہشت گردی کر رہے ہیں تو پھر انہوں نے یہ غیر ذمہ دارانہ بیان کیوں دیا؟ اگر ثبوت نہیں ہیں تو بات بھی نہ کرو۔ خاموشی کو بغیر کسی وجہ کے تو ایک بڑی نعمت قرار نہیں دیا گیا۔ میرے خیال میں یہ بیان ان کی یعنی سدھر میا کی چناوی مجبوری تھا۔ آخر انہوں نے خود کو بھی تو بچانا ہے۔ ایسی مجبوریاں ہم گجرات کے چنائو میں دیکھ چکے ہیں لیکن ایک بورڈ کے صدر نے کس بنیاد پر کہہ دیا کہ بھارت میں کچھ ادارے دہشت گرد پیدا کرتے ہیں؟ کیا انہوں نے دس پندرہ دہشت گردوں کا زائچہ پڑھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے؟ میرے تجزئیے کے مطابق تو بھارت کے زیادہ تر دہشت گرد جدید سکولوں اور کالجوں سے پڑھے لکھے ہوئے ہیں لیکن یہ سب بہکائے ہوئے نوجوان ہیں۔ انہیں اپنے راستے بھٹکایا گیا ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بیان کسی اور وجہ سے دیا گیا ہو۔ ان اداروں میں زیادہ تر کیسے مسلمانوں کے بچے پڑھتے ہیں؟ غریب‘ ان پڑھ اور دیہاتی مسلمانوں کے بچے۔ ان بچوں کو جدید تعلیم ملے‘ تو وہ خوشحال اور تعلیم یافتہ بنیں۔ انہیں مذہب کے ساتھ ساتھ تہذیب کی تعلیم بھی دی جائے۔ ان کو کٹڑ بننے کی تعلیم نہ دی جائے‘ بلکہ تحمل‘ برداشت اور بھائی چارے کی تعلیم دی جائے۔ میرے خیال میں اس لحاظ سے بھارتی بورڈ کے صدر کا یہ سجھائو غور کرنے لائق ہے کہ سارے مدرسے صوبوں کی تعلیم بورڈز کے حوالے کر دئیے جائیں۔ مسلم تعلیمی اداروں پر جو قانون لاگو ہوں‘ وہ دیگر مذاہب کے سکولوں پر بھی نافذ ہونے چاہئیں۔
بھارت میں ججوں کی بغاوت کے معنی
حال ہی میں بھارتی سپریم کورٹ کے چار ججوں نے چیف جسٹس دیپک مشرا کو سرِ عام تنقید کا نشانہ بنایا۔ ایسا واقعہ بھارتی عدلیہ کی تاریخ میں پہلے کبھی رونما نہیں ہوا۔ یہ چاروں جج سینئر ہیں اور ان میں سے ایک جلد ہی بھارت کا چیف جسٹس بننے والا ہے۔ ان ججوں کو جمہوریت کے چوتھے کھمبے (ستون)‘ میڈیا کا سہارا کیوں لینا پڑا؟ انہوں نے یہ کیوں کہا کہ ہم اس وقت یا اب کھل کر نہ بولتے تو آنے والی نسلیں ہم سے پوچھتیں کہ ہم نے اپنے ضمیر کو کیوں بیچ دیا؟ اس سے بھی زیادہ سنجیدہ بات انہوں نے صحافیوں کے بیچ یہ کہی کہ بھارتی سپریم کورٹ کا کام کاج آج کل جس طرح سے چل رہا ہے‘ وہ بھارتی جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔ ان ججوں نے اس خط کو سب کے سامنے رکھ دیا ہے‘ جو انہوں نے چیف جسٹس مشرا کو لکھا تھا۔
ان ججوں کے بیان اور اس خط کو پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ان ججوںکو چیف جسٹس دیپک مشرا کی ایمانداری پر شک ہے۔ قومی ترانے کے معاملے میں جھک کر یا اپنا فیصلہ تبدیل کرکے مشرا اپنی کرکری پہلے ہی کروا چکے ہیں۔ چاروں سینئر ججوں نے الزام لگایا ہے کہ مشرا کئی سنجیدہ کیسز کو نزدیکی ججوں کو سونپ دیتے ہیں‘ کچھ معاملات میں اچانک مداخلت کرنے لگتے ہیں اور کچھ معاملات میں غیر جانبدار جانچ بٹھانے میں کوتاہی اس لیے کرتے ہیں کہ ان کا تعلق ملک کے اقتداری لیڈروں سے ہوتا ہے۔ ان ججوں نے کچھ مقدمات کے نام بھی لیے‘ اور کچھ کا نام لیے بنا بھی سب کچھ بے پردہ کر کے رکھ دیا ہے۔ بھارتی سرکار کا کہنا ہے کہ یہ عدالت کا اندرونی معاملہ ہے‘ وہ اس سلسلے کیا کرے؟ لیکن میرے خیال میں اس معاملہ نے عدالت اور سرکار دونوں کی عزت کو پیندے میں بٹھا دیا ہے۔ ہماری سب سے بڑی عدالت جیسی بھی ہے‘ اس کی عزت کسی طرح ابھی تک بچی ہوئی تھی۔ یہ واقعہ اس کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے اور بے حد افسوس ناک ہے۔ بھارتی سرکار کی اس معاملے سے کنارہ کشی اسے (سرکار) کو بہت مہنگی پڑے گی۔ کیا اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ بھارتی سرکار عدالتی بدعنوانی پر آنکھیں موندے ہوئے ہے یا اس کی پشت ٹھونک رہی ہے۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ وزیر قانون کو فوراً مداخلت کر کے ججوں کے دونوں طرفین میں جلد گفتگو کروانی چاہیے۔ ان چاروں ججوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ جمہوریت کا یہ تیسرا کھمبا (ستون) اگر کمزور ہو گیا تو بھارتی جمہوریت کو ڈھینے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ پہلے دو کھمبوں‘ پارلیمنٹ اور سرکار پر تو لوگوں کا بھروسہ پہلے ہی ڈگمگا رہا ہے۔ بھارتی عوام کا اپنی عدلیہ پر سے اعتماد ختم ہو گیا تو اس کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں