گزشتہ ماہ میں نے مالدیپ اور چین کے بڑھتے ہوئے اور گہرے ہوتے ہوئے تعلقات پر لکھا تھا اور کہا تھا کہ بھارت سرکار جلد ہوش میں نہ آئی تو ہمارا (یعنی بھارت کا) یہ پڑوسی ملک جلد ہی چین کا جنگی اڈا بن جائے گا۔ مکمل ہندی سمندر (بحر ہند) کے لیے وہ ایک للکار (چیلنج) کھڑی کر دے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ ہماری وزارتِ خارجہ کی نیند جلد ہی کھل گئی اور مالدیپ کے وزیر خارجہ محمد اسیم کو دلی دورے پر بلوا لیا گیا۔ گزشتہ دنوں مالدیپ کے ایک خاص اخبار 'وگتونے‘جو صدر یامین کا حامی ہے‘ نے لکھا تھا کہ بھارت مالدیپ کا سب سے بڑا دشمن ہے اور چین سب سے بڑا دوست ہے۔ اسیم نے اپنے دورۂ دلّی کے دوران بھارت کے وزیر اعظم‘ وزیر خارجہ‘ خارجہ سیکرٹری سے کافی اچھی اور کھلی بات چیت کی اور اپنی سرکار کی طرف سے انہیں بھروسہ دلایا ہے کہ مالدیپ 'پہلے بھارت پھر کوئی اور‘ کی پالیسی پر ہی چلے گا‘ جیسے وہ پہلے چلتا آیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جیسے چین کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدہ ہوا ہے‘ ویسا معاہدہ بھارت کے ساتھ بھی کیا جائے گا‘ یعنی بھارت کے ساتھ تجارت بڑھائی جائے گی۔ انہوں نے بھارتی امداد کے لیے احسان مانا اور اس حوالے سے بھارتی سرکار کا شکریہ بھی ادا کیا۔ لیکن مجھے یہ شک ہوتا ہے کہ یہ سب کہیں صرف زبانی جمع خرچ تو نہیں ہے؟ اور میرے اس شک کی وجہ یہ ہے کہ چین نے مالدیپ کے ہر شعبے میں‘ یعنی اکانومی، جنگی ساز و سامان، سیاحت، تعمیراتی کام وغیرہ میں اتنی مداخلت کر لی ہے کہ کئی شعبوں سے بھارت کو باہر کر دیا ہے۔ جب تک بھارت کے نقصان کا ازالہ نہیں ہوتا‘ یہ کیسے مانا جائے کہ بھارت مالدیپ تعلقات پھر سے پٹڑی پر آ گئے ہیں؟ مالدیپ میں اس برس عام انتخابات بھی ہونے والے ہیں۔ صدر یامین کے سخت مخالف اور سابق صدر‘ نشید کو بھارت کا دوست مانا جاتا ہے۔ ایسے میں ہماری یعنی بھارتی وزارتِ خارجہ کو بہت سوچ سمجھ کر قدم بڑھانا ہوں گے۔ اسے طے کرنا ہے کہ وہ انتخابات سے کنارہ کشی اختیار کرے گی یا نہیں۔ مالدیپ میں ہی نہیں‘ نیپال میں بھی اولی سرکار کے ساتھ بھارت کو کافی خبردار رہنا پڑے گا۔ روہنگیا معاملے میں بھی بھارت صرف زبانی جمع خرچ کرتا رہ گیا اور چین بازی مار گیا۔ بھارت کی سیاست دان جب تک اپنی یہ روایتی سستی ختم نہیں کرتے‘ اس وقت تک معاملات پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔
دلی سرکار سے نصیحت لیں!
دلی سرکار کے ایک عوامی بھلائی کے کام پر‘ گورنر نے مہر لگا دی ہے‘ یہ اچھا کیا۔ اگر وہ اس میں اڑنگا لگائے رکھتے تو ان کی بدنامی تو ہوتی ہی‘ مرکز کی بھاجپا سرکار بھی بری بنتی۔ اس کو بھی پھر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا۔ وزیر اعلیٰ اروند کجری وال اور نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا نے یہ اتنا اچھا کام شروع کیا ہے کہ وہ دیگر لیڈروں کی طرح خالی بھاشن بازی نہیں‘ بلکہ سچے عوام کے خدمت گار ثابت ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بہت سے عملی اقدامات کیے ہیں اور دلی میں ایسا نظام نافذ کر دیا ہے کہ دلی کے باشندوں کو 40 اقسام کی عوامی خدمات کے لیے اب سرکاری دفتروں کے چکر نہیں لگانے پڑیں گے‘ افسروں کی خوشامد نہیں کرنا پڑے گی اور رشوت بھی نہیں دینی پڑے گی۔ سرکاری ملازم‘ لوگوں کے گھر پہنچ کر اب یہ کام سر انجام دیں گے جیسے ہاکر گھروں پر خود جا کر اخبار پھینکتا ہے یا دودھ والا آ کر تھیلیاں پکڑا جاتا ہے۔ یہ ساری سہولتیں اب دلی کے عوام کو ان کی دہلیز پر ملیں گی۔ یہ خدمات کئی طرح کی ہیں۔ جیسے شیڈول کاسٹ کو سرٹیفکیٹ فراہم کرنا‘ موٹر کاروں کی رجسٹریشن‘ کار چالان لائسنس‘ معذور اور بزرگوں کی پینشن‘ مکانات کے دستاویز وغیرہ۔ سرکار اپنے ملازمین کے علاوہ یہ کام ٹھیکے پر بھی کروائے گی تا کہ لوگوں کو جلد از جلد راحت ملے اور کام تیزی سے ہو گا۔ دلی سرکار کا یہ زبردست کام بلکہ کارنامہ ہے۔ اگر ملک کے ہر گائوں کی پنچایت اور ہر شہر کی نگر پالیکا اور نگر نگم اس طریقۂ کار کے نقش قدم پر چلنے لگے یعنی ہر جگہ ایسے ہی کام ہونے لگے تو ملک کے کروڑوں لوگوں کو بڑی راحت ملے گی۔ وہ ابھی لیڈروں کو کوستے ہیں‘ پھر وہ انہیں دل سے دعا دیں گے۔ دلی کی 'عآپ سرکار‘ نے کچھ دن پہلے حادثوں کا شکار ہونے والے لوگوں کے مفت علاج کا انتظام بھی کیا تھا۔ اس پر کام ہو رہا ہے۔ اس نے دلی کے گلی محلوں میں صحت مراکز بھی کھولے ہیں۔ ایسی پارٹی کو چنائو میں شکست دینا آسان نہیں ہو گا۔ اس بات کو ایل جی انل بیجل نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے اور اسی لئے انہوں نے کجری وال سرکار کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ ان کے اس مشورے پر بھی کجری وال نے عمل کرنے کا وعدہ کیا ہے کہ طرح طرح کی سرکاری خدمات وہ ڈیجیٹل ذریعے سے مہیا کروائیں۔ ایل جی کا یہ مشورہ بھی وزیر اعلیٰ اروند نے مان لیا ہے کہ وہ جگہ جگہ انٹرنیٹ گاہ بھی کھلوائیں تاکہ عام لوگوں کو سرکاری خدمات کا فائدہ اٹھانے میں زیادہ سہولت ہو جائے۔ اگر کجری وال سرکار اور دلی کے ایل جی اسی تال میل میں کام کرتے رہے تو دلی سرکار تمام صوبوں اور مرکز کے لیے مثال بن جائے گی۔
اب اپنے دم پر
بھارت میں حج کرنے کے حوالے سے دی جانے والی سرکاری سبسڈی کو ختم کرنے کی مخالفت کچھ مسلم لیڈر اور تنظیمیں ضرور کریں گی کہ آر ایس ایس کے وزیر اعظم سے اس کے علاوہ کیا امید کی جا سکتی ہے لیکن میرے ذاتی خیال میں ایسا کہنا بالکل غلط ہو گا۔ یہ سبسڈی ختم کی جائے‘ ایسا فیصلہ 2012ء میں سپریم کورٹ نے کیا تھا۔ یہ فیصلہ دو ججوں نے دیا تھا۔ اس میں ایک ہندو تھا اور دوسرا مسلمان! دونوں ججوں نے قرآن پاک اور اسلامی کتب اور رسم و رواج کا گہرا مطالعہ کیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ حج کسی اور کی مدد سے کرنا اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔ جج آفتاب عالم نے قرآن کے تیسرے سپارہ کے 79ویں آیت کا حوالہ دیتے ہوئے سرکار سے حج کی سبسڈی ختم کرنے کے لیے کہا۔ اس وقت کانگریس کی سرکار تھی اور اسے دس برس کا وقت دیا گیا تھا۔ اب بھاجپا سرکار نے اسے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو بھارت کے مسلمانوں کو اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ اس فیصلے کا سجھائو افضل امان اللہ کمیٹی نے ساری جانچ کے بعد اکتوبر 2017ء میں دیا تھا۔ حج سبسڈی پر ختم ہونے والے تقریباً سات سو کروڑ روپے اب مسلم بچوں کی تعلیم پر خرچ ہوں گے۔ یہ تسلی اقلیتی معاملات کے وزیر مختار عباس نقوی نے دی ہے۔ اگر سرکار اپنی اس بات کو فعل میں تبدیل کر دے تو ملک کے مسلمانوں کی آنے والی نسل کی قسمت چمک اٹھے گی۔ نقوی نے بیان میں یہی بتایا ہے کہ سرکاری سبسڈی کا زیادہ تر فائدہ حاجیوں کو ملنے کی بجائے ہوائی کمپنیوں اور دلالوں کو ملتا تھا۔ اب لوگ پانی کے جہاز سے بھی حج پر جا سکیں گے۔ پہلے یہ سفر صرف سولہ سو روپے میں ہو جاتا تھا۔ اب بھی یہ کافی سستا ہو گا۔ خواتین کو اب اکیلے حج پر جانے کی سرکار نے سہولت دے دی ہے۔ جو لوگ ہوائی جہاز سے جانا چاہیں اور فائیو سٹار سفر سے جانا چاہیں‘ ضرور جائیں۔ کئی صوبائی سرکاروں نے ہندوئوں کے مذہی سفر کا ذمہ لیا ہے‘ اس پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ قانون تو قانون ہے۔ وہ سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔