"DVP" (space) message & send to 7575

بھاجپا کی کرکری

راجستھان کی دو لوک سبھا اور ایک ودھان سبھا سیٹوں پر ہوئے چنائو کے نتائج اُس وقت آ رہے تھے‘ جب پارلیمنٹ میں بجٹ پیش کیا جا رہا تھا۔ بھارت میں بجٹ کا جھنجھنا ہمیشہ اتنا زوروں سے بجتا ہے کہ کوئی اور آواز پورے ملک میں سنائی ہی نہیں دیتی۔ اس بار وزیر خزانہ نے اپنا آخری بجٹ بھی بڑے دھماکے دار بھاشن کے ساتھ پیش کیا۔ کیا ہوا مگر کہ اسی وقت‘ جب بجٹ کا جھنجھنا بج رہا تھا‘ راجستھان کی ہتھوڑے کی آواز بھی حکمرانوں کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ اس کی آواز پورے بھارت میں سنی گئی۔ کیا تھی وہ آواز! وہ تھی راجستھان کی تینوں نشستوں پر بھاجپا امیدواروں کی زبردست شکست! یہ نشستیں تھیں‘ الور‘ اجمیر اور مانڈل گڑھ کی‘ جن پر پہلے بھاجپا کے امیدوار جیتے تھے مگر اب کی بار تینوں نشستوں پر امیدواروں کو بری طرح شکست ہوئی۔ ان سیٹوں کو بی جے پی کو دوبارہ جیتنا ہی چاہیے تھا‘ کیونکہ یہ سیٹیں دونوں ایم پی اور ایک ایم ایل اے کی وفات ہو جانے سے خالی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے انتخابات میں ووٹرز کا ووٹ جذباتی ہو جاتا ہے اور وہ تمام چیزوں کو پرے دھکیلتے ہوئے دوبارہ اسی پارٹی کا انتخاب کرتا ہے جس کے امیدوار کی وفات ہوئی ہو، لیکن کیا وجہ ہے کہ لوگوں نے بھاجپا کو ٹھکرا دیا اور دوسروں کو قبول کر لیا؟ یہ ٹھیک ہے کہ مغربی بنگال کے مذکورہ انتخابات میں بھاجپا کے ووٹ بڑھے ہیں‘ لیکن وہاں بھی وہ شکست کھا گئی اور یہ بات سب پر واضح ہے کہ وہاں وہ ایک سیٹ بھی جیت لیتی تو راجستھان میں ملے زخموں پر کچھ مرہم لگتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور راجستھان میں بھاجپا شکست کھا گئی۔ اس کے باوجود کہ اس نے فلم پدماوت پر پابندی لگا دی تھی تاکہ راجپوتوں کے تھوک کے حساب سے ووٹ اسے مل سکیں‘ لیکن اس کا یہ حربہ بھی کسی کام نہیں آیا۔ ان چناوی حلقوں کے کسانوں پر گزشتہ ڈیڑھ دو برس میں جو مار پڑی ہے‘ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی‘ اس نے وسندھر راجے سرکار کی بنیاد ہلا دی ہے۔ بنڈیاں بدل بدل کر بنڈل مارنے سے ملک نہیں چلتا، اس کے لیے سب کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اب ملک (بھارت) کے لوگوں کو اس حکومت اور حکمرانوں کی اصلیت سمجھ میں آنے لگی ہے۔ شاید حکومت اور حکمرانوں نے بھی بدلتی ہوا کا رخ دیکھ لیا ہو۔ اس برس ہونے والے ملک کے آٹھ صوبوںکے انتخابات میں بھاجپا کوکتنا بڑا خطرہ ہے‘ اس کے اشارے اب گجرات کے بعد راجستھان سے اٹھ رہے ہیں۔ اس چنائو نے کانگریس کے جوش و خروش کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ اس جیت کا کریڈٹ آپ چاہیں تو اشوک گہلوت کو دیں‘ سچن پائلٹ کو دیں یا راہول گاندھی کو دیں‘ اس نے بہرحال بھاجپا کے کان کھڑے کر دیئے ہیں۔ اسے صاف نظر آنے لگا ہے کہ اگلے سال کے عام انتخابات میں بھارت کے عوام اس کے ساتھ کیا کرنے والے ہیں۔
اتحاد یا گڑ بڑ اتحاد؟
کانگریس کی لیڈر سونیا گاندھی نے سبھی اپوزیشن پارٹیوںکی بیٹھک بلائی ہے تاکہ اگلے برس چنائو سے پہلے ایک بڑا اتحاد ی مورچہ کھڑا کیا جا سکے۔ ایسی کوششیں گزشتہ تین برسوں میں کئی بار ہو چکی ہیں لیکن وہ اتنی ناکام ثابت ہوئی ہیں کہ لوگوں کو ان کی یاد تک نہیں ہے، لیکن سونیا کی پہل پر 17 پارٹیوں کا ملنا اپنے آپ میں اہم ہے۔ اس جماوڑے میں مایاوتی‘ دیوی گوڑ اور ملائم سنگھ جیسے بزرگ لیڈروں کی غیر موجودگی پر دھیان ضرور گیا لیکن اس بیٹھک نے یہ واضح اشارہ دیا ہے کہ ملک کی اپوزیشن پارٹیاں اگلے عام چنائو میں نریندر مودی کو ٹکر دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ یہ عزم دکھائی پڑ رہا ہے لیکن اس کے پیچھے کرسی پریم کے علاوہ کچھ بھی دکھائی نہیں پڑتا۔ یہ جماعتیں محض اقتدار میں آنے کے لیے پر تول رہی ہیں۔ ان لیڈروں اور پارٹیوں نے ایک دوسرے کے خلاف جم کر تلواریں کھڑی کی ہیں۔ یہ ابھی اتحاد کم‘ گڑبڑ اتحاد زیادہ دکھائی پڑتا ہے۔ اس گڑبڑی کی کافی وجوہات ہیں۔
ان لیڈروں کو ایک جگہ جوڑنے والا نہ تو کوئی اصول ہے‘ نہ کوئی سوچ ہے‘ نہ کوئی پالیسی ہے اور نہ ہی کوئی پروگرام۔ کوئی مضبوط رول کا پہلو ہی نہیں ہے جو ان سب الگ سوچ کی پارٹیوں کو جوڑ کر رکھے۔ صرف ایک ہی پہلو ہے اور وہ ہے مودی ہٹائو مشن، لیکن مودی کی ٹکر میں کھڑا ہونے والا کیا کوئی لیڈر اس اتحاد کے پاس ہے؟ اس میں شک نہیں کہ ملک کے عوام کا مودی سے نشہ اتر رہا ہے، اب مودی اُتنے پاپولر نہیں رہے۔ گجرات اور راجستھان کے چنائو اس انجام کی خبر دیتے ہیں۔ جہاں تک اس اتحاد کے لیڈر کا سوال ہے‘ وہ اپنے آپ میں ایک مہا بھارت ہے۔ اس کے علاوہ جو بجٹ ابھی آیا ہے‘ اگر اس میں دکھائے گئے خوابوں میں سے نصف کو بھی سرکار نے پورا کر دیا تو اتحاد کی ہوا اپنے آپ نکل جائے گی۔ یوں بھی اپوزیشن لیڈروں کو آج کسی جے پرکاش نارائن کی ضرورت ہے‘جو نہ صرف اپوزیشن والوں کو ایک کر سکے بلکہ جو آر ایس ایس اور بھاجپا کے لوگوں کی ہمدردی بھی حاصل کر سکے۔ مودی نے اپنے برتائو سے ملک کی سیاست میں سدا اپنے لئے دشمن کھڑے کر لیے ہیں لیکن آج بھی سیاست کے میدان میں ان کے متبادل کے طور پر کوئی آپشن نہیں ہے۔ اگر اس بچے وقت میں مودی دل کی بات کی بجائے کام کی بات کرنے لگے تو بھاجپا کی حکومت اگلے پانچ برس میں بھی پکی ہی رہے گی۔
پھر گڑبڑائیں بوفورس کی توپیں
بوفورس توپوں کا معاملہ پھر گرما رہا ہے۔ 32 برس پرانے اس مسئلہ نے وزیراعظم راجیو گاندھی کی زیب کو چوپٹ کر دیا تھا۔ اس وقت سویڈن کی کمپنی سے بھارت سرکار نے 400 توپوں کا سودا کیا تھا۔ یہ سودا 1437 کروڑ روپوں کا تھا۔ اس میں 64 ہزار کروڑ روپے کی رشوت کھانے کا الزام تھا۔ الزام یہ بھی تھا کہ اپنے ایک اطالوی جانکار کو اتروچی کے ذریعے پی ایم راجیوگاندھی نے رشوت کھائی تھی۔ اس الزام کے چلتے وزیر خزانہ وشو ناتھ پرتاپ سنگھ نے استعفیٰ دیا تھا اور بعد میں وہ وزیراعظم بنے تھے۔ بوفورس توپوں کی اس رشوت کے معاملے میں کئی جانچیں ہوئیں اور مقدمے بھی چلے لیکن کانگریس سرکار کے دس برسوں میں سب کچھ پر پانی پھر گیا۔ عدالتوں نے یہ تو مانا کہ رشوت دی گئی ہے لیکن یہ کس نے کھائی ہے‘ یہ آج تک پتا نہیں چلا۔ من موہن سنگھ سرکار نے سی بی آئی کو اجازت نہیں دی کہ وہ معاملے کو آگے بڑھائے لیکن اب سی بی آئی نے نئے ثبوتوں کی بنیاد پر اس معاملے کو سپریم کورٹ میں دوبارہ پیش کیا ہے۔ وکیل اجے اگروال نے درخواست لگا کر سارے معاملے کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ بوفورس گھوٹالوں سے متعلق قریب قریب سبھی لوگ وفات پا گئے ہیں۔ راجیو گاندھی کو تو سرکاراور عدالتوں نے بچا لیا لیکن عوام نے بری طرح سے سزا دے دی تھی۔ اس کے علاوہ 64 کروڑ روپے کی اب کیا اہمیت رہ گئی ہے؟ آج کل لیڈر لوگ اربوں روپے کی رشوت کھا رہے ہیں۔ بوفورس توپوں نے کارگل لڑائی میں اپنی صلاحیت بھی ثابت کر دی ہے۔ ایسے میں مودی سرکار گڑے مردے کیوں اکھاڑ رہی ہے؟ اگر اس رشوت کی حقیقت ظاہر ہو گی تو ملک کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ آگے آنے والے وزرائے اعظم کے دلوں میں بھی دہشت بیٹھ جائے گی۔ انہیں علم رہے گا کہ کوئی کتنا بھی طاقتور ہو‘ وہ بدعنوانی کرے گا تو پکڑا جائے گا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں