دو تین دن پہلے ایک ٹی وی چینل نے مجھ سے پوچھا کہ بدعنوانی دور کرنے کے معاملے میں آپ مودی کو دس میں سے کتنے نمبر دیتے ہیں؟ میں نے کہا: چار برس پہلے مجھے امید تھی کہ اس سرکار کو دس میں سے آٹھ نمبر دوں گا لیکن اب صرف چار دے رہا ہوں۔ سوال کرنے والے نے پوچھا کہ آپ اس سرکار کو لانے والوں میں سے ہیں‘ پھر بھی آپ اسے اتنے کم نمبر کیوں دے رہے ہیں؟ کیا نریندر مودی اور ان کے وزرا پر کوئی بوفورس جیسا یا ہرشد مہتا جیسا یا بینک منیجر ملہوترا جیسا کوئی الزام ہے؟ میں نے کہا کہ اس طرح کا کوئی الزام ابھی تک تو ان پہ نہیں ہے لیکن ملک میں عام آدمی کا پالا براہ راست وزیر اعظم اور وزرا سے نہیں پڑتا۔ اس کا پالا سرکار کے ملازمین سے پڑتا ہے۔ اسے ریل کا ٹکٹ بنوانا ہے‘ ٹیکس بھرنا ہے‘ بجلی کا بل چکانا ہے‘ سرکاری ہسپتال سے دوا لینی ہے‘ کار چلانا یا لائسنس بنوانا ہے۔ ان سب کاموں کے لیے رشوت کا بازار جوں کا توں چل رہا ہے بلکہ پہلے کی نسبت اس کی شدت بڑھ گئی ہے۔ رشوت کے ریٹ میں بھی اضافہ ہو چکا ہے۔ بینکوں کی بدعنوانی گزشتہ چار برسوں میں چار گنا بڑھ گئی ہے، غریب پہلے سے زیادہ غریب ہو گئے ہیں اور امیروں کی امیری بڑھتی جا رہی ہے۔ ان کے پاس اتنی دولت ہے کہ سمیٹے نہ سمٹ سکے۔ غریب اور امیر کے درمیان خندق پہلے سے زیادہ گہری ہوتی جا رہی ہے۔ مسلسل گہری ہو رہی ہے۔ 'ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘ نے اپنی جو تازہ رپورٹ چھاپی ہے‘ اس نے میری رائے پر مہر تصدیق لگا دی ہے۔ اس نے بھارت کو سو میں سے چالیس نمبر یعنی دس میں چار دیے ہیں۔ اس کے مطابق بھارت میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے مقابلے بدعنوانی کم ہے‘ لیکن بھوٹان اور چین کے مقابلے زیادہ ہے۔ نیوزی لینڈ‘ ڈنمارک اور فن لینڈ کے مقابلے ہم کہیں نہیں ہیں۔ ہاں‘ صومالیہ‘ سوڈان‘ شام اور یمن وغیرہ کے مقابلے بھارت بہتر ہے۔ اگر ہمارے یعنی بھارتی وزیر اعظم اور وزرا پر بدعنوانی کے الزام نہیں لگ رہے ہیں‘ تو یہ اچھی بات ہے لیکن یہ ایسا ہی ہے‘ جیسا کہ چوکیدار پر چوری کا الزام نہ لگانا۔ یہ کہنا کہ چوکیدار چوری نہیں کرتا۔ ارے بھائی چوری نہ ہو‘ چوکیدار اسی لئے رکھا جاتا ہے۔ اسے چوروں کو پکڑنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے آیا یہ کام ہو رہا ہے؟ کیا وہ انہیں پکڑ پا رہا ہے؟ کیا اس کے ڈر کے مارے چوری بند ہو گئی ہے؟ میرے ان سوالوں میں ہی بہت سے سوالوں کا جواب چھپا ہوا ہے۔ کچھ کی سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ یہی کہ بھارتی وزرا اگر بدعنوانی نہیں کر رہے تو کوئی کمال نہیں کر رہے ہیں۔
نیپال میں نیا سویرا
نیپال سے ایک اچھی خبر ملی ہے۔ یہ کہ وہاں کی کمیونسٹ پارٹی مارکس وادی لینن وادی ایمالے اور پرچنڈ کی مائو وادی کمیونسٹ پارٹی میں اب ایک سمجھوتہ ہو گیا ہے۔ یعنی ان میں بہت سے معاملات طے پا گئے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں نے دسمبر کے عام انتخابات میں مشترکہ مورچہ بنایا تھا۔ انہیں 275 کے نیپالی ایوان میں 174 نشستیں ملی تھیں۔ اگر انہیں دس نشستیں اور مل جاتیں تو انہیں ایوان مں 2/3 کی اکثریت مل جاتی۔ یاد رہے کہ گزشتہ انتخابات میں ایمالے کو 121 اور مائو وادیوں کو 53 نشستیں ملی تھیں۔ دونوں کا منشور ایک ساتھ تھا‘ لیکن چنائو نتائج آنے کے بعد دونوں پارٹیوں میں ان بن ہو گئی تھی۔ پرچنڈ کو امید تھی کہ زیادہ سیٹیں ان کی پارٹی کو ملیں گی‘ لیکن ان سے دُگنی بلکہ دُگنی سے بھی زیادہ سیٹیں ایمالے کے کے پی اولی کو مل گئیں۔ اولی نے جب وزیر اعظم کا حلف لیا تو مائو وادیوں نے وزرا کابینہ میں شامل ہونے سے منع کر دیا‘ یعنی یہ کہہ دیا کہ اس کے ارکان کابینہ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اس سے ایک نئے تنازع نے جنم لیا۔ ظاہر ہے کہ یہ فرق چلتا رہتا تو ایمالے کی سرکار لنگڑی ہو جاتی اور وہ گر بھی سکتی تھی‘ لیکن اب یہ دونوں پارٹیاں مل گئی ہیں اور یہ توقع پیدا ہوئی ہے کہ نیپال کی حکومت قائم رہے گی۔ اب نئی پارٹی کا نام نیپال کی کمیونسٹ پارٹی ہو گا۔ اب اس نئی پارٹی کی حکومت نیپال کے سات میں چھ صوبوں میں ہو گی۔ امید ہے کہ ہر برس سرکار بدلنے والے نیپال میں اب ایک دائمی سرکار پانچ برس مکمل کام کر سکے گی۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں پارٹیوں میں سات معاہدے ہوئے ہیں۔ اولی اور پرچنڈ‘ دونوں پارٹیوں کے صدر ہوں گے۔ اولی پہلے تین سال اور پرچنڈ آخری دو سال وزیر اعظم رہیں گے۔ اگر یہ سمجھوتہ قائم رہ سکا تو نیپال کا بہت بھلا ہو گا‘ لیکن مانا جا رہا ہے کہ یہ چینی دبائو میں ہوا ہے۔ اگر ایسا ہوا ہے تو ماننا پڑے گا کہ بھارت محروم رہ گیا ہے‘ اور یہ کمیونسٹ سرکار بھارت کے لیے نئے نئے سر درد کھڑے کرے گی۔ اپنے پچھلے ایک برس کی حکمرانی کے دور میں اولی نے چین پرستی کے کئی کام کیے تھے‘ جن سے مودی سرکار پریشان تھی‘ لیکن کچھ دن پہلے ہماری وزیر خارجہ سشما سوراج نے ان سے کٹھمنڈو جا کر ملاقات کی تھی۔ بھارت کو نیپال سرکار کی متحرک امداد کرنی ہو گی لیکن اس کمیونسٹ سرکار کو بھی بھارت کی دکشن پنتھی سرکار کا خیال رکھنا ہو گا۔ تبھی معاملات ہموار طریقے سے آگے بڑھ سکیں گے۔
ان بڑے ٹھگوں کو بڑی سزا ملے!
ہیرا تاجر نیرو مودی اور پین تاجر وکرم کوٹھاری کتنے روپے کھا گئے؟ صرف 14095 کروڑ روپے! میں اس رقم کو 'صرف‘ کیوں کہہ رہا ہوں؟ کیونکہ گزشتہ ساڑھے پانچ برس میں ہمارے بینکوں کے تین لاکھ 68 ہزار کروڑ روپے کھا لئے گئے ہیں۔ یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ دنیا کے زیادہ تر ملکوں کے کل بجٹ سے بھی زیادہ ہے۔ بھارت کے ہر گائوں پر اس رقم میں سے پچاس لاکھ روپے لگائے جا سکتے ہیں۔ یعنی بھارت نندن ون بن سکتا ہے‘ لیکن ریزرو بینک کے تازہ آنکڑوں کے مطابق اتنی رقم ڈوبتے کھاتوں میں لکھ دی گئی ہے۔ ملک کی 27 سرکاری بینکوں کی اس رقم کو ملک کے دولت مند کھا گئے ہیں۔ نجی بینکوں کے مقابلے میں سرکاری بینکوں کو پانچ گنا زیادہ لوٹا گیا ہے‘ کیونکہ ان بینکوں کی لوٹ میں لیڈروں اور دولت مندوں کی ملی بھگت ہوتی ہے۔ لیڈر لوگ دبائو ڈالتے ہیں اور دولت مندوں کی دس کروڑ کی ملکیت کو سو کروڑ میں گروی رکھو ا دیتے ہیں۔ پنجاب نیشنل بینک کی ٹھگی سے معلوم پڑا ہے کہ اعلیٰ افسروں کو بھی طے شدہ کمیشن ملتی ہے۔ ریزرو بینک کی رپورٹ کے بعد مودی اور کوٹھاری کے دو معاملے کھلے ہیں۔ ملک میں سینکڑوں مودیوں اور کوٹھاریوں کو ابھی رنگے ہاتھ پکڑا جانا باقی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سب بینک دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دیں اور لوگ ڈر کے مارے اپنا سب پیسہ نکال کر گھر میں رکھنا شروع کر دیں۔ سرکاروں پر سے بھی لوگوں کا بھروسہ اٹھ سکتا ہے‘ کیوں کہ یہ سب بڑے ٹھگ سرکاروں کو پٹا کر رکھتے ہیں؛ تاہم تسلی کی بات یہ ہے کہ سرکار کی نیند کھلنے پر وہ آناً فاناً چھاپے مار رہی ہے لیکن ڈر یہی ہے کہ کہیں بوفور س اور ٹوجی کی طرح یہ معاملات بھی رفع دفع نہ ہو جائیں۔ چھوٹے موٹے قرضوں کے لیے کسانوں پر احسان جتانے والی ان سرکار کو چاہیے کہ ان موٹے مگر مچھوں کو وہ عمر قید یا سیدھے پھانسی کروائے اور ان کے سبھی قریبی رشتے داروں کی پائی پائی بھی ضبط کروا دے۔ بینکوں کے بدعنوان افسروں کو بھی سخت سزا دی جائے اور ان کی ساری ملکیت ضبط کی جائے۔ علاوہ ازیں بھارتی پارلیمنٹ میں ایسا قانون پاس کرایا جائے کہ ان ٹھگوں کی ہڈیوں میں سنسنی دوڑ جائے۔