"DVP" (space) message & send to 7575

کابل اور بھارت

کابل میں ہوئے 25 ممالک کے اجلاس میں افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کے بارے میں بڑا اہم اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ طالبان کو ایک سیاسی پارٹی کی صورت میں منظوری دینے کو تیار ہیں۔ مطلب طالبان چاہیں تو ایک سیاسی پارٹی کے بطور آنے والے چنائو لڑ سکتے ہیں (اور کابل میں اپنی سرکار بھی بنا سکتے ہیں) غنی کی اس امن پیشکش کا بھارت نے خیر مقدم کیا ہے اور امریکہ کو بھی اس پر شاید کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘ کیونکہ امریکہ تو طالبان سے پہلے ہی سیدھی بات چلا رہا تھا۔ طالبان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سیدھے امریکہ سے بات کرنا چاہتے ہیں‘ اور کسی سے نہیں‘ کیونکہ وہ مانتے ہیں کہ کابل میں 1978ء کے بعد جتنی بھی سرکاریں بنیں‘ وہ یا تو روس اور امریکہ کی کٹھ پتلیاں تھیں یا ان کے تار غیر ملکوں سے جڑے ہوئے تھے۔ صرف طالبانی حکومت مکمل ملکی یا افغان تھی۔ اب بھی وہ غنی سرکار کو بیرونی ممالک کی کٹھ پتلی ہی مانتے ہیں۔ اس وقت طالبان کے لڑاکوں کی تعداد 60 ہزار ہے۔ افغانستان کے 14 اضلاع پر ان کا پورا قبضہ ہے۔ کابل کے علاوہ‘ سبھی بڑے شہروں میں ان کا ہی بول بالا ہے۔ 263 اضلاع میں ان کی واضح موجودگی ہے۔ صرف 122 اضلاع میں افغان سرکار کی حکومت ہے۔ آئے دن طالبانی حملوں میں سینکڑوں لوگ مارے جاتے ہیں۔ 2002ء سے اب تک گیارہ ہزار امریکی فوجی اور28 ہزار افغان باشندے مارے جا چکے ہیں۔ افغان معیشت کا حال خستہ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی سرکار نے طالبان سے لڑنے کا اعلان کیا ہے‘ لیکن اس کو کوئی خاص کامیابی نہیں مل رہی ہے۔ طالبان کے چیف ملا عمر کا2013ء میں انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ان کے جانشین ملا اختر منصور کو امریکیوں نے مار دیا تھا۔ اب مولوی ہیبت اللہ ان کے سربراہ ہیں۔ گزشتہ بیس برسوں میں کئی طالبانی لیڈروں سے میری کابل‘ پشاور اور نیو یارک میں کافی کھلی بات چیت ہوئی۔ میں نے پایا کہ وہ اتنے تگڑے محبِ وطن ہیں کہ امریکہ اور روس جیسے ملکوں کی بھی جی حضوری نہیں کر سکتے۔ پٹھانوں کی اس تحریک نے تین بار برٹش گورنمنٹ اورآخری بار سوویت سامراج کے دانت کھٹے کئے ہیں۔ امریکہ کا بھی انہوں نے دم پُھلا رکھا ہے۔ بھارت کے لیڈر اور افسر اگر طالبان کی ان باریکیوں کو سمجھتے ہوتے تو وہ ہی افغانستان میں امن کا مسیح بنے ہوتے۔
چین: سفارتی تعلقات یا گھٹنے ٹیکو پالیسی 
بھارت اب چین کے آگے گھٹنے ٹیک رہا ہے یا کوئی بہت گہری سیاسی چال چل رہا ہے‘ یہ سمجھ پانا فی الحال مشکل ہے۔ بھارت سرکار نے حال ہی میں اپنے سبھی لیڈروں اور افسروں کو ایک حکم صادر کیا ہے کہ وہ دلائی لامہ کے کسی بھی پروگرام میں شرکت نہ کریں۔ بھارت کے خارجہ سیکرٹری وجے کھوگلے نے 22 فروری کو اس بات کے لیے ایک خط کابینہ کے سیکرٹری پی کے سنہا کو بھیجا اور سنہا نے اسے سارے وزرا اور افسروں کو ارسال کر دیا۔ کھوگلے نے یہ خط اپنے دورہِ بیجنگ سے ایک دن پہلے بھیجا تھا۔ ظاہر ہے کہ بھارتی وزیر اعظم کو بتائے بنا یہ حکم جاری ہوا ہو گا۔ چین دلائی لامہ کو دھرم گرو نہیں مانتا۔ وہ انہیں ''خطرناک علیحدگی پسند‘‘ تصور کرتا ہے۔ وہ انہیں بھیڑ کی شکل میں بھیڑیا کہتا ہے۔ گزشتہ برس جب دلائی لامہ اروناچل پردیش گئے اور ان کا استقبال وہاں وزیر اعلیٰ پریما کھنڈو اور وفاقی مملکتی وزیر کرن رجو جی نے کیا تو چینی وزیر خارجہ بوکھلا گیا تھا۔ انہوں نے اپنا بھارت کا دورہ ملتوی کر دیا‘ چین کی جانب سے برہم پتر ندی کے سیلاب پر دی جانے والی جانکاری بند کر دی‘ اور بھوٹان کے پہاڑی علاقے دوکلام پر قبضہ کر لیا۔ برکس کی بیٹھک میں مودی کو بلایا جانا تھا‘ اس لیے چین نے بعد ازاں دوکلام پر نرمی کا ناٹک کیا۔ مڈھ بھیڑ ختم ہو گئی۔ جب گوکھلے بیجنگ میں تھے‘ اس وقت چین نے دہشتگردوں کو مالی امداد دینے کے رویے کی مخالفت کر کے بھارت کو خوش کر دیا تھا۔ اب تین ماہ بعد جون میں شنگھائی اتحاد کی بیٹھک میں حصہ لینے کے لیے مودی پھر چین جانے والے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ چین کے ساتھ بھارت کی کوئی سودے بازی ہوئی ہو کہ بھارت دلائی لامہ کی حمایت نہ کرے تو چین پاکستان کی حمایت نہیں کرے گا‘ لیکن میرے خیال میں یہ سودا بھارت کو مہنگا پڑ سکتا ہے‘ کیونکہ پاکستان اور چین تو ایک دوسرے کے کافی قریب ہیں۔ پھر اس نے پاکستان میں سی پیک منصوبہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ چین آج کل بھارت کے ہر پڑوسی ملک میں اپنا جال بچھا رہا ہے۔ بھارت نے تبت کو چین کا حصہ مان لیا ہے اور دلائی لامہ نے بھی مان لیا ہے۔ ایسے میں بھارت کو چاہیے کہ وہ چین کو سمجھائے کہ وہ دلائی لامہ سے سیدھی بات کرے۔ اگر دلائی لامہ سے بنائی گئی یہ دوری سیاسی و سفارتی حربہ ہو سکتا ہے تو کوئی بات نہیں ہے لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو یہ مودی سرکار کا دبو پن (کمزوری) مانا جائے گا۔
نئے مائو کی نئی چنائوتیاں 
شی جن پنگ اب چین کے مستقل سربراہ بن جائیں گے‘ بالکل مائو زے تنگ کی طرح! اب وہ جب تک چاہیں گے‘ چین کے صدر بنے رہیں گے۔ ان کی خاطر 1982ء کے چینی آئین میں یہ ترمیم ہو گی کہ چینی صدر کا ٹائم دس برس تک نہیں رہے گا۔ شی جن پنگ2013ء میں صدر بنے تھے۔ ان کی ایک ٹرم پوری ہو چکی ہے۔ وہ 
دوسری ٹرم یعنی 2023ء تک کے لیے پھر چن لیے گئے ہیں۔ لیکن 64 برس کے شی جن پنگ اب چاہیں تو 84 برسوں یا اس سے بھی زیادہ تک کمیونسٹ پارٹی‘ سرکار اور فوج کے سب سے بڑے سربراہ بنے رہ سکتے ہیں۔ یعنی شی جن پنگ اب اکیسویں صدی کے چین کے مائوزے تنگ ہوں گے۔ ان کے کسی جانشین کے نام کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ ان کے پہلے جو دو صدر ہوئے یعنی جیانگ زیمن اور جنتائو‘ تو ان کے جانشینوں کا پہلے اعلان کر دیا گیا تھا اور دونوں نے صرف دس دس برس تک حکومت کی تھی۔ اس کے بعد انہیں اس عہدے سے فارغ ہونا پڑا۔ شی جن پنگ کے اتنے طاقتور ہونے کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ وہ بدعنوانی کے خلاف ایک بہار کے طور پر ہر دل عزیز ہو گئے ہیں۔ چین میں تنگ سیائو پنگ کے زمانے میں آئی بدعنوانی کو اتنا بڑھا دیا کہ شی نے کمیونسٹ پارٹی کے ہزاروں بدعنوان کارکنوں کو گرفتار کرا دیا تھا‘ اور ان کے جانشین مقرر ہونے والے لیڈروں کو موت کے گھاٹ بھی اتارنا پڑا۔ خود شی جن پنگ بالکل صاف ستھرے ہیں۔ شی جن پنگ اس لیے بھی طاقتور مانے گئے ہیں کہ انہوں نے چینی سی پیک کی تجویز شروع کر کے ساری دنیا میں چین کا ڈنکا بجا دیا۔ مائو اپنی تباہ کاری پالیسی کے لیے مشہور تھے‘ اور شی جن پنگ اپنی اچھی تعمیراتی پالیسیوں کے لیے مشہور ہو رہے ہیں۔ شی کا اتنا طاقتور ہونا بھارت کے لیے فکر کا سبب ہو سکتا ہے‘ کیونکہ ان کے دورِ اقتدار میں بھارت کے ساتھ تین سرحدی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔ اپریل2013ء میں دیپ سانگ‘ ستمبر 2014ء میں چومر اور2017ء میں دوکلام میں۔ پاکستان کی جانب ان کا خاصا جھکائو ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے نیپال‘ مالدیپ‘ بنگلہ دیش ‘سری لنکا اور برما میں بھی بھارت کے لیے نئی نئی ٹینشن کھڑی کر دی ہیں۔ اگر بھارت کے لیڈر اپنی گلے لپٹ سیاست کو چالاکی سے چلائیں اور اکیلے شی کو پٹائے رکھیں تو کوئی حیرانی نہیں کہ بھارت چین تعاون اکیسویں صدی کو ایشیا کی صدی بنا دے۔ ایسا ہو سکتا ہے۔ اگر یہ نہ ہوا تو امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ بھارت اپنی پینگیں بڑھا تو رہا ہی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں