دلی کے وزیر اعلیٰ اروند کجری وال نے پہلے وکرم سنگھ مجیٹھیا اور اب نتن گڈکری سے معافی مانگ کر بھارت کی سیاست میں ایک نئی بات پیش کی ہے۔ یہ ایک نئی روایت ہے۔ یہ ناممکن نہیں کہ وہ وفاقی وزیرِ خزانہ ارون جیٹلی اور دیگر لوگوں سے بھی معافی مانگ لیں۔ اروند پر ہتکِ عزت کے تقریباً بیس مقدمے چل رہے ہیں۔ اروند نے مجیٹھیا پر الزام لگایا تھا کہ وہ پنجاب کی گزشتہ سرکار میں وزیر رہتے ہوئے بھی ڈرگز مافیا کے سرغنہ ہیں۔ گڈکری کا نام انہوں نے ملک کے سب سے بدعنوان لیڈروں کی فہرست میں رکھ دیا تھا۔ اسی طرح ارون جیٹلی پر بھی انہوں نے سنگین الزام لگا دیے تھے۔ بھارت میں اس طرح کے الزام چنائوی (انتخابی) ماحول میں لیڈر لوگ ایک دوسرے پر لگاتے رہتے ہیں‘ لیکن عوام پر ان کا زیادہ اثر نہیں ہوتا‘ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ انتخابی عمل کا حصہ ہے۔ چنائووں کے ختم ہوتے ہی لوگ لیڈروں کی اس کیچڑ اچھال سیاست کو بھول جاتے ہیں لیکن اروند کجری وال پر چل رہے کروڑوں روپے کے ہتک عزت کے کیسز نے انہیں تنگ کر رکھا ہے۔ انہوں روز گھنٹوں اپنے وکلاء کے ساتھ ماتھا پچی کرنی پڑتی ہے‘ عدالتوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں اور سزا کی تلوار بھی سر پر لٹکی رہتی ہے‘ کہ نہ جانے کب گر جائے۔ ایسے میں وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری کو پورا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے اس طرح حکمرانی کے معاملات پر توجہ نہیں دی جا سکتی۔ اس کے علاوہ بے بنیاد الزامات کے سبب ان لیڈروں کی پوزیشن بھی خراب ہونے کے امکانات سدا بنے رہتے ہیں۔ ایسی حالت سے نجات پانے کا جو راستہ کجری وال نے ڈھونڈا ہے‘ وہ میری رائے میں بہت بہتر ہے۔ ایسا راستہ اگر صرف ڈر کے مارے اپنایا گیا ہے‘ یا ایک حربے کے طور پر اختیار کیا گیا ہے تو یہ طے جانیے کہ اروند کی عزت پیندے میں بیٹھ جائے گی یعنی خاک میں مل جائے گی۔ یہ حربہ اس بات پر مہر لگا دے گا کہ کجری وال سے زیادہ جھوٹا کوئی سیاست دان ملک میں نہیں ہے۔ لیکن اگر یہ سچی تبدیلی ہے‘ اور معافی مانگنے کا فیصلہ دل سے کیا گیا ہے تو یہ سچ مچ خیر مقدم کے لائق ہے۔ اگر ایسا ہے تو مستقبل میں ہم کسی کے خلاف کوئی بے بنیاد الزام کجری وال کے منہ سے نہیں سنیں گے۔ کجری وال کے اس اقدام کی مخالفت ان کی عام آدمی پارٹی کی پنجاب شاخ میں جم کر ہوئی ہے‘ لیکن اب وہ مخالفت ٹھنڈی پڑ رہی ہے۔ اس فیصلے کی گہرائی کو شاید پنجاب کے عآپ ایم ایل ایز اب سمجھ رہے ہیں۔ یہ فیصلہ ملک کے سبھی سیاست دانوں کے لیے نصیحت اور تقلیدکا ذریعہ بنے گا۔
مودی پر کانگریس کی مہربانی رہے
کانگریس پارٹی کے 84ویں اجلاس میں سے نکلا کیا؟ کیا اس میں سے کچھ ایسے ذرائع نکلے‘ جس سے ملک میں کوئی امید بندھے؟ کیا کوئی ایسا لیڈر اس میں سے ابھرا‘ جو 2019ء میں ملک کی لیڈرشپ کے لائق ہو؟ ان دونوں سوالوں کا جواب آپ اس اجلاس میں شرکت کرنے والے کانگریسیوں سے پوچھ لیجئے۔ وہ سب بھی ہاتھ ملتے ہوئے گھر چلے گئے۔ یہ 84واں اجلاس بھی کس موقع پر ہوا ہے؟ ایسے موقع پر جبکہ شمال مشرق میں کانگریس کا صفایا ہو چکا ہے اور اتر پردیش میں اس کے دونوں ایم پی امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی ہے۔ اکھلیش اور مایا وتی نے بھارت کی سب سے پرانی اور عظیم پارٹی کو اس لائق بھی نہیں سمجھا کہ اس کے ساتھ چنائوی اتحاد کریں۔ اکھلیش نے گزشتہ برس ودھان سبھا چنائو میں کانگریس کے ساتھ اتحاد کیا تھا‘ اور اس کا نتیجہ دیکھ لیا۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم‘ تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ کانگریس ابھی ایک مکمل اور پورے بھارت کی پارٹی ہے اور اس کا مضبوط رہنا بھارتی جمہوریت کے لیے اچھا ہی ہو گا‘ لیکن اس کے پاس نہ تو کوئی لیڈر ہے اور نہ ہی کوئی پالیسی ہے۔ 2019ء کے چنائووں میں ملک کی دیگر پارٹیاں اسے اپنا سربراہ کیوں مانیں گی؟ لوک سبھا میں اس کے پچاس ممبر بھی نہیں ہیں اور یہ صرف چار صوبوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ اس کے پیسوں کے آبشار بھی سوکھتے جا رہے ہیں۔
صرف نریندر مودی کو مغرور اور ڈرامے باز کہہ دینے سے کام چل جائے گا کیا؟ عوام کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ مودی کیا ہے‘ اسے آپ سے زیادہ بھاجپا اور سنگھ کے لوگ جانتے ہیں۔ بھارت کے عوام بھی جاننے لگے ہیں۔ اس کا اندازہ ہم جیسے لوگوں کو پہلے سے تھا لیکن پھر بھی بھارت کی مجبوری تھی کہ آپ کی جگہ اس کو لانا پڑا‘ کیوں کہ ملک کے عوام بدعنوان سرکار سے تنگ اور پریشان تھے۔ عوام اتنے دکھی ہو چکے تھے کہ وزیر اعظم کی کرسی پر مودی تو کیا‘ کسی کو بھی بٹھا سکتے تھے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آج چار برس گزرنے پر ملک کے عوام کی دلچسپی مودی میں ختم ہو گئی ہے‘ لیکن ملک کی لیڈرشپ بدلنے سے پہلے کانگریس کو اپنے سربراہ پر غور کرنا ہو گا۔ ووٹ ڈالنے کے لیے مشینوں کی بجائے پرچیوں کی مانگ کرنا‘ اور لوک سبھا اور ودھان سبھا کے چنائو ایک ساتھ کروانے کی مانگ کی مخالفت کرنا کیا ہے؟ کیا یہ عقل کے خالی پن کا تعارف نہیں ہے؟ کانگریس کی ہی مہربانی سے مودی یہاں موجود ہے اور مودی کا اگر دوبارہ آنا ہوا تو وہ بھی کانگریس کی ہی مہربانی سے ہو گا۔
سدھر میا کا ہندو مخالف حربہ
کرناٹک کی سدھر میا سرکار نے زبردست داؤ مار دیا ہے۔ اس کے وزرا کی کابینہ نے سب کے اتفاق رائے سے یہ بل پاس کر دیا ہے کہ کرناٹک کے لنگایت اور ویرشیو فرقوں کو ہندو مذہب سے الگ آزاد مذہب مانا جائے جیسے کہ بودھ اور جین مذہب کو مانا جاتا ہے۔ لنگایت اور ویرشیو لوگوں کی آدم شماری کرناٹک میں 19 فیصد ہے۔ ان فرقوں نے کرناٹک میں سب سے زیادہ وزرائے اعلیٰ دیے ہیں۔ کانگریسی وزیر اعلیٰ سدھر میا کروبا ذات کے ہیں لیکن یہ دائو انہوں نے اس لیے مارا ہے کہ انہیں تھوک ووٹ کا یہ خزانہ ہاتھ لگ جائے۔ ان کی یہ مانگ تبھی پوری ہو گی‘ جبکہ مرکز اس پر اپنی مہر لگا دے۔ مئی میں ہونے والے چناؤ میں کانگریس اسی کو سب سے بڑا مدعہ بنانے والی ہے۔ بھلا‘ بھارت کی وفاقی سرکار اس مانگ کو کیوں ماننے لگی؟ بھاجپا کے امیدوار برائے وزیر اعلیٰ بی ایس یدورپا خود لنگایت ہیں‘ وہ لنگایت ووٹ پر ہی سب سے زیادہ مدار رکھتے ہیں۔ ودھان سبھا کی 225 نشستوں میں سو سیٹوں پر لنگایت کا اثر ہے۔ 2013ء میں کرناٹک میں بھاجپا کی شکست کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ یدورپا نے اپنی الگ پارٹی بنا لی تھی۔ اب اگر بھارت میں مرکز لنگایت کو الگ مذہب کا درجہ نہیں دے گا تو اس انکار کو لنگایت کے خلاف مانا جائے گا‘ اور اگر وہ انہیں درجہ دے دے گا تو اسے کانگریس اپنی حمایت میں بھنائے گی اور اپنی کامیابی کے لئے استعمال کرے گی۔ کانگریس جیسی پارٹی‘ جو مذہب سے پرے کی تسبیح پڑھتے رہتے نہیں تھکتی ہے‘ کے لیے کیا یہ مناسب ہے کہ وہ ووٹ کباڑنے کے لیے مذہب کو اپنا اوزار بنا لے؟ اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ سدھر میا ہر قیمت پر اپنی ہار کو ٹالنا چاہتے ہیں اور ہر صورت میں کامیاب ہونا چاہتے ہیں۔ یوں بھی سدھر میا کا یہ حربہ ملک بھر میں کانگریس کو بہت مہنگا پڑے گا۔ اس طرح بھارت میں اکثریت رکھنے والی ہندو قوم کانگریس کے خلاف ہو جائے گی۔ اگر یہ معاملہ عدالت میں چلا گیا تو جیسے 1966ء میں سوامی نارائن فرقے اور 1995ء میں رام کرشن مشن کو سپریم کورٹ نے ہندو مذہب سے الگ ماننے سے انکار کر دیا تھا‘ ویسے ہی اس مانگ کو بھی خارج کر دے گی؟ کسے پتا ہے کہ کرناٹک کے ہندو ووٹر بھی اس مانگ پر بھڑک اٹھیں؟ پھر کیا ہو گا‘ اس کے بارے میں اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔