شمالی کوریا کے صدر کم جونگ ان نے حال ہی میں چین کا دورہ کر کے ساری دنیا کو چونکا دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے درمیان پچھلے چند مہینوں میں جو نوک جھونک چلتی رہی تھی‘ اس نے ساری دنیا میں سنسنی پھیلا دی تھی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیاں دی تھیں اور اس وقت یہ محسوس ہونے لگا تھا کہ اگر دونوں رہنمائوں کے ایک دوسرے کے خلاف بیانات نہ روکے گئے تو دنیا ایک تباہ کن جنگ کے دھانے پر پہنچ جائے گی۔ ڈر یہ تھا کہ ٹرمپ اور کم‘ دونوں بڑبولے ہیں اور دونوں کا ہی کوئی بھروسہ نہیں کہ کب کیا کر بیٹھیں۔ وہ دونوں ساری دنیا کو ایٹمی جنگ میں جھونک سکتے تھے اور اس معاملے کو لے کر دنیا کے امن پسند ملک خاصے پریشان تھے‘ لیکن گزشتہ دو تین ہفتوں میں پتا نہیں کیا ہوا ہے کہ دونوں منچلے لیڈر آج کل اصولوں کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ ان کی باتوں میں قاعدے قوانین کا ذکر ہونے لگا ہے۔ اب دنیا ان کے طرزِ عمل میں اچانک بدلائو کو دیکھ کر پریشان ہے۔ سب سے پہلے تو یہ خبر پھوٹی کہ کم نے جنوبی کوریا کے صدر سے ملنے کی پہل کی ہے‘ اور پھر اب خبر یہ ہے کہ اس کے بعد ٹرمپ اور کم کی ملاقات ہو گی۔ یقین نہیں آتا‘ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟ ٹرمپ اور کم مل سکتے ہیں؟ آپس میں بات چیت کر سکتے ہیں؟ اپریل اور مئی میں ممکنہ طور پر ہونے والی ان دو ملاقاتوں سے پہلے وہ اس ہفتے چین کے صدر شی جن پنگ کے مہمان بن کر بیجنگ کا دورہ کر آئے۔ کم 2011ء میں صدر بنے تھے گزشتہ سات برسوں میں یہ ان کا پہلا بیرونی دورہ ہے۔یعنی ان سات برسوں میں وہ اپنے ملک سے ایک بار بھی باہر نہیں گئے۔ چین جا کر انہوں نے کہا کہ وہ کوریائی علاقے کو ایٹمی قوت سے فری کرنا چاہتے ہیں‘ یعنی جنوبی کوریا سے اگر ٹرمپ اپنے ایٹمی ہتھیار ہٹا لیں تو وہ بھی ایٹمی ہتھیار بنانا بند کر دیں گے۔ ایٹمی دھمکیوں سے کم کی بات نہ کرنے والے کم کی سوچ میں اتنا بدلائو بھی حیران کن ہے۔ یہ بہت بڑا فیصلہ ہو گا اور ظاہر ہے کہ دنیا کے لئے ایک بڑی تبدیلی بھی۔ عالمی پابندیوں کے سبب ایران کی طرح شمالی کوریا کا بھی دم گھٹنے لگا تھا اور کم ان پابندیوں کو لے کر خاصے فکرمند تھے۔ چین نے کم کو اپنے یہاں بلا کر امریکہ کو یہ بتا دیا ہے کہ چین شمالی کوریا کے ساتھ ہے‘ اور اس علاقے میں اسے آگے رکھے بنا کسی مسئلے کو سلجھایا نہیں جا سکتا۔ اس پہل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چین اب امریکہ پر کچھ نہ کچھ تجارتی دبائو بھی ڈال سکے گا۔ اگر چین نے شمالی کوریا پر پابندی لگانے میں اقوام متحدہ کا ساتھ نہ دیا ہوتا تو کم کی حرکتوں میں کوئی کمی شاید ہی آتی۔ اس طرح یہ دراصل چین کی جانب سے سوچ میں تبدیلی کے بدلے میں دکھائی گئی لچک ہے‘ جس کا مظاہرہ کم کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ شمالی کوریا کی روزمرہ استعمال کی اشیا کی ضرورتوں کا 90 فیصد چین ہی پورا کرتا ہے۔ اگر چین کا دبائو برابر بنا رہا تو یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہو گی کہ 68 سال پہلے شروع ہونے والی کوریائی سرد جنگ اور بٹوارے کا خاتمہ ہو جائے اور دونوں کوریا ایک بار پھر ایک ہو جائیں۔ اگر دو جرمنی اور دو ویتنام کا ایک ہونا ممکن ہو سکتا ہے تو دونوں کوریا کیوں نہیں مل سکتے؟ اس ملن سے اس پورے خطے میں ایٹمی خطرہ تو ہٹے گا ہی‘ شمالی کوریا کے عام آدمی کی زندگی میں نئی امنگ بھی پیدا ہو گی اور دونوں ملکوں بلکہ پورے ایشیا کی معیشت پر اس کے نہایت مثبت اور اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پھر یہ معاملہ چین اور امریکہ میں نزدیکیاں بھی بڑھائے گا۔ ان کے اختلافات اگر مکمل طور پر ختم نہ بھی ہوئے تو کم ضرور ہو جائیں گے۔ اور یہ بات خاصے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ چین اور امریکہ ایک دوسرے کے قریب آ گئے تو اس سے ایک نئی دنیا جنم لے گی۔
دبو پن سے باہر آئی مودی سرکار
گزشتہ پورے سال کے دوران ایسا لگ رہا تھا کہ ہمارے یعنی بھارت کے نو سکھئے لیڈر چین کے آگے سرنڈر ہو گئے ہیں‘ لیکن اب تازہ خبروں سے ایسا لگتا ہے کہ 'جب جاگو‘ تبھی سویرا‘ والا معاملہ ہے۔ اب خود بھارت سرکار اروناچل پردیش کے بھارت چین سرحدی علاقے پر نہ صرف جم کر فوجی تعینات کر رہی ہے بلکہ اس کا پرچار بھی کر رہی ہے۔ اور اس حوالے سے بھارت نے یہ پالیسی اپنائی ہے کہ اس پرچار سے چین ناراض ہوتا ہو تو ہو جائے۔ میری نظر میں یہی صحیح نظریہ ہے۔ ملکی مفاد سب سے اول ہے۔ اب تک یہ ہوتا رہا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم مودی نے چین کے صدر کو احمد آباد میں جھولے پر جُھلایا‘ اور شی جن پنگ نے مودی کو سارے جنوب ایشیائی ممالک میں جھولے پر لٹکا دیا۔ اس حوالے سے بھارت نے جو توقعات وابستہ کر رکھی تھیں‘ وہ پوری نہیں ہوئیں۔ علاقے کی بعض انتہا پسند جماعتوں پر روک لگوانے پر چین نے اڑنگا لگا دیا‘ روہنگیا معاملے میں نریندر مودی بغلیں جھانکتے رہے اور شی نے اپنے وزیر خارجہ وانگ کو بنگلہ دیش اور برما بھیج کر ان میں سمجھوتہ کروا دیا‘ مالدیپ کے عبداللہ یامین نے بھارت کی دھمکیوں کو گیدڑ بھبکی ثابت کر دیا‘ اور بھارت کے حامیوں کو اندر کر دیا‘ سری لنکا اور چین میں تعاون اتنا بڑھ گیا کہ بھارت کے کان کھڑے ہو گئے۔ اسی طرح نیپال میں چین پرست کمیونسٹوں کا بول بالا ہو گیا۔ بھارت کے سبھی پڑوسی ممالک میں چین اپنا پیسہ پانی کی طرح بہا رہا ہے۔ اس نے ڈوکلام تنازع میں بھارت کو پٹخنی مار دی۔ بھارت کو مجبور کر دیا کہ وہ وہاں سے اپنی افواج ہٹالے اور اس علاقے میں‘ چین نے سڑکیں بنا لیں‘ ہیلی پیڈ کھڑے کر دیے اور اپنی فوجیں بھی تعینات کر دیں۔ اس نے بھارت پر اتنے رعب جما دیے کہ بھارت سرکار نے دلائی لاما کے بھارت اور افغانستان کے مابین ہونے والے کئی پروگرام ملتوی کر دیے۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ مودی سرکار اب اپنے دبو پن سے باہر نکل رہی ہے۔ کچھ دن پہلے ہوئے دھرم شالا میں ہوئے تبتی پروگرام میں وفاقی وزیروں نے شرکت کی اور ارونا چل کی کنٹرول لائن پر بھارت افواج کی کئی ڈویژن فوج تعینات کر دی گئی ہے۔ اس لائن پر چین نے گزشتہ برس 426 بار مداخلت کی تھی۔ اب اس لائن پر بوفورس توپیں‘ براہموس میزائل‘ ٹی 72 ٹینک اور سخوئی 30 لڑاکا طیارے تعینات کر دیے ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا کہ جب جاگو تب سویرا۔ تاہم دیکھنا پڑے گا کہ بھارت اپنا یہ روپ کب تک برقرار رکھتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ چین ایک دبکا مارے اور ہمارے لیڈروں پر پھر دبو پن چھا جائے۔
اگر دو جرمنی اور دو ویتنام کا ایک ہونا ممکن ہو سکتا ہے تو دونوں کوریا کیوں نہیں مل سکتے؟ اس ملن سے اس پورے خطے میں ایٹمی خطرہ تو ہٹے گا ہی‘ شمالی کوریا کے عام آدمی کی زندگی میں نئی امنگ بھی پیدا ہو گی اور دونوں ملکوں بلکہ پورے ایشیا کی معیشت پر اس کے نہایت مثبت اور اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بات دعوے کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ پھر یہ معاملہ چین اور امریکہ میں نزدیکیاں بھی بڑھائے گا۔ ان کے اختلافات اگر مکمل طور پر ختم نہ بھی ہوئے تو کم ضرور ہو جائیں گے۔