"DVP" (space) message & send to 7575

مودی کو مودی ہی بچا سکتا ہے

کانگریس کا صدر بننے کے بعد راہول گاندھی کا یہ پہلا بڑا جلسہ تھا۔ لمبے وقت سے رام لیلا میدان میں اتنی بھیڑ جمع نہیں ہوئی تھی۔ بھیڑ اکٹھا کرنے میں کانگریس پارٹی کی مہارت کے بارے میں کون نہیں جانتا؟ لیکن راہول جیسے کچے لیڈر کے نام پر دلی کی گرمی میں اتنی بھیڑ کا جمع ہونا کیا بتاتا ہے؟ کیا یہ نہیں کہ کانگریس کی حالت کتنی ہی پتلی ہو‘ اس کے کارکنوں میں پھر امید جاگنے لگتی ہے۔ انہیں پتا ہے کہ مودی کے خلاف ابھی تک پورے بھارت میں کوئی لہر نہیں اٹھی‘ تاہم کانگریس آکروش (ہندی زبان کا لفظ جس کے معنی ہیں غصہ) ریلی کے نام سے اس لہر کو اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ مودی مخالف فضا پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس لہر کو اٹھانے کی اس کوشش سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کو دینے کے لیے کانگریس کے پاس اپنا کوئی پیغام نہیں ہے۔ ایسا ہو سکتا ہے کہ مودی سے بھارت کے عوام کا اعتماد اٹھانے کی یہ مہم یا لہر اگلے چھ ماہ تک طول پکڑ لے۔ اگر ایسا ہوا تو کوئی تعجب کی بات نہ ہو گی کیونکہ آکروش کی اس لہر پر سوار ہونے لائق کوئی لیڈر شاید بھارت میں موجود نہیں ہے۔ مودی سے کہیں زیادہ تجربہ کار‘ دانش مند‘ با اخلاق لیڈر بھاجپا میں ہیں اور اپوزیشن میں بھی‘ لیکن ان میں سے آج کوئی بھی مودی کو للکار دینے کے لائق نہیں ہے۔ بلکہ یہی سوال ذرا یاد کریں تو ساری صورتحال واضح ہو جائے گی‘ جو 2014ء میں سونیا اور من موہن کے سامنے بھی تھا؟ بالکل تھا لیکن پھر بھی وہ ہار گئے۔ نریندر مودی کا نام اچانک ابھرا اور لوگوں نے اس نام کے سر پر تاج رکھ دیا اور یہ کام اس حقیقت کے باوجود کیا گیا کہ یہ نام جتنا بڑا تھا اتنا ہی بدنام بھی تھا۔ 2004ء میں اٹل بہاری واجپائی کی شکست کا سبب یہ مودی ہی تو تھا لیکن سوال یہ ہے کہ پھر بھی بھارت کے لوگوں نے اسے کیوں چن لیا؟ اس سوال کا جواب بڑا سیدھا سادا ہے۔ اس لیے چن لیا کہ لوگ کانگریس سے بہت زیادہ ناراض تھے۔ انہیں کانگریس کی کارکردگی پسند نہیں آئی تھی۔ اس وقت لوگوں کی ناراضی اتنی حد پار کر چکی تھی کہ مودی تو کیا‘ جو بھی سامنے آ جاتا‘ اس کے گلے میں وہ ہار ڈال دیتی۔ کہیں 2019ء میں پھر وہی قصہ دوہرایا تو نہیں جائے گا؟ ڈر یہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بھارت کی بد قسمتی ہو گی‘ لیکن مودی اگر چاہیں تو بھاجپا کی کشتی کو اب بھی ڈوبنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اگر چاہیں تو! گزشتہ چار برس میں اس مودی سرکار نے جتنے عوامی فائدے کے فیصلے کیے ہیں‘ ان کے ٹھوس نتائج عوام کو دکھائیں جیسے کہ اس عرصے میں چھ لاکھ دیہات میں بجلی پہنچانے کا کام کل پورا ہوا۔ اس کے علاوہ جو وقت باقی بچا ہے ضروری ہے کہ وہ اسے نوٹنکیوں‘ بھاشن بازی اور بیرونی دوروں میں برباد نہ کریں۔ شی جن پنگ‘ ڈونلڈ ٹرمپ یا پیوٹن آپ کی ڈوبتی نائو کو کوئی سہارا نہیں دے سکتے۔ چار سال میں بھاشن خوب جھاڑ لیے‘ تقریریں بھی بہت کر لیں اور وعدے بھی بہت ہوئے۔ اب عوام کی بھی سنیں۔ عوامی دربار لگائیں۔ پریس کانفرنسیں کریں۔ پارٹی کارکنان سے ملیں۔ بھاجپا کو ماں بیٹا (کانگریس) کی طرح بھائی بھائی پارٹی نہ بنائیں۔
ٹرمپ اور نیتن یاہو کی بدبودار کڑھی 
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے خود کو مذاق بنا لیا ہے۔ انہوں نے گزشتہ دنوں ایک زبردست پریس کانفرنس کر ڈالی‘ محض یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ایران ایٹمی ہتھیار زوروں سے بنا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کر کے ایران ان چھ ممالک کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے‘ جنہوں نے ان کے ساتھ 2015ء میں ایٹمی معاہدہ کیا تھا اور جس کے بعد ایران پر لگی پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔ یاہو کی مانگ (تقاضا) ہے کہ ایران پر دوبارہ پابندی لگائی جائے اور اس معاہدے کو رد یعنی ختم کیا جائے۔ اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے نیتن یاہو نے لگ بھگ دس ہزار خفیہ ایرانی دستاویزات کو کھوج نکالنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ نیتن یاہو کے مطابق مذکورہ دستاویز فارسی زبان میں ہیں اور انہیں اسرائیلی جاسوسوں نے ایران سے اڑایا ہے۔
یاہو کی دلیل کو امریکہ کے علاوہ ان سبھی ملکوں نے رد کر دیا ہے‘ جنہوں نے اس سمجھوتے پر دستخط کیے تھے۔ چین اور روس کو امریکہ کا دشمن سمجھ کر چھوڑ دیں تو فرانس اور بریٹین(برطانیہ) جیسے ملکوں نے بھی کہا ہے کہ نیتن یاہو نے کوئی نیا ثبوت پیش نہیں کیا۔ وہی پُرانے ثبوت ہیں‘ جن کی بنیاد پر ایران کے خلاف پابندیاں (بین) لگائی گئی تھیں۔ یہی بات ویانا کی ایٹمی ایجنسی نے کہی ہے۔ اس ایجنسی کے انسپکٹر ایرانی ایٹمی ہتھیاروں اور ایندھن پر سخت نگرانی رکھتے ہیں۔ یورپی یونین نے بھی نیتن کی دلیل کو خارج یا مسترد کر دیا ہے۔ لیکن امریکہ کے ٹرمپ صاحب نے یاہو کی پشت تھپتھپائی اور کہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم سو فیصد صحیح ہیں۔ امریکی قانون کے مطابق ٹرمپ کو نوے دن بعد اس معاہدے (ایران کے ساتھ کئے گئے معاہدے) کو ہری جھنڈی دکھانا ہوتی ہے۔ توثیق کا ایک سرٹیفکیٹ دینا ہوتا ہے۔ 12 مئی کو یعنی آج سے چند روز بعد وہ مدت پوری ہو رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اپنی ٹھگی پر ڈٹے رہنے کو درست ثابت کرنے کے لیے ٹرمپ ایران کو لال جھنڈی دکھا دیں۔ یعنی ایران کو کلیئرنس سرٹیفکیٹ جاری نہ کریں۔ ٹرمپ کے نئے وزیر خارجہ مائیک پونپیو اور قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن یہی چاہتے ہیں۔ ٹرمپ کی سوچ شاید یہ ہے کہ جیسے شمالی کوریا کے کِم کو دھمکیاں دے کر انہوں نے ڈرا لیا‘ ویسے ہی وہ ایران کو بھی جھکا لیں گے۔ مغربی ایشیا کے کئی علاقوں میں امریکہ‘ اسرائیل اور سعودی عرب کو ایران ٹکر دے رہا ہے‘ یعنی مختلف حوالوں سے چیلنج پیش کر رہا ہے۔ اسے ڈرانے کے اس امریکی حربے نے ٹرمپ اور نیتن یاہو‘ دونوں کو عالمی سطح پر مزاحیہ کردار بنا دیا ہے۔
کابل سے غیر ملکی افواج کیسے ہٹیں؟
افغانستان میں آئے دن اتنی مار کاٹ مچی رہتی ہے کہ اب دنیا اس طرح کی خبروں پر زیادہ دھیان نہیں دیتی۔ شاید اس (عالمی برادری) کے لئے یہ خبریں اب معمول بن چکی ہیں۔ لیکن کابل میں گزشتہ دنوں جس طرح چالیس پچاس لوگوں کی موت ہوئی‘ اس پر ساری دنیا کا دھیان گیا ہے۔ ان لوگوں میں آٹھ دس صحافی بھی تھے۔ اس سے پہلے 22 اپریل کو 60 لوگ مارے گئے تھے۔ مارچ میں آرین نئے سال کے موقع پر بھی 31 لوگ مارے گئے تھے۔ مارے جانے والوں میں صحافی تو تھے ہی‘ معصوم بچے اور عورتیں بھی تھیں۔ ان بے قصور لوگوں میں کوئی لیڈر نہیں تھا۔ کوئی فوجی نہیں تھا۔ کوئی سرکاری افسر نہیں تھا۔ ان زخمیوں میں افغان ہی تھے۔ مسلمان ہی تھے۔ کوئی کافر نہیں تھا۔ تو یہ قتل کیوں ہوئے؟ کون سا ثواب کا کام ہوا؟ یہ کون سا اسلامی کام ہوا؟ اس سے کیا اسلام کی عزت بڑھی؟ اگر یہ کام افغانستان میں بیرونی افواج کو رکھنے کے خلاف کیا گیا تو میں پوچھتا ہوںکہ کیا اس کے ڈر کے مارے وہاں سے غیر ملکی افواج ہٹا لی جائیں گی؟ ان حرکتوں کی وجہ سے ہی 17 سال سے وہاں غیر ملکی فوجیں ڈٹی ہوئی ہیں۔ اوباما انہیں ہٹانا چاہتے تھے اور ٹرمپ نے تو اعلان بھی کر دیا تھا لیکن انہوں نے اب ان فوجوں کو افغانستان میں پھر جما لیا ہے۔ طالبان اور داعش کے لڑاکو یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اگر وہ ہزار برس تک بھی اسی طرح دہشت گردی پھیلاتے رہے تو ان کی وجہ سے ہی افغانستان کو تب تک غلامی کرتے رہنا پڑے گی۔ وہ دن گئے‘ جب پونے دو سو سال پہلے انہوں نے انگریزوں کے سولہ ہزار فوجیوں کو کاٹ ڈالا تھا اور انگریز کو دھول چٹا دی تھی۔ اب زمانہ بہت بدل گیا ہے۔ اب طالبان کو چاہیے کہ وہ افغانستان میں الیکشن لڑیں۔ تبھی ان کی شکایات دور اور مطالبات پورے ہو سکیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں