"DVP" (space) message & send to 7575

گاندھی میدان میں پھانسی دی جائے!

بہار کے علاقے مظفر پور میں ایک یتیم خانہ کی بچیوں کے ساتھ زیادتی کے جو واقعات رونما ہوئے‘ وہ رونگٹے کھڑے کر دینے کے لئے کافی ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر ان کے بارے میں کافی کچھ آ رہا ہے۔ یہ سب پڑھ اور دیکھ کر ہر بھارتی کا سر شرم سے جھکا جا رہا ہے‘ لیکن سیاسی سطح پر ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ یہ خاموشی ایسا پیغام دے رہی ہے‘ مانو یہ دھیان دینے لائق واقعہ ہی نہیں ہے۔ لیڈروں کو فرصت کہاں ہے؟ ملک کے دونوں عظیم لیڈر بہت زیادہ مصروف ہیں۔ ایک بیرونی دوروں پر ہے اور دوسرا سارے صوبوں کے چکر لگا کر اگلے چنائووں کی تیاری میں جُٹا ہوا ہے۔ اپوزیشن لیڈر اپنی روٹی سیکنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بہار کے گورنر ستیہ پال ملک کی ہمت اور پہل کی میں داد دیتا ہوں‘ جنہوں نے بہار اور ملک کی انتظامیہ کو خط لکھ کر ان کی نیند اڑانے کی کوشش کی۔ 34 تا 42 بچیوں نے رو رو کر یہ راز کھولا ہے کہ اس یتیم خانے کی انتظامیہ کیسے کیسے ظلم کرتی تھی۔ جو لڑکی بھی اس زیادتی اور ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی‘ اسے بھوکوں مار دیا جاتا تھا۔ نشہ آور دوا کھلا کر انہیں بے ہوش کر دیا جاتا‘ اور ایک دو لڑکیوں کو قتل کر کے انہیں خاموشی سے زمین میں گاڑ دیا جاتا تھا۔ اس واقعہ کا پتا تب چلا جب ممبئی کے ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنس کی آڈٹ رپورٹ میں اس ظلم کا حوالہ چھپا اور یہ معاملہ بہار کے سماج کلیان وزارت کو سونپا گیا۔ یہاں سوال یہی اٹھتا ہے کہ مظفر پور کے صحافی کیا کرتے رہے؟ بہار کے صحافیوں کے لیے کیا یہ واقعہ ایک شرمناک للکار ثابت نہیں ہوا؟ اس یتیم خانے کا منتظم برجیش ٹھاکر کافی رسوخ والا اور دولتمند آدمی ہے۔ اس نے سارے بھارتی لیڈروں اور صحافیوں کو اپنی جیب میں ڈال رکھا ہے؟ یہ اچھا ہوا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے اس واقع پر دھیان دیا ہے۔ اگر وہ خاص جواب دار اور اس کے ساتھیوں کو اگست کے آخر تک پٹنہ کے گاندھی میدان میں پھانسی پر لٹکا دیں تو ملک میں ایسی حرکت کوئی دوبارہ کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت میں خواتین کی عزت پر حملوں کے واقعات میں حالیہ چند برسوں میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ اس قسم کے شرمناک واقعات ملک کے بڑے اور چھوٹے تمام شہروں میں‘ یعنی ہر جگہ ہوئے ہیں‘ اور اسی وجہ سے دنیا بھر میں بھارت کی شہرت خواتین کے لیے غیر محفوظ ملک کی بن چکی ہے۔ ان واقعات میں ملوث مجرموں کے خلاف ضروری کارروائی نہ کی گئی تو اس گھناؤنے سماجی جرم کے واقعات یونہی جاری رہیں گے۔ 
آسام مخالفین کی نوٹنکی
کانگریس پارٹی ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے لیکن اس کے لیڈر کتنے بے وقوف ثابت ہو رہے ہیں؟ ان کے بھونڈے پن نے ساری اپوزیشن پارٹیوں کی ہوا نکال دی ہے۔ کل تک کانگریس آسام میں شہریت کے سوال پر بھاجپا سرکار کی سخت مذمت کر رہی تھی‘ راہول گاندھی اور ممتا بینر جی سر ملا کر راگ الاپ رہے تھے۔ نام لیے بنا دونوں یہ کہنے کی کوشش کر رہے تھے کہ بھاجپا سرکار نے جن چالیس لاکھ لوگوں کو بھارتی شہری نہیں مانا‘ وہ سب مسلم ہیں‘ یعنی بھاجپا سرکار آسام میں ہندو فرقہ کا ننگا ناچ رچا رہی ہے۔ اب تین دن بعد کانگریس کے نوسکھئے لیڈر کو بزرگ کانگریسیوں نے سمجھایا کہ بیٹا‘ تمہاری یہ بازی الٹی پڑ رہی ہے۔ اگر تمہارے بیان سے متاثر ہو کر آسام اور بنگال کے کچھ مسلم ووٹر کانگریس کے ساتھ آ بھی گئے تو سارے ملک کے ہندو ووٹر بھاجپا کی طرف کھسک جائیں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ شہریت رکھنے والوں کی تکنیکی بھول چوک کے سبب چالیس لاکھ میں بہت سے ہندوئوں‘ بنگالیوں‘ راجستھانیوں وغیرہ کا بھی رجسٹریشن نہیں ہو سکا ہے۔ اس پر راہول گاندھی نے پلٹی کھائی اور کانگریس ترجمان نے اعلان کیا کہ کانگریس سرکار نے 2005ء سے 2013ء کے بیچ 82728 بنگلہ دیشیوں کو ناجائز مداخلت کہہ کر نکال باہر کیا‘ جبکہ گزشتہ چار برس میں بھاجپا سرکار نے صرف 1822 کو باہر نکالا۔ یعنی بھاجپا ڈال ڈال تو کانگریس پات پات! من موہن سنگھ سرکار نے 2009ء میں 489 کروڑ خرچ کر کے لوگوں کی شہریت کی جانچ کے لیے 25000 ملازم تعینات کیے تھے‘ مطلب‘ بھاجپا آسام میں جو کر رہی ہے‘ وہ ٹھیک کر رہی ہے‘ ہم بے وقوف بن گئے‘ ہمیں معاف کر دیجئے۔ لیکن کانگریس نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اب وہ مظفر پور میں بچیوں کے ساتھ ہوئی زیادتی کی مخالفت کرتے ہوئے سارا ٹھیکرا بھاجپا کے سر پھوڑ رہی ہے۔ وفاق کی بھاجپا سرکار کو اس سے کیا لینا دینا؟ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے جو بھی ضروری کارروائی ہو سکتی ہے‘ وہ کر دی ہے۔ اچھا ہوتا کہ اس گندے ظلم کی مخالفت کرتے ہوئے اپوزیشن اقتدار والوں کو بھی شامل کرتے۔ تب ان کی مخالفت سچی مخالفت کہلاتی۔ ابھی تو وہ نوٹنکی جیسا لگتا ہے۔
ریزرویشن ہٹائو: ریزرویشن بڑھائو 
بھاجپا کے سابق صدر اور وفاقی وزیر نتن گڈکری کی ہمت کی میں داد دیتا ہوں۔ انہوں نے ریزرویشن کے بارے میں وہی بات کہہ دی‘ جو میں اکیلا گزشتہ پچیس برس سے کہہ رہا ہوں۔ ذات کی بنیاد پر سرکاری نوکریوں میں دلتوں اور محروموں کو ریزرویشن دینے کا میں خود اندھا حمایتی تھا۔ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی آواز میں آواز ملا کر ہم نوجوان آج سے پچاس برس پہلے کہا کرتے تھے ''سنسوپا نے باندھی گانٹھ پچھڑے پاویں سوں میں گانٹھ‘‘ ، لیکن اب ریزرویشن کی حالت دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جہاں تک سرکاری یا غیر سرکاری نوکریوں کا سوال ہے‘ ریزرویشن کسی بھی بنیاد پر نہیں دیا جانا چاہیے‘ وہ ذات کی بنیاد ہو یا اقتصادی بنیاد! روزگار یا نوکری ایک واحد بنیاد ہو‘ لائق‘ پس لائق۔ لائق ہونے کے علاوہ اگر آپ دیگر کسی بھی بنیاد کو مانیں گے تو وہ نا انصافی‘ نا جائز اور بد عنوانی کو بڑھائے گی۔ اس لیے پارلیمنٹ کو قانون پاس کر کے ریزرویشن کو بالکل ختم کر دینا چاہیے‘ یعنی ریزرویشن ہٹائو۔ لیکن میں پھر بھی ریزرویشن کی حمایت کروں گا۔ کیسی ریزرویشن؟ تعلیم میں ریزرویشن! پچاس فیصد نہیں‘ ساٹھ فیصد‘ جنم کی بنیاد پر نہیں‘ فعل کی بنیاد پر! جو بھی غریب ہو‘ محروم ہو‘ ان پڑھ ہو‘ ان کے بچوں کو تعلیمی اداروں میں ریزرویشن ملے۔ اس کی ذات نہ پوچھی جائے۔ ریزرویشن کا مقصد صرف جماعت میں داخلہ ہی نہیں‘ بلکہ مفت تعلیم‘ مفت کھانا‘ مفت کپڑے اور مفت رہائش بھی۔ اگر یہ بندوبست ہو جائے اور اسے کام‘ تجارت‘ تربیت پر بھی نافذکر دیا جائے تو کیا کہنے۔ وہ اس طرح کہ سماج کے جو ٹکڑے زیادہ بے روزگار ہیں یا جو کم نوکریاں حاصل کر پائے ہیں‘ انہیں آگے ترجیح دی جائے۔ اسی طرح تجارت میں بھی انہیں ترجیح دی جائے جن کے پاس اپنا مال بیچنے کے لیے بہتر مواقع نہیں رہے۔ اگر یہ ہو جائے تو آج کے ریزرویشن لینے والے لوگ‘ ریزرویشن کی نوکریوں کی بھیک پر لعنت بھیج دیں گے۔ اگر انہیں تعلیم‘ کام کاج اور تجارت کے بہتر مواقع فراہم کر دئیے تو وہ اپنے دم خم پر آگے بڑھ کر دکھائیں گے۔ اس طرح ایک بہتر سماج کھڑا ہو جائے گا۔ دس برس میں ہی بھارت کا نقشہ بدل جائے گا۔ وہ سماجی طبقے جن کو ریزرویشن کے نام پر نوکریوں کی معمولی بھیک دی جاتی ہے‘ تعلیم اور تجارت کے مواقع ملنے پر وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنے کنبوں کو کھلانے پلانے کا بندوبست کرنے میں سرکار کی تنخواہ سے بے فکر ہو جائیں۔ اس طریقے سے بھارتی سماج میں دو اچھی تبدیلیاں آئیں گی‘ ایک تو یہ کہ سینکڑوں سالوں سے چلی آ رہی سڑی گلی ذات پات کے فرق کی رسم مکمل برباد ہو جائے گی‘ اوردوسری یہ کہ غربت کی انتہائی پستی میں جینے پر مجبور لوگ اس پستی سے نکل آئیں گے‘ ایک گھر کا ایک فرد اگر پڑھ لکھ گیا اور اپنا کام کاج کرنے کے قابل ہو گیا تو مانو آپ نے پورے کنبے کو غربت سے نکال کر خوشحالی کی راہ پر ڈال دیا۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں