گزشتہ دنوں لال قلعہ سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جتنا اثر دار بھاشن دیا‘ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اتنا زور دار بھاشن آج تک بھارت کے کسی بھی وزیر اعظم کا نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنے چار برس کے کام کاج کی اتنی خاصیتیں پیش کیں کہ اپوزیشن لیڈر کا بوکھلا جانا فطری تھا۔ انہوں نے اپنی سرکار کی کامیابیوں کو کسانوں‘ مزدوروں‘ محروموں‘ عورتوں‘ نوجوانوں‘ فوجیوں غرض سبھی بھارتیوں کو فائدہ پہنچانے والا بتایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس عرصے میں جو کام کئے ان سے سب کو فائدہ پہنچا۔ انہوں نے اپنی بے چینی کا بھی جم کر ذکر کیا کہ وہ بھارت کو عظیم قوت بنانے میں لگے ہوئے ہیں‘ اور وہ چاہتے ہیں کہ بھارت خوشحال اور مضبوط بنے۔ انہوں نے بھارت کو اونچائیوں پر لے جانے کے لیے کئی نئے خواب دکھائے ہیں۔ مودی کی کوششں اور خوابوں کے بارے میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا‘ لیکن بنیادی شک یہ ہے کہ اپنی کامیابیوں کے جو آنکڑے لال قلعہ سے پیش کیے گئے‘ کیا وہ ہر طرح کے شک و شبہ سے بالا تر ہیں؟ کیا ان پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ کیونکہ ان پر تو کئی طرح کے سوالیہ نشان پہلے سے لگتے رہے ہیں‘ اور اب تو ان کی اور زیادہ چیر پھاڑ ہو گی۔ اب ان کا زیادہ گہرائی تک جائزہ لیا جائے گا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ مودی نوٹ بندی کے معاملے پر چپ کیوں رہے؟ کالے دھن کے خاتمے پر وہ بالکل خاموش کیوں رہے؟ نئے نوٹ چھاپنے پر جو تیس ہزار کروڑ روپے برباد ہوئے‘ ان کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ سو لوگوں کی موت ہو گئی‘ اس کے لیے کون جواب دہ ہے؟ روزگار کے مواقع کا کیا ہوا؟ ان مواقع میں اس عرصے میں کتنا اضافہ ہوا؟ اگر روزگار کے مواقع بڑھائے گئے تو ملک میں بے روزگاری کیوں پھیلی؟ اگر مودی نے زرعی شعبے کی ترقی کے لئے کچھ کیا تو پھر بھارت کے کسان اتنے بیزار اور بد حال کیوں ہیں؟ بھارت میں مسلسل ایک فرقہ وارانہ تنائو اور خوف کا ماحول کیوں بنا ہوا ہے؟ یہ تو ٹھیک ہے کہ جی ایس ٹی سے بھارت سرکار کو اربوں کھربوں کی آمدنی ہو گئی ہے‘ لیکن کیا بھارتی لوگوں کو چیزیں سستی ملنے لگی ہیں؟ کیا بھارت میں مختلف اشیا‘ خصوصی طور پر کھانے پینے کی چیزوں میں جو ملاوٹ کی جاتی ہے‘ اس میں کوئی کمی آئی؟ کیا تعلیم میں کوئی سدھار ہوا؟ خارجہ پالیسی کے معاملے میں ہم امریکہ اور چین کے پچھ لگو کیوں دکھائی پڑ رہے ہیں؟ پڑوسی ممالک سے دوریاں کیوں قائم ہو گئی ہیں؟ ہماری پاکستان پالیسی الٹے منہ کیوں گر گئی؟ کشمیر پالیسی کیوں ناکام ہوئی؟ مودی نے جو آنکڑے گنائے (گنوائے)‘ اگر ان کا کوئی ٹھوس اثر ہوتا تو وہ اتر پردیش کے لوک سبھا کی چار نشستوں پر کیوں نہ دکھائی پڑا؟ لال قلعہ سے دیا گیا یہ بھاشن بھارت کے عوام اگر بنا چبائے نگل گئے تو مان لیجئے کہ اپوزیشن کا کباڑہ ہو جائے گا۔ آج بھارت میں اپوزیشن کے پاس ایک بھی لیڈر ایسا نہیں ہے‘ جو مودی کی ٹکر میں کھڑا ہو سکے۔ مودی نے لال قلعہ سے اپنے دوسرے عام چنائو کے بھاشن کی شروعات کر دی ہے۔ یہ اگلے چنائو کا اعلان ہے۔ مگر مودی جی کے اس بھاشن کے ساتھ اپوزیشن جماعتوں سے سوال کیا جانا چاہیے کہ وہ کہاں ہیں‘ کیا کر رہی ہیں اور ان کے آگے کے کیا ارادے ہیں؟ کیا انہوں نے خود ہی خود کو پچھاڑ لیا ہے؟ کیا ان میں قیادت کا دم باقی نہیں رہا؟ اگر ایسی ہی بات ہے تو یہ بھارت کے عوام کے لیے کسی طرح خوش آئند نہیں‘ کیونکہ اس سے خوف پیدا ہوتا ہے کہ مودی جی کی سیاست من مانے راستے پر چلتی جائے گی اور اسے کوئی روکنے والا نہ ہو گا۔ اپوزیشن کی جماعتوں کے رویے سے یہ بہت حد تک ظاہر ہو چکا ہے۔ اس لیے آنے والے انتخابات اس لحاظ سے بھی اہم ہوں گے کہ ہمیں یعنی بھارتی عوام کو بھارتی سیاست کے وہ رویے دیکھنے پڑ سکتے ہیں‘ جن کا اس وقت ہم صرف خدشہ ہی ظاہر کر سکتے ہیں۔
اٹل جی: وہ بے جوڑ لیڈر تھے
اٹل جی کی وفات پر میں کیا لکھوں؟ اٹل جی سے میرا لگ بھگ پچپن برس تک تعلق رہا۔ وہ جب بھی اندور آتے‘ ہمارے گھر ان کا کھانا پہلے سے ہی طے ہوتا۔ میرے والد صاحب اور اٹل جی‘ دونوں ہی جن سنگھ کے شروعاتی کارکن تھے اور اس طرح ان میں اچھی خاصی دوستی تھی۔ میں 1965ء میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے دلی آ گیا اور تب سے اب تک اٹل جی سے روحانی رشتہ جیوں کا تیوں (جوں کا توں) بنا ہوا تھا‘ جو ان کی موت سے اب ٹوٹا ہے۔ وہ میری شادی میں (1970ئ) ملک کے دیگر متعدد لیڈروں کی طرح باراتی بھی بنے تھے۔ بطور وزیر خارجہ اٹل جی نے مجھے ہائی کمشنر کا عہدہ لینے کو کہا تھا اور بطور وزیر اعظم انہوں نے مجھے منسٹری کی آفر کی تھی۔ انہوں نے مجھے اندور سے لوک سبھا چنائو لڑنے کے لیے بھی کہا‘ لیکن میں نے‘ اب سے 61 برس پہلے جب مجھے پہلی بار جیل ہوئی تھی‘ عزم کیا تھا کہ میں کسی بھی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کروں گا۔ جب میں نے 1966ء میں انڈین سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کا تحقیقی کام ہندی میں لکھنے کی گزارش کی تو کئی بار پارلیمنٹ بند ہو گئی۔ بھارت میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اٹل جی‘ دین دیال جی اور گروگولولکر جی نے میری ڈٹ کر حمایت کی۔ اس وقت ڈاکٹر لوہیا‘ مدھو لمیے اور بھاگوت جھا آزاد جی نے درجہ اول کا کردار نبھایا۔ آج مجھے اٹل جی سے جڑی سینکڑوں یادیں آ رہی ہیں۔ ان پر کبھی اور لکھوں گا‘ تفصیل کے ساتھ لکھوں گا۔ لیکن آج تو میں یہی کہنا چاہوں گا کہ اٹل جی بھارت کے چار بڑے وزرائے اعظم میں گنے جائیں گے۔ نہرو جی‘ اندرا جی‘ نرسمہا رائو جی اور اٹل جی۔ اٹل جی نے ایٹمی دھماکے کر کے خود مختاری کی آواز دنیا میں بلند کی تھی۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈر کے طور پر ملک کے کروڑوں لوگوں سے جتنے خطاب کئے‘ ملک کے کسی دوسرے لیڈر نے نہیں کئے ہوں گے۔ وہ سچے محب وطن تھے۔ وہ وہمی نہ تھے اور فرقہ واریت میں یقین نہیں رکھتے تھے۔ وہ ''ستیارتھ پرکاش‘‘ اور ''داس کیپیٹل‘‘ کو ایک ساتھ رکھ کر پڑھنے کے حامی تھے۔ وہ مہا رشی دیانند اور آریہ سماج کے عقیدت مند تھے۔ انہوں نے بھاجپا کے صدر ہونے کے ناتے 1980ء میں 'گاندھی وادی سماج‘ کا نعرہ دیا تھا۔ 2002ء میں گجرات کے دنگوں کے وقت انہوں نے میری ایک تحریر کے لفظوں کو بار بار دہرایا کہ گجرات میں 'راج دھرم کا پالن‘ کیا جائے۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ اٹل جی کی دوستی بس یاترا کو پاکستان میں آج بھی پاک بھارت تعلقات کے باب میں سب سے بڑی پیش رفت قرار دیا جاتا ہے اور جب بھی دو ملکوں کے تعلقات کی بات کی جاتی ہے پاکستانی اس یاترا کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ تاریخی طور پر یاد رکھی جانے والی اس یاترا کے نتائج دونوں ملکوں کے تعلقات پر مستقل کوئی اثر نہ دکھا سکے۔ مگر ان کی وفات پر پڑوسی ملک نے جیسا اظہار افسوس کیا ہے‘ شاید کسی بھی بھارتی وزیر اعظم کے لیے نہیں کیا ہو گا۔ وہ بھارت کا نگینہ تھے۔ وہ اگر وزیر اعظم نہ بنتے تو بھی انہیں یہی عزت ملتی۔
اگر روزگار کے مواقع بڑھائے گئے تو ملک میں بے روزگاری کیوں پھیلی؟ اگر مودی نے زرعی شعبے کی ترقی کے لئے کچھ کیا تو پھر بھارت کے کسان اتنے بیزار اور بد حال کیوں ہیں؟ بھارت میں مسلسل ایک فرقہ وارانہ تنائو اور خوف کا ماحول کیوں بنا ہوا ہے؟ یہ تو ٹھیک ہے کہ جی ایس ٹی سے بھارت سرکار کو اربوں کھربوں کی آمدنی ہو گئی ہے‘ لیکن کیا بھارتی لوگوں کو چیزیں سستی ملنے لگی ہیں؟ کیا بھارت میں مختلف اشیا‘ خصوصی طور پر کھانے پینے کی چیزوں میں جو ملاوٹ کی جاتی ہے‘ اس میں کوئی کمی آئی؟