پاکستان کے وزیر اعظم کے طور پر عمران خان کتنے کامیاب رہیں گے‘ یہ تو وقت بتائے گا‘ لیکن حلف لیتے ہی انہوں نے جو کام کیا‘ وہ بھارت کے صدور اور وزرائے اعظم کے لیے بھی ایک مثال ہے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کے لائق ہے۔ بھارت ہی نہیں ہمارے لگ بھگ سبھی ہمسایہ ممالک کے لیڈروں کو عمران خان سے سبق سیکھنا چاہیے۔ بھارت کے سبھی پڑوسی ممالک کے بادشاہوں‘ صدور اور وزرائے اعظم سے گزشتہ پچاس برس میں‘ میں کئی بار ملا ہوں۔ نہایت ہی غریب ملک کے لیڈروں کو بڑے عیش و عشرت سے زندگی گزارتے دیکھا ہے‘ لیکن عمران خان ایسے پہلے لیڈر ہیں جو وزیر اعظم ہائوس کے لمبے چوڑے بنگلے کو چھوڑ کر اپنے مکان میں رہنا ہی پسند کرتے لیکن ان کی ایجنسیوں نے اس جگہ کو ٹھیک نہیں پایا ہے۔ جس وزیر اعظم ہائوس کو عمران نے دور سے سلام کیا ہے‘ اس میں 524 ملازم اور 80 کاریں ہیں‘ لیکن وہ صرف اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو ہی وہاں رکھیں گے۔ وہ وزیر اعظم ہائوس کو ایک تحقیقی یونیورسٹی بنا دینا چاہتے ہیں۔ میں اپنے ملک بھارت کے کئی صدور اور وزرائے اعظم سے اس طرح کی سادگی کے لیے کہہ چکا ہوں‘ لیکن انہوں نے انگریزوں کی نقل پر عوامی خدمت گاروں کے مکانوں کو شاہی محلوں میں بدل لیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک سیون ریس کورس بنگلہ پچاس برس پہلے جیسا تھا‘ اب وہ تین مورتی ہائوس سے بھی زیادہ پھیل گیا ہے۔ لعل بہادر شاستری نے دس جن پتھ کی روایت ڈالی تھی‘ لیکن اسے سب بھول گئے۔ سارے اپوزیشن لیڈر حکمرانوں پر حملہ کرتے رہتے ہیں‘ چھوٹی چھوٹی باتوں کو لے کر‘ لیکن ان کے شاہی ٹھاٹ باٹ اور اناپ شناپ خرچوں پر کوئی انگلی نہیں اٹھاتا‘ کیونکہ وہ خود بھی اس مالِ مفت کا مزہ لینے کے لیے للچائے رہتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ عمران خان اپنے اس ہمت والے قدم کو صرف ایک نوٹنکی بنا کر نہیں چھوڑیں گے‘ جیسا کہ آج کل لیڈر لوگ کر رہے ہیں‘ بلکہ وہ ایسا قدم اٹھائیں گے کہ ان کی یہ سادگی پاکستان کے خوشحال اور طاقتور طبقے میں پھیل جائے۔ اگر پاکستان کے مال دار لوگ عمران کو اپنا آئیڈیل بنا لیں تو پھر بد عنوانی پر قابو پانا مشکل نہیں رہے گا۔
اٹل جی کو یہ کیسا خراج تحسین؟
گزشتہ چند روز میں تین ایسے واقعات ہوئے ہیں‘ جن پر آر ایس ایس اور بھاجپا کے لیڈروں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ یہ تینوں واقعات ایسے ہیں‘ جو اٹل جی کے خیال کے خلاف ہیں۔ اگر اٹل جی آج ہمارے درمیاں ہوتے اور صحت مند ہوتے تو وہ چپ نہیں رہتے‘ بولتے اور اپنے ڈھنگ سے ایسا بولتے کہ سنگھ اور بھاجپا کی عزت بچ جاتی‘ بلکہ بڑھ جاتی۔ پہلا واقعہ‘ سوامی اگنی ویش جب اٹل جی کی ڈیڈ باڈی پر خراج تحسین پیش کرنے بھاجپا کے آفس گئے تو انہیں کچھ کارکنوں نے مارا پیٹا‘ دھکا مکا کی۔ کچھ بہنوں اور بیٹیوں نے چپلیں بھی دکھائیں۔ یہ کون لوگ ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ راستہ چلتے لوگ ہیں یا متحرک کارکن ہیں؟ بھاجپا کے ہیں یا سنگھ کے ہیں؟ اسی لیے انہوں نے ایک سنیاسی پر ہاتھ اٹھایا۔ انہیں غدار وطن کہا۔ انہیں نکسل پرست کہا۔ ان نوجوانوں نے اگنی ویش کی 79 برس عمر کا بھی لحاظ نہیں کیا۔ اٹل جی بھی اگنی ویش کی کچھ باتوں سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ میں بھی متفق نہیں ہوتا ہوں۔ اٹل جی کی اور میری بھی خارجہ پالیسی کے کچھ مدعوں پر تیکھی بحث ہو جاتی تھی۔ میں تو 'بھارت ٹائمز‘ میں بھی لکھ دیتا تھا‘ لیکن وہ گھر بلا کر مٹھائی کھلا کر مجھ سے بحث کرتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی نا پسندیدہ لفظ کا استعمال نہیں کیا‘ لیکن خراج تحسین کے وقت کسی فقیر سنیاسی کے ساتھ ایسی بد سلوکی کرنے والوں کی اگر سنگھ اور بھاجپا کے لیڈر مذمت نہیں کریں گے تو کیا یہ اٹل جی کو دلی خراج تحسین مانی جائے گی؟ دوسرا واقعہ‘ یہ ہوا کہ بہار میں موتی ہاری کی گاندھی یونیورسٹی میں ایک کم عقل پروفیسر نے انٹرنیٹ پر لکھ دیا کہ ''بھارتی پھاسی پرست کا ایک دور ختم ہوا‘ اٹل جی بہت لمبے سفر پر نکل چکے‘‘۔ اس پروفیسر کو کچھ کارکنوں نے اتنی بری طرح سے مارا کہ وہ بے چارا ہسپتال میں پڑا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس پروفیسر کی یہ بات خالصتاً بے وقوفانہ تھی‘ لیکن اٹل جی اسے سنتے تو وہ قہقہے لگاتے۔ کہتے کہ واہ کیا بات ہے؟ اسے تو نوبل پرائز دلوائیے! تیسری بات‘ نوجوت سنگھ سدھو کے عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہونے اور پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے مصافحے اور گلے ملنے کو ہمارے بھاجپا لیڈر اور کچھ ٹی وی چینلوں نے اتنا بڑا مدعا بنا دیا ہے کہ یہ بحث حاشیہ میں چلی گئی کہ عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے کیسے نمٹا جائے۔ مجھے خوشی ہے کہ دو تین چینلوں کے غصہ باز اینکروں نے میری مداخلت کے بعد اپنی پٹڑی بدل لی۔ جب ملک کے بڑے بڑے لیڈر غیر ملکی لیڈروں سے ملتے وقت ان کے گلے پڑنے سے نہیں چوکتے تو بے چارا سدھو کیا کرتا؟ اس نے بھی نقل مار دی۔ ابھی تک تو وہ گلے پڑو لیڈر کا ہی مرید تھا۔ سدھو بارہ برس تک بھاجپا کا ایم پی رہا۔ وہ ابھی ڈیڑھ برس پہلے ہی کانگریس میں شامل ہوئے ہیں۔
عمران خان سے بھارت کی امیدیں
گزشتہ دنوں کئی ٹی وی چینلز مجھ سے پوچھتے رہے کہ پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان بھارت پاک تعلقات کی کیا نئی عبارت لکھیں گے؟ ہر چینل پر جو دوسرے ترجمان یا تجزیہ نگار بیٹھے تھے‘ ان میں سے کئی بڑے فوجی‘ کئی تجربہ کار سفارت کار‘ سیاست دان اور کچھ لیڈر ٹائپ لوگ بھی تھے۔ لگ بھگ سب کی رائے نا امیدی والی تھی۔ ان ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران کے اس بیان پر کوئی بھروسہ نہ کرے کہ بھارت ایک قدم آگے بڑھائے گا تو ہم دوستی کے لیے دو قدم آگے بڑھائیں گے۔ بھارتی فوجی جنرل اور ہمارے سفارتی ماہرین پوری طرح سے نا امید تھے‘ لیکن میں نے با ادب لہجے میں گزارش کی کہ کیا انہوں نے پاکستان کے موجودہ حالات پر غور کیا ہے؟ پاکستان اس وقت اقتصادی مشکل میں پھنسا ہوا ہے‘ مہنگائی‘ بے روزگاری‘ قرض اور بد عنوانی نے مسائل کو بڑھا دیا ہے۔ ایسی حالت میں امریکہ نے بھی ہاتھ اونچے کر دئیے ہیں۔ ٹرمپ نے پاکستان کو دی جانے والی اربوں ڈالر کی امداد پر روک لگا دی ہے۔ کچھ اور پابندیاں بھی عاید کی گئی ہیں۔ اسے چین کا بہت سہارا تھا‘ لیکن چین کی تجویز‘ شاہراہ ریشم بھی کھٹائی میں پڑ رہی ہے۔ اس میں ہوئے خرچے کا ازالہ نہیں ہو پا رہا ہے۔ میرے خیال میں کچھ دنوں میں اکانومی مزید خراب ہو سکتی ہے۔ پھر دہشتگردوں کے خلاف ایسی کارروائی کرنی پڑے گی‘ جس سے امریکہ اور چین بھی مطمئن ہوں۔ گزشتہ دنوں 'برکس‘ کی بیٹھک میں دہشتگردی کا ایشو زیر غور لایا گیا۔ اس کے علاوہ چناوی مشن کے دوران جیسی جملے بازی کی جاتی رہی‘ ویسی پاکستان اور بھارت کے لیڈر ایک دوسرے کے خلاف اکثر کرتے رہتے ہیں۔ اب عمران خان وزیر اعظم ہیں۔ ان کا لہجہ بدلا ہوا ہے۔ کل ہی انہوں نے میاں نواز شریف پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ فوج کے بنائے ہوئے لیڈر نہیں ہیں۔ انہوں نے بائیس برس تک پسینہ بہایا ہے۔ عمران خان کے بھارت میں جتنے آج دوست ہیں‘ اتنے کسی پاکستانی وزیر اعظم کے نہیں رہے۔ یہ بھی ایک سبب ہو سکتا ہے‘ دونوں ملکوں کے بیچ ایک بحث شروع کرنے کا۔ اٹل جی کے آخری رسومات میں پاکستان کے وزیر اطلاعات کے آنے سے بھی کچھ اچھا اشارہ ابھرا ہے۔ مودی نے عمران کو مبارک دے کر اور ہمارے سفارت کار اجے بساریا نے عمران کو کرکٹ بیٹ کا تحفہ دے کر اچھی شروعات کی ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے!